میثاقِ عدل کی واضح طور پر خلاف ورزی

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جنوری 14, 2023 - دروس القرآن الحکیم
میثاقِ عدل کی واضح طور پر خلاف ورزی

سورت البقرہ کی گزشتہ آیت (84) میں بنی اسرائیل کے میثاقِ عدل کا تذکرہ تھا۔ اس معاہدے کی دو شِقیں تھیں: (1) وہ ایک دوسرے کا خون نہیں بہائیں گے۔ (2) وہ ایک دوسرے کو اپنے گھروں سے باہر نکال کر جلاوطن نہیں کریں گے۔ درجِ ذیل آیت (85) میں اُن کی طرف سے اس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کا ذکر ہے۔

(پھر تم وہ لوگ ہو کہ ایسے ہی خون کرتے ہو آپس میں): بنی اسرائیل نے معاہدے کی پہلی شِق کی خلاف ورزی کی اور اپنے سماج میں ذاتی مفادات اور گروہی طبقات کی بنیاد پر ایک دوسرے کا قتل کرنا شروع کردیا۔ طاقت ور حکمران طبقے دوسری اقوام کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی قوم کے انسانوں کو قتل کرتے تھے۔ اور اس طرح اُن سے مفادات اُٹھاتے تھے۔

(اور نکال دیتے ہو اپنے ایک فرقے کو اُن کے وطن سے): بنی اسرائیل نے معاہدے کی دوسری شِق کی بھی خلاف ورزی کی۔ اُن میں سے ایک فرقہ دوسرے فرقے کو وطن سے بے وطن کرنے میں اَغیار کا ساتھ دیتا تھا۔ ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات کے لیے دوسری اقوام کے ساتھ مل کر اپنی ہی قوم کے نوجوانوں کو اپنے ہی ملک سے جلاوطن اور بے گھر کردیتے تھے۔

حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ لکھتے ہیں: ’’مدینے میں دو فریق یہودیوں کے تھے: ایک بنی قُریظہ، دوسرے بنی نضیر۔ یہ دونوں آپس میں لڑا کرتے تھے۔ اور مشرکوں کے بھی مدینے میں دو فرقے تھے: ایک اَوس، دوسرے خزرج۔ یہ دونوں بھی آپس میں دشمن تھے۔ بنی قُریظہ تو اَوس کے موافق ہوئے اور بنی نضیر نے خزرج کے ساتھ دوستی کی تھی۔ (آپس کی) لڑائی میں ہر کوئی اپنے منافقوں اور دوستوں کی حمایت کرتا۔ جب ایک کو دوسرے پر غلبہ ہوتا تو کمزوروں کو جلاوطن کرکے اُن کے گھر ڈھاتے (تھے)‘‘۔

(چڑھائی کرتے ہو اُن پر گناہ اور ظلم سے): دوسری اقوام کے ساتھ مل کر اپنے ہی لوگوں پر چڑھائی کرکے سخت گناہ کا ارتکاب کرنا اور ظلم و زیادتی کا معاملہ کرنا یہودیوں کا وطیرہ بن چکا تھا۔

(اور اگر وہی آویں تمھارے پاس کسی کے قیدی ہو کر تو اُن کا بدلہ دے کر چھڑاتے ہو): اُن کی عادت تھی کہ پہلے قوم کے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی قوم کے لوگوں کے ساتھ لڑائی کرتے اور انھیں گرفتار کرواتے تھے۔ پھر تورات میں بیان کردہ قانون کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے لیے مال جمع کرتے اور ان قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے دشمنوں کو فدیے کے طور پر مال دیتے تھے۔

حضرت شیخ الہندؒ مزید فرماتے ہیں: ’’اور اگر کوئی قید ہو کر پکڑا آتا تو سب رَل مِل کر مال جمع کرکے اُس کا بدلہ دے کر قید سے اُس کو چھڑاتے (تھے)‘‘۔

(حال آں کہ حرام ہے تم پر اُن کا نکال دینا بھی): حال آں کہ میثاقِ عدل کی دوسری شِق کے مطابق اُن پر یہ حرام تھا کہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو جلاوطن نہ کریں اور ہجرت کرنے پر مجبور نہ کریں۔

امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ہمیں انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں ہماری قوم‘ ملک پر مسلط کافروں (انگریزوں) کی صف میں شامل ہو کر مسلمانوں سے لڑتی رہی ہے۔ خاص طور پر انھوں نے جنگِ عظیم اوّل میں انگریز سامراج کے ساتھ دوستی اور موالات کی تھی۔ یہ اُن کے دین کی بہت بڑی کمزوری رہی ہے کہ وہ عیسائی حکمرانوں کے ماتحت رہ کر کام کرتے رہے ہیں۔

لیکن مجھے اس بات پر بڑا فخر ہے کہ ہمارے علمائے دیوبند میں سے ہمارے مشائخ وہ حضرات ہیں کہ جنھوں نے انگریزوں کے ساتھ اس دوستی اور موالات کی قباحت اور خرابی کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ وہ اگرچہ انگریزوں کے ساتھ دوستی کرنے کے اس گناہ میں شریک ہونے سے عام مسلمانوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی پوری طاقت اور قوت سے دین میں خیانت کرنے والے ایسے لوگوں کے مکر و فریب کا پردہ چاک کیا ہے۔ ان علمائے حق کی یہ کمزور سی تحریکِ آزادی ٹھنڈی نہیں ہوئی، بلکہ آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور بہ تدریج ملک کی آزادی کی یہ تحریک ایک بھڑکتی ہوئی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی، لیکن ہمارے شیخ حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ کی وفات (1905ء) کے بعد ہماری جماعت میں جو جمود اور سکون پیدا ہوا، اس نے ہمارے لیے اپنے مقصد کی کامیابی میں بہت زیادہ تاخیر کردی۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم منہ بھر کر فخر کا اظہار کریں، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے مشائخ میں ایسے لوگ بھی تھے، جو ہمارے شیخ المشائخ (حضرت گنگوہیؒ) کی وفات کے بعد اُن کے طریقے پر چلتے رہے۔ وہ جماعت کی اجتماعیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی قدرت کے مطابق تحریکِ آزادی کے راستے پر چلتے رہے۔ اگر جنگِ عظیم اوّل (1914ء تا 1918ء) مزید دو سال کی تاخیر سے شروع ہوتی تو اس تحریک کو منظم کرنے کے لیے کافی فرصت مل جاتی۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی صورت میں یہ تحریک اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوجاتی۔ اس سست روی کے زمانے میں ہماری جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے، جو رجعت پسند اور گھروں میں دبک پر بیٹھنے والے تھے۔ وہ اپنے مقصد اور دل کی بات واضح طور پر بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اس لیے کہ جدوجہدِ آزادی کے امور کے لیے ایک جماعت پورے طور پر قائم تھی۔ نیز جدوجہد کا یہ کام صرف ہمارے شیخ (مولانا محمودحسنؒ) تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ اُن کے ساتھ حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کے متبعین کی ایک جماعت اور مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ کے متبعین کی ایک جماعت _ مثلاً مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری ہیں _پورے طور پر شامل رہے۔ وہ ہمارے شیخ، شیخ الہند (محمودحسنؒ) کے حجاز جانے کے بعد مجاہدین آزادی کے سربراہ اور رئیس مقرر ہوئے تھے۔

ہمارے شیخ مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ نے (1857ء کے بعد) اپنے سکون و اطمینان کے زمانے میں (تحریک ِآزادی کے حوالے سے) ایسے کام کیے ہیں، جن کا اس وقت اظہار کرنا مناسب نہیں ہے۔ گھروں میں بیٹھنے والے رجعت پسند لوگوں کے مکر و فریب کو توڑنے اور ان کے باطل دعوؤں کی تردید کے لیے یہ بات کافی ہے کہ حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ جیسے لوگ ہمارے شیخ (حضرت گنگوہیؒ اور حضرت شیخ الہندؒ) کی سیاسی جماعت میں پورے طور پر شامل رہے ہیں‘‘۔ (الہام الرحمن فی تفسیر القرآن)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

آئین و قانون شکنی؛ یہودیوں کی عادت

سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (87 تا 90) میں بنی اسرائیل کی اس خرابی کا تذکرہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی جامع دینی تعلیمات کا بڑے ت…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جون 14, 2023

انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول

گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اکتوبر 10, 2022

قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج

سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 16, 2023

فکری گمراہی کی و جہ سے عملی سیاست کا فساد

سورۃ البقرہ کی گزشتہ آیات (97 تا 99) میں واضح کیا گیا کہ ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے بنیادی حقائق میں سے ایک حضرت جبرائیل علیہ السلام کی تاریخی حقیقت کو ماننا ہے، جب کہ یہود…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 11, 2023