حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز
سلسلۂ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے چوتھے مسند نشین حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز اور جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ، ضلع سہارن پور (انڈیا) کے مہتمم حضرت مولانا محمداختر قاسمیؒ مؤرخہ۲۷؍ جمادی الاولیٰ۱۴۴۳ھ / یکم؍ جنوری 2022ء بروز ہفتہ کو اِرتحال فرما گئے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر ہندوستان بھر سے ہزاروں لوگ جنازے میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ مولانا مرحوم کے ہم سبق اور ساتھی حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی مدظلہٗ العالی (مہتمم دارالعلوم دیوبند) نے ان کی نماز ِ جنازہ پڑھائی اور جامعہ کے قبرستان میں ہی تدفین عمل میں لائی گئی۔ إنّا للّٰہ و إنّا إلیہ راجعون۔ إنّ لِلّٰہ ما أخَذَ و لہ ما أعطٰی و کُلُّ شَیٍٔ عندہٗ إلٰی أجلٍ مُسمّٰی۔
بلاشبہ حضرت مولانا قاسمیؒ گلشنِ رحیمی رائے پور کے ایک مہکتے ہوئے پھول تھے۔ ان کی روحانیت سے صدہا علما، طلبا اور متعلقینِ سلسلہ عالیہ رحیمیہ فیض یاب ہوئے۔ حضرت مولاناؒ نے جامعہ اسلامیہ کی پینتالیس سال خدمت کی، اس دوران ہزاروں طلبا ان سے فیض یاب ہوئے۔ حضرت مولاناؒ کی وفات سلسلۂ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے تمام متوسلین اور جامعہ کے فضلا اور طلبا کے لیے انتہائی حزن و ملال کا باعث بنی۔ ہندوستان اور پاکستان میں رائے پوری سلسلے کے متعلقین ہی نہیں، بلکہ تمام دینی مراکز کے علما اور مشائخ نے اُن کی کمی کو شدت سے محسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور لغزشوں کو معاف فرمائے۔ اس دوران ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں دورۂ تفسیر کے سلسلے میں سینکڑوں علما اور طلبا شریک تھے۔ حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ کے دیگر مجازین اور خلفا یہاں جمع تھے۔ چناں چہ فوری طور پر حضرت مولاناؒ کے لیے ایصالِ ثواب کیا گیا۔
مولانا محمداختر قاسمیؒ کی ولادت قصبہ ریڑھی تاج پورہ ضلع سہارن پور میں محترم محمداسحاقؒ کے گھر 24؍ اپریل 1943ء کو ہوئی۔ والد ِمحترم اگرچہ پڑھے لکھے نہیں تھے، لیکن انھوں نے بڑی محنت و مشقت سے رزقِ حلال کما کر اپنے خاندان کی پرورش کی۔ اسی رزقِ حلال کے اثرات تھے، جو آپؒ کی سیرت کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ آپؒ کی والدہ نہایت نیک سیرت تھیں۔ انھیں دینی تعلیم دلوانے کا بڑا شوق تھا۔ ابتدائی طور پر انھیں خود قاعدہ بھی پڑھایا۔ اس کے بعد ستمبر 1951ء میں جامعہ اسلامیہ میں باقاعدہ داخل ہوئے اور مولانا محمدصدیقؒ سے ناظرہ قرآن پاک اور پھر حافظ رشیداحمدؒ سے حفظ مکمل کیا۔
حفظ کے بعد عصری تعلیم کے لیے جامعہ کے پرائمری کے شعبے میں داخل ہو کر پرائمری نصاب کے ساتھ ساتھ فارسی کی کتابوں کی تکمیل بھی کی۔ بعد ازاں اسی جامعہ میں درسِ نظامی کا آغاز کیا اور۱۳۸۳ھ/ 1964ء میں ’’شرح جامی‘‘ تک کتب پڑھیں۔ اس کے بعد درسِ نظامی کی تکمیل کے لیے دارالعلوم دیوبند شریف لے گئے اور چار سال بعد۱۳۸۶ھ / 1967ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ آپؒ کے اساتذہ میں حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ (مہتمم دارالعلوم دیوبند)، مولانا سیّد فخرالدین احمدؒ، حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ جیسے جید علما اور مشائخ شامل ہیں۔ اس کے بعد آپؒ جامعہ اسلامیہ میں علومِ دینیہ کی تدریس میں مشغول رہے۔ پھر 14ا؍ نومبر 1976ء کو جامعہ کے منصبِ اہتمام پر فائز ہوئے، جس پر آپؒ اپنے انتقال تک متمکن رہے۔ اس طرح آپؒ نے پینتالیس سال علومِ دینیہ کے فروغ کے لیے بہت عمدگی سے نظم و نسق قائم کیا۔
آپؒ سلسلۂ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے تیسرے مسند نشین حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ سے ربیع الثانی۱۴۰۷ھ / نومبر 1987ء میں رائے پور ضلع سہارن پور میں بیعت ہوئے۔ اس موقع پر حضرت اقدس رائے پوریؒ کا ساڑھے تین ماہ (نومبر تا فروری 1987ء) گلشنِ رحیمی رائے پور میں قیام رہا تھا۔ راقم سطور کو بھی اس سفر میں حضرتؒ کی معیت حاصل رہی۔ اس موقع پر حضرت اقدس رائے پوری ثالثؒ کا رائے پور آتے جاتے جامعہ اسلامیہ میں قیام ہوا۔ جامعہ کے علما اور طلبا آپؒ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ حضرت اقدس رائے پوری ثالثؒ سے بیعت ہونے کے بعد پورے عزم و ہمت اور مجاہدے کے ساتھ سلسلے کے ذکر اور بتلائے گئے معمولات کو پورا کیا۔ اس کے بعد حضرت اقدس رائے پوری ثالثؒ کے پاکستان سے رائے پور کے کئی اسفار ہوئے۔ اس دوران حضرت مولاناؒ بہت محبت اور عشق سے رائے پور میں قیام فرما ہوتے رہے۔
جون 1992ء میں حضرت اقدس رائے پوری ثالثؒ کے وصال کے بعد آپؒ نے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے اُسی طرح اپنی تربیت اور تعلیم کا تعلق قائم رکھا۔ حضرت مولانا مرحوم کو حضرت اقدس رائے پوری ثالثؒ اور رابعؒ سے بڑی محبت تھی۔ اپنے حالات و کیفیات سے حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ کو خطوط کے ذریعے آگاہ کرتے رہے۔ ٹیلی فون کے ذریعے بھی ہمیشہ حضرت رائے پوری رابعؒ سے رابطہ رکھتے تھے۔ حضرتؒ جب بھی رائے پور ہندوستان تشریف لے جاتے تو ان کے اِصرار پر جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ میں ضرور تشریف لے جاتے تھے اور طلبا کے سامنے بیانات فرماتے تھے۔ چناں چہ حضرت اقدس رائے پوریؒ مولاناؒ کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ریڑھی کا مدرسہ ہمارا مدرسہ ہے۔ یہاں ہم اپنے دل کی بات کھل کر کہہ دیتے ہیں‘‘۔ حضرت مولاناؒ نے جب مشائخ رائے پور کی صحبت سے سلسلے کے معمولات میں کمال حاصل کیا تو حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ نے اپنے رائے پور کے سفر (صفر تا ربیع الثانی۱۴۲۰ھ/ مئی تا جولائی 1999ء) میں آپؒ کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ کے حکم پر راقم سطور نے ہی اس کا مجمع عام میں اعلان کیا تھا۔ اس طرح حضرت مولانا محمداختر قاسمیؒ کو سلسلۂ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے فروغ کے لیے ایک اہم ذمہ داری خانقاہ کی طرف سے سونپی گئی، جسے انھوں نے بڑی خوبی سے نبھایا اور ہمیشہ ہندوستان بھر میں سلسلۂ رائے پور کے متوسلین کے لیے ایک چھتر سایہ کا کردار ادا کیا اور متعلقین کی سرپرستی کی۔ اس کے بعد آپؒ کئی بار حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ کی صحبت کے لیے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور پاکستان تشریف لائے۔ حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ کے وصال کے بعد لاہور کے ایک سفر میں حضرتؒ کے حوالے سے ایک انٹرویو دیتے ہوئے مولانا مرحوم فرماتے ہیں: ’’حضرت اقدس رائے پوریؒ کے اَخلاق بہت عمدہ تھے اور کوئی شخص آپؒ کے اعلیٰ اَخلاق سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ آپؒ نے اکابرین اور ان کی فکر و جدوجہد کا تعارف کروانا زندگی کا نصب العین اور مقصد بنا رکھا تھا۔ سخت سے سخت مشکل اور پریشانی بھی ان کی راہ میں حائل نہیں ہو سکی اور مکمل یقین اور اعتماد کے ساتھ آپؒ نے ولی اللّٰہی فکر و اصول پر جماعت کی تیاری کا عمل جاری رکھا۔ انھیں دیکھ کر اکابرین کی یاد تازہ ہو جاتی تھی‘‘۔
حضرت مولانا مرحوم‘ مشائخ رائے پور کے طریقۂ کار اور ولی اللّٰہی اُسلوب کے مطابق شریعت، طریقت اور سیاست کی جامعیت کے حامل شخصیت تھے۔ آپؒ ایک طرف جامعہ اسلامیہ میں درس و تدریس اور شریعتِ حقہ کی تعلیم و ترویج میں منہمک رہے اور بڑے عمدہ نظم و نسق کے ساتھ جامعہ کا نظام چلایا تو دوسری طرف رائے پوری سلسلے کے معمولات کی پابندی اور متوسلین کو سلسلۂ عالیہ رحیمیہ کے ساتھ جوڑنے اور سلوک و احسان کے فروغ کے لیے آپؒ نے بڑا کردار ادا کیا۔ اسی کے ساتھ آپؒ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ کی قائم کردہ جماعت ’’جمعیت علمائے ہند‘‘ ضلع سہارن پور کے امارت کے منصب پر بھی فائز رہے۔ اس سلسلے میں آپؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک ِآزادی کے حوالے سے جدوجہد اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کی سیاسی جدوجہد اور قومی کردار کو سامنے رکھ کر رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے جامع فکر و عمل کو فروغ دینے کے لیے بھی ہمیشہ کوشاں رہے۔
حضرت مولانا مرحوم کو راقم سطور سے بھی بڑا محبت کا تعلق تھا۔ 1987ء کے سفر سے ہی انھوں نے راقم کے ساتھ اعزاز و اِکرام کا معاملہ رکھا۔ رائے پور کے اَسفار کے دوران جب بھی حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ جامعہ اسلامیہ میں تشریف لے گئے تو حضرتؒ سے کہہ کر میرا بیان بھی طلبا کے سامنے ضرور کرایا کرتے تھے۔ ایک بار سفر میں بخاری شریف کے ختم کے موقع پر بھی بڑے اِصرار کے ساتھ بیان کرایا۔ حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ کے وِصال (ستمبر 2012ء) کے بعد گویا آپؒ کی محبت اور تعلق مزید بڑھ گیا۔ مشائخ رائے پور کی نسبت کو سامنے رکھتے تھے، اس لیے ہمیشہ خط لکھنا اور آنے جانے والے لوگوں کے ہاتھوں اِکرام کی ہر شکل کو برقرار رکھنا ان کی خصوصیات رہیں۔اللہ تعالیٰ انھیں اپنے مشائخ اور بزرگوں کی معیت نصیب فرمائے اور جزائے خیر عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ اُن کے صاحبزادگان؛ مولانا محمدہارون، مولانا عبدالمنان، مولانا محمد میمون اور مولوی عبدالسبحان اور جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ کے نائب مہتمم مولانا محمدجمشید صاحب اور دیگر اربابِ اہتمام و انتظام کو صبرِ جمیل نصیب فرمائے اور ان کا صحیح اور سچا جانشین نصیب فرمائے۔ (آمین!)
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
ہماری والدۂ مرحومہ رحمہا اللّٰہ تعالٰی
ہماری والدۂ محترمہ نعیمہ خاتون مؤرخہ ۲۴؍ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ / 5؍ جون 2021ء بروز ہفتہ کو مختصر علالت کے بعد اپنے ربّ سے جا ملیں۔ إنّا لِلّٰہ و إنّا إلیہ راجعون۔ آپؒ کے والد ِگر…
حضرت حاجی صوفی محمدسرور جمیلؒ کا سانحۂ ارتحال
حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے مجاز حضرت حاجی صوفی محمدسرور جمیلؒ کا سانحۂ ارتحال حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے مجاز حضرت حاجی صوفی محمدس…
حضرت مولانا مفتی عبدالسلام چاٹگامیؒ کا سانحۂ ارتحال
خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے تیسرے مسند نشین حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری قدس سرہٗ کے متوسلِ خاص، خانقاہِ دین پور بہاولنگر کے تیسرے مسند نشین حضرت مولانا محم…