تمام نیکیوں کا بنیادی اساسی اُصول؛ توحید ِالٰہی  (2)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جون 13, 2021 - افکار شاہ ولی اللہؒ
تمام نیکیوں کا بنیادی اساسی اُصول؛ توحید ِالٰہی  (2)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :

[توحید کے ان آخری دو مرتبوں کی مخالف جماعتیں]

’’... توحید کے ان آخری دونوں مرتبوں (1۔ آسمانوں اور زمینوں کی حکمرانی 2۔ اور اللہ کے علاوہ کوئی اَور عبادت کا مستحق نہیں) کے بارے میں کچھ انسانی جماعتیں اختلاف رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں کا تجزیہ کیا جائے تو اُن کے بڑے تین فرقے ہیں:

(1)         نجومی: یہ لوگ کہتے ہیں کہ ستارے عبادت کے مستحق ہیں۔ اُن کی عبادت دنیا میں نفع دیتی ہے۔ اپنی حاجتیں ان ستاروں کے سامنے پیش کرنا برحق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تحقیق کی ہے کہ:

(الف)    انسان کی نیک بختی اور بدبختی، انسان کی صحت اور بیماری اور یومیہ ہونے والے حوادث و واقعات میں ان ستاروں کا بڑا اثر ہوتا ہے۔

(ب) ان ستاروں میں عقل رکھنے والی روحیں کام کرتی ہیں، جو اِن ستاروں کی حرکات و سکنات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ یہ روحیں اپنی عبادت کرنے والوں سے غافل نہیں ہیں۔

اس طرح انھوں نے ستاروں کے نام پر بڑی عمارتیں تعمیر کیں اور اُن کی عبادت کی۔

(2)         مشرکین: یہ لوگ کائنات کے بڑے بڑے کاموں کے عالم گیر نظم و نسق کے حوالے سے تو مسلمانوں کے موافق ہیںاور اس میں بھی متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قطعی اور حتمی حکم صحیح ہے۔ وہ اللہ کے سوا کسی اَور کو حکم دینے کا اختیار نہیں دیتے، وہ باقی درجِ ذیل اُمور میں مسلمانوں سے موافقت نہیں رکھتے:

(الف) ان کا کہنا ہے کہ اُن سے پہلے ایسے نیک لوگ گزرے ہیں، جنھوں نے اللہ کی عبادت اور اُس کا قرب حاصل کیا تو اللہ نے خود انھیں اُلوہیت کا لباس پہنا دیا۔ اس طرح وہ نیک لوگ باقی مخلوق میں سے خود عبادت کے مستحق بن گئے۔ بالکل اسی طرح کہ کوئی بندہ کسی ملک کے شہنشاہ کی بہت اچھی طرح خدمت کرے تو شہنشاہ ایسے خدمت گار کو کسی علاقے کا بادشاہ بنا دیتا ہے اور اپنے ماتحت ریاست کے شہروں میں سے کسی ایک شہر کا نظم و نسق اور حکمرانی اُس کے سپرد کردیتا ہے۔ اب اُس شہر والوں پر لازمی ہے کہ اپنے اوپر مقرر کیے ہوئے بادشاہ کی فرماں برداری اور اطاعت کریں۔

(ب) وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی عبادت اُس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہوتی، جب تک کہ اُن نیک بندوں کی عبادت نہ کی جائے، بلکہ حق تعالیٰ بہت بلند درجے پر ہے۔ اس کے قرب کے لیے صرف اس کی عبادت فائدہ نہیں دے گی، بلکہ ان نیک بندوں کی عبادت کرنا لازمی ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے سفارش کریں۔

(ج) ان کا کہنا ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے سنتے بھی ہیں، دیکھتے بھی ہیں اور اپنے عبادت کرنے والوں کی سفارش بھی کرتے ہیں۔ وہی اُن کے کاموں کا نظم و نسق بھی چلاتے ہیں او ران کی مدد کرتے ہیں۔

چناںچہ انھوں نے ان نیک بندوں کے نام پر پتھر گھڑ لیے اور اپنی توجہ کا قبلہ و کعبہ ان پتھروں کو بنا لیا۔ اس کے بعد آنے والی نااہل نسلوں نے اُن نیک بندوں کی شکل و صورت اور ان کے بنائے ہوئے پتھروں کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھا، بلکہ انھوں نے براہِ راست انھی پتھروں کو اپنا معبود بنا لیا۔

اس لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس شرک اور کفر کو درجِ ذیل طریقوں سے رد کیا:

(الف) کبھی اس بات پر تنبیہ کی کہ حکمرانی اور بادشاہت صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔ (ب) کبھی یہ بات واضح کی کہ یہ پتھر کے بنے ہوئے بت جمادات میں سے ہیں۔ چناںچہ اللہ تعالیٰ نے ان سے قرآن حکیم میں درجِ ذیل سوالات کیے: (1) ’’کیا اُن کے پاؤں ہیں، جن سے وہ چلتے ہیں؟ (2) کیا ان کے ہاتھ ہیں، جن سے یہ پکڑتے ہیں؟ (3) کیا ان کی آنکھیں ہیں، جن سے یہ دیکھتے ہیں؟ (4)کیا ان کے کان ہیں، جن سے یہ سنتے ہیں؟ ‘‘(الاعراف:95)

3۔ نصرانی: یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ کا قرب اور باقی مخلوق پر برتری حاصل ہے۔ پس یہ مناسب نہیں ہے کہ انھیں ’’عبد‘‘ (اللہ کا غلام) کہا جائے اور دوسرے انسانوں کے برابر قرار دیا جائے۔ اس لیے کہ یہ اُن کے ساتھ بے ادبی ہے اور ان کو اللہ سے جو قرب حاصل ہے، اُسے نظرانداز کرنا ہے۔

(الف) پھر بعض نصرانیوں نے اس خصوصیت کی تعبیر کرتے ہوئے اُن کا نام ’’اِبنُ اللّٰہ‘‘ (اللہ کا بیٹا) قرار دے دیا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ باپ اپنے بیٹے پر رحم کرتا ہے اور اپنی نگاہوں کے سامنے اُس کی تربیت کرتا ہے اور وہ غلاموں کے مقابلے پر بلند تر ہوتا ہے۔ چناںچہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ابن اللہ کہنا زیادہ بہتر ہے۔

(ب) بعض نصرانیوں نے حضرت عیسیٰؑ کا نام ’’اللہ‘‘ رکھ دیا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت عیسیٰؑ کی ذات میں حلول کرگیا ہے۔ وہ اُن کے وجود میں داخل ہوگیا ہے۔ اسی لیے حضرت مسیحؑ سے ایسی کرامات اور آثار ظاہر ہوتے ہیں، جو کسی بشرِ انسانی سے ظاہر ہونا ممکن نہیں۔ مثلاً مُردوں کو زندہ کرنا، پرندے بنا کر اُڑانا۔ اس لیے اُن کا کلام‘ اللہ کا کلام ہے اور اُن کی عبادت‘ اللہ کی عبادت ہے۔

ان کے بعد ان کی نااہل اولادوں نے حضرت مسیحؑ کے اس نام کی اصل وجہ کو نہیں سمجھا اور انھوں نے حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا حقیقی بیٹا بنا دیا۔ یا انھوں نے یہ گمان کرلیا کہ حضرت مسیحؑ تمام پہلوؤں سے خود اللہ ہیں۔

اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس غلط فکر کا درجِ ذیل طریقوں سے رد کیا:

(1)         کبھی یہ حقیقت بتلائی کہ اللہ کی تو کوئی بیوی ہی نہیں ہے (اس کا بیٹا کیسے ہوگیا؟)۔ (الانعام: 101)

(2)         کبھی یہ حقیقت واضح کی کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو بغیر کسی مادے کے پیدا کرنے والا ہے۔ اور اللہ کے حکم کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ’’کُنْ‘‘ کہتا ہے تو وہ کام ہوجاتا ہے۔ (البقرہ: 116-17)

یہ تین (گمراہ) فرقے ہیں، جن کے بڑے لمبے چوڑے دعوے ہیں اور ان کی بہت سی خرافات ہیں۔ تحقیق کرنے والے پر یہ بات مخفی نہیں ہے۔

توحید کے انھی دو مرتبوں (1۔ آسمانوں اور زمینوں کی حکمرانی 2۔ اور اللہ کے علاوہ کوئی اَور عبادت کا مستحق نہیں) کے حوالے سے قرآن عظیم نے بحث کی ہے اور کافروں کے شبہات کو کافی طور پر بہت اچھے اور بہترین طریقے سے رد کیا ہے۔

(المبحث الخامس، مبحث البرّ و الإثم، باب 1: توحید)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار - حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ

اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (3) امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5۔ اللہ سے دعا کرنا او…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 21, 2022

تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 10, 2021

صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 20, 2023

چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار  (2)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چوتھی حدیث:)…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 18, 2022