اِخبات الی اللہ کا خُلق حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی صفات میں غور و فکر اور تدبر ضروری ہے، اس کے لیے تلاوتِ قرآن حکیم کے ذریعے قرآنی آیات میں غور و تدبر کیا جاتا ہے۔ نیز احادیثِ قدسیہ میں بیان کردہ صفاتِ الٰہیہ پر غور و فکر بھی بڑا مفید ہے۔اس حوالے سے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’(تدبر صفاتِ الٰہی کے لیے) قرآن حکیم کے علاوہ وہ احادیثِ قدسیہ ہیں، جو رسول اللہ ﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کی ہیں، درجِ ذیل ہیں:
(1۔ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو حرم قرار دیا ہے)
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
٭ ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں نے تمھارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔
٭ اے میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمھیں ہدایت دوں گا۔
٭ اے میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، اس لیے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمھیں کھلاؤں گا۔
٭ اے میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو، سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں، لہٰذا مجھ سے لباس مانگو، میں تمھیں لباس پہناؤں گا۔
٭ اے میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں ہی سب کے سب گناہ معاف کرتا ہوں، سو مجھ سے مغفرت مانگو، میں تمھارے گناہ معاف کروں گا۔
٭ اے میرے بندو! تم کبھی مجھے نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھو گے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو، نہ کبھی مجھے فائدہ پہنچانے کے قابل ہو گے کہ مجھے فائدہ پہنچا سکو۔
٭ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے والے اور تمھارے بعد والے اور تمھارے انسان اور تمھارے جنات سب مل کر تم میں سے ایک انتہائی متقی انسان کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری حکومت اور ملک میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔
٭ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے والے اور تمھارے بعد والے اور تمھارے انسان اور تمھارے جنات سب مل کر تم میں سے سب سے فاجر آدمی کے دل کے مطابق ہوجائیں تو اس سے میری حکومت اور ملک میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
٭ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے اور تمھارے پچھلے اور تمھارے انسان اور تمھارے جنات سب مل کر ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی مانگی ہوئی چیز عطا کر دوں تو اس سے جو میرے پاس ہے، اس میں اتنا بھی کم نہیں ہوگا جو اُس سوئی سے (کم ہوگا) جو سمندر میں ڈالی (اور نکال لی) جائے۔
٭ اے میرے بندو! (یہ جو کچھ تمھیں دیا جاتا ہے) یہ تمھارے ہی اُن اعمال کے نتائج کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، جو میں تمھارے لیے محفوظ رکھتا ہوں۔ پھر میں اُن کا تمھیں پورا پورا بدلہ دیتا ہوں۔ پس جو آدمی خیر اور بھلائی کا نتیجہ پائے تو اُس کو چاہیے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جو آدمی خیر کے علاوہ نتیجہ پائے تو اُسے چاہیے کہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب البر و الصلہ، باب تحریم الظلم: 6572)
(2۔ توبہ کی قبولیت کا ایک اہم واقعہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص تھا، اس نے ننانوے انسان قتل کیے۔ پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا (کہ وہ کون ہے؟) اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا۔ وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ (کا کوئی راستہ) ہے؟ اس نے کہا: نہیں! تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس (کے قتل) سے سو قتل پورے کر لیے۔
اس نے پھر اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا۔ تو اس نے (اس کے پاس جا کر) کہا: اس نے سو قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ (کا امکان) ہے؟ اس (عالم) نے کہا: ہاں! اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ، وہاں (ایسے) لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آؤ۔ یہ بُری سرزمین ہے۔
وہ چل پڑا، یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کر لیا تو اسے موت نے آ لیا۔ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا۔ اور عذاب کے فرشتوں نے کہا: اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا۔ تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا، دونوں طرف کے فرشتوں نے اسے اپنے درمیان (ثالث) مقرر کر لیا۔ اس نے کہا: دونوں زمینوں کا درمیانی فاصلہ ماپ لو، وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ اسی (زمین کے لوگوں) میں سے ہوگا۔
فرشتوں نے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا، چناں چہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا‘‘۔
حضرت قتادہؒ نے کہا: حسن (بصریؒ) نے کہا: ’’(اس حدیث میں) ہمیں بتایا گیا کہ جب اسے موت نے آ لیا تھا تو اس نے خود کو اپنے سینے کو (گھسیٹ کر گناہوں بھری زمین سے) دور کر لیا تھا‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب التوبہ، حدیث: 7008)
(أبواب الإحسان، باب: 3، بقیّۃُ مَباحث الإحسان)
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (4۔ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی عظمت اور سلطنت ) ’&rs…
احسان و سلوک کی ضرورت اور اہمیت (1)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ شریعت نے انسان کو سب سے پہلے حلال و حرام کے حوالے س…
سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) تیسرا اصول ’’سماحتِ نف…
مختلف اوقات اور حالات کی دعائیں(4)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (نئے کپڑے پہننے کی دعائیں) جب نیا کپڑا پہنے تو یہ دعائیں پڑھے: (1) …