امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں:
(1) صبح کے وقت (2) شام کے وقت اور (3) سونے کے وقت۔
آپؐ نے اکثر اذکار میں نیند سے بیدار ہوتے ہی ذکر کا وقت مقرر نہیں کیا۔ اس لیے کہ وہ صبح صادق کے طلوع کا وقت ہوتا ہے یا سورج نکلنے کا وقت ہوتا ہے۔
صبح اور شام کے اذکار میں آپؐ نے یہ دعائیں بیان فرمائی ہیں:
(صبح شام کی دعائیں)
(1) ’’اللّٰھُمّ ! عَالِمَ الْغَیْبِ و الشَّھَادَۃِ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ و الأرْضِ، رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ و مَلِیْکَہٗ، أشْھَدُ أن لَّا إلٰہَ إلَّا أنتَ، أعُوْذُ بِکَ مِن شَرِّ نَفْسِیْ، و مِنْ شَرِّ الشّیطانِ و شِرْکِہٖ‘‘۔ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ، : 2390)
(اے اللہ! تُو غیب اور حاضر کا جاننے والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ ہر چیز کا ربّ اور اُس کا مالک ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ اَور کوئی خدا نہیں۔ میں تیری پناہ میں آتا ہوں اپنے نفس کے شرّ سے، اور شیطان کے شرّ اور اُس کی شرکت سے۔)
(2) ’’أمْسَیْنَا، و أمْسَی الْمُلْکُ لِلّٰہ، و الْحَمْدُ لِلّٰہِ، و لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ، لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر۔
اللّٰہُمَّ ! إِنِّیْ أَسأَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ و خَیْرِ مَا فِیہَا، و أَعُوْذُ بِکَ مِن شَرِّہَا و شَرِّ مَا فِیہَا۔اللّٰہُمَّ ! إِنِّیْ أعُوْذُ بِکَ مِنَ الکَسَلِ، و الْہَرَمِ، و سُوْئِ الْکِبَرِ، و فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘۔ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ: 2381)
(ہم نے شام کی اور شام کے وقت ملکیت اللہ کی ہے۔ اللہ ہی کے لیے سب تعریفیں ہیں۔ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں۔ وہ اکیلا ہے، کوئی اُس کا شریک نہیں۔ اُسی کے لیے حکمرانی ہے۔ اُسی کے لیے سب تعریفیں ہیں۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے اس رات کی بھلائی اور جو کچھ اس میں خیر ہے، کا سوال کرتا ہوں۔ اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس رات کے شرّ سے اور اس میں جو شرّ موجود ہے، اس سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں سستی اور کاہلی سے، اور بڑھاپے سے، اور بڑھاپے کی بیماریوں سے، اور دنیا کے فتنے سے اور قبر کے عذاب سے۔)
یہ دعا صبح کے وقت پڑھتے ہوئے ’’أمْسَیْنَا‘‘ (ہم نے شام کی) کی جگہ پر ’’أصْبَحْنَا‘‘ (ہم نے صبح کی) کے لفظ سے تبدیل کردی جائے۔ اور ’’أمْسٰی‘‘ (شام ہوگئی) کی جگہ پر ’’أصبح‘‘ (صبح ہوگئی) پڑھا جائے۔ اور ’’ہٰذِہ اللَّیْلَۃ‘‘ (اس رات) کو ’’ہٰذَا الْیَوْم‘‘ (اس دن) سے بدل دیا جائے۔
(3) صبح کے وقت اس طرح پڑھے:
’’اللّٰہُمَّ ! بِک أَصْبَحْنَا وَ بِکَ أمْسَیْنَا، وَ بِکَ نَحْیَا، وَ بِکَ نَمُوْتُ، وَ إِلَیْکَ الْمَصِیْرُ‘‘۔
(اے اللہ! تیرے نام سے ہم نے صبح کی اور تیرے نام سے ہم نے شام کی۔ تیری ہی طرف سے ہم زندہ ہیں اور تیری طرف ہی ہم مریں گے۔ اور تیری طرف ہی ہم کو لوٹ کر جانا ہے۔)
اور شام کے وقت اس طرح پڑھے:
’’اللّٰہُمَّ ! بِکَ أمْسَیْنَا، و بِکَ أَصْبَحْنَا، وَ بِکَ نَحْیٰی، وَ بِکَ نَمُوْتُ، وَ إِلَیْکَ النُّشُور‘‘۔ (مشکٰوۃ: 2390)
(اے اللہ! تیرے ہی نام سے ہم نے شام کی۔ اور تیرے ہی نام سے ہم نے صبح کی۔ اب تیرے ہی نام پر ہم زندہ ہیں اور تیرے ہی نام پر ہم مریں گے اور تیری ہی طرف ہم اُٹھائے جائیں گے۔)
(4) ’’بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الأَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَاء، وَ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم‘‘ تین مرتبہ پڑھے۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 2391)
(شروع اُس اللہ کے نام سے کہ اُس کے نام کے ساتھ کوئی چیز بھی زمین میں نقصان نہیں پہنچا سکتی اور نہ آسمان میں۔ وہی خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔)
(5) ’’سُبْحَانَ اللّٰہ وَ بِحَمْدِہِ، وَ لَا قُوََّۃ إِلَّا بِاللّٰہ، مَا شَائَ اللّٰہُ کَانَ، وَ مَا لم یَشَأْ لم یَکُنْ۔ أعْلَمُ أَنّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٍ، وَ أَنّ اللّٰہ قَدْ أحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا‘‘۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 2393)
(پاک ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُسی کے لیے حمد و ثنا ہے۔ کوئی قوت نہیں ہے سوائے اللہ کے۔ جو وہ چاہتا ہے، ہوجاتا ہے۔ اور جو نہیں چاہتا، وہ نہیں ہوتا۔ میں یہ بات جانتا ہوں کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔)
(6) فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ، وَ لَهُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْهِرُوْنَ، یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ وَ كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ۠ ۧ
(-30 الروم: آیت: 17 تا 19، رواہ ابوداؤد، مشکوٰۃ، حدیث: 2394)
(پاک ہے اللہ کی ذات جب تم شام کرتے ہو اور جب تم صبح کرتے ہو۔ اُسی کے لیے سب تعریفیں ہیں آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور شام کے وقت اور جب تم ظہر کے وقت ہوتے ہو۔ وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ اور زمین کو مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ایسے ہی تمھیں بھی زمین سے اُٹھایا جائے گا۔) (باب الاذکار و ما یتعلق بھا)
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (4۔ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی عظمت اور سلطنت ) ’&rs…
احسان و سلوک کی ضرورت اور اہمیت (1)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ شریعت نے انسان کو سب سے پہلے حلال و حرام کے حوالے س…
سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) تیسرا اصول ’’سماحتِ نف…
مختلف اوقات اور حالات کی دعائیں(4)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (نئے کپڑے پہننے کی دعائیں) جب نیا کپڑا پہنے تو یہ دعائیں پڑھے: (1) …