امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’جاننا چاہیے کہ شریعت نے انسان کو سب سے پہلے حلال و حرام کے حوالے سے جن چیزوں کا پابند بنایا ہے، وہ ایسے اعمال ہیں کہ جن کے ذریعے سے انسان کے نفس میں اعلیٰ اَخلاق پیدا ہوں۔ چناں چہ اُن کاموں کو واجب اور لازم قرار دیا گیا ہے، جو آخرت میں انسانی نفوس کے لیے فائدہ مند ہیں اور ان اعمال کو حرام قرار دیا گیا کہ جن کے نتیجے میں وہ سزا کے مستحق بنیں (اس طرح پہلے درجے میں اعمال کی ظاہری شکل و صورت کا پابند بنایا گیا اور دوسرے درجے میں ان اعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اَخلاق حاصل کرنے کا پابند بنایا گیا ہے)۔
شریعت کے لازم کردہ اعمال پر دو پہلوؤں سے بحث ضروری ہے:
(1) جمہور انسانوں پر جن اعمال کا کرنا لازمی ہے، اُن کی بہترین صورت یہ ہے کہ:
(الف) ایسے اعمال کو اختیار کیا جائے کہ جن سے اَخلاق پیدا ہوں۔
(ب) اُن اعمال کو کرنے کا ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ جو تمام لوگوں کے سامنے ہو اور اس حوالے سے اُن کا مواخذہ کیا جاسکتا ہو، تاکہ لوگوں کو ان اعمال کی ادائیگی کے وقت اِدھر اُدھر کھسک جانے اور عذرِ لنگ کرنے کا موقع نہ ملے۔
(ج) یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اعمال میانہ روی اور طے شدہ منضبط اُمور پر مشتمل ہوں۔
(2) اعمال کا اس حوالے سے جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس کے نتیجے میں تہذیب ِنفس پیدا ہو اور ان اعمال کے ذریعے سے مطلوب اَخلاق و اَقدار تک پہنچا جاسکے۔
اس سلسلے میں عمدہ ترین بات یہ ہے کہ:
(الف) اُن اَخلاق اور اَقدار کی پہچان اور معرفت حاصل کی جائے۔
(ب) ایسے اعمال کی پہچان حاصل کی جائے کہ جن کے ذریعے سے ان اعلیٰ اَخلاق و اَقدار تک رسائی حاصل ہوتی ہو۔
اِن دونوں باتوں کی بنیاد ’’وِجدان‘‘ پر ہے۔ وِجدان کے ذریعے سے اعمال کے بنیادی اُمور کا تعین کرنا اُس اتھارٹی (اللہ کے رسول) کا کام ہے، جو اِن اعمال کا انسانوں کو پابند بناتی ہے (جیسا کہ تمام انبیا علیہم السلام نے کیا اور خاص طور پر نبی اکرم ﷺ نے وِجدانِ الٰہی کے ذریعے شریعت ِمحمدیہ کے اعمال متعین کیے ہیں)۔
جمہور انسانوں کے لیے شریعت کے اعمال کی ادائیگی کے حوالے سے پہلی بحث کا تعلق ’’عِلمُ الشَّرائع‘‘ (شریعتوں کے علم) سے ہے۔ اور تہذیبِ نفس کے حوالے سے اعمال کی نوعیت کے بارے میں بحث کرنا ’’علمُ الإحسان و السُّلوک‘‘ سے ہے۔
(علم الاحسان کا دائرۂ کار)
احسان و سلوک سے متعلق مباحث پر نظر و فکر کرنے والے کے لیے لازمی ہے کہ وہ دو باتوں کی طرف توجہ دے:
(1) اپنے اعمال کو اس پہلو سے دیکھے کہ وہ انسانی نفس پر کس طرح کے اثرات اور اَخلاق مرتب کر رہے ہیں؟ اس لیے کہ اعمال:
(الف) بسا اوقات ریاکاری، کسی کو سنانے کے لیے یا محض عادت پوری کرنے، یا عُجب و تکبر اور کسی پر احسان جتانے اور کسی کو تکلیف پہنچانے کی نیت سے بھی کیے جاتے ہیں۔ اس طور کیے گئے اعمال سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔
(ب) بسا اوقات اعمال اس طرح ادا کیے جاتے ہیں کہ جن سے انسانی نفس میں صفتِ احسان رکھنے والے لوگوں کی طرح پورا فائدہ اور نفس کو تنبیہ حاصل نہیں ہوتی۔ اگرچہ ان اعمال کی ادائیگی سے انسانی نفوس میں کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے، مثلاً کوئی آدمی صرف اصل فرض عمل ادا کرے اور اُسے معیار اور مقدار سے متعلق کیفیات حاصل نہ ہوں تو ایسا آدمی اعلیٰ درجے کا محسن اور صاف ستھرا نہیں ہوتا۔
(2) احسان و سلوک کی مباحث کے حوالے سے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ اَخلاق و اَقدار کیا ہیں؟ تاکہ اُن کا پورا پورا حق ادا کیا جاسکے اور پوری بصیرت کے ساتھ اس طرح اعمال کیے جائیں کہ جن سے اعلیٰ اَخلاق پیدا ہوں۔ اور وہ اپنی دلی خوشی کے ساتھ اپنی روح کے امراض کو دور کرنے کی سلیقہ مند سیاست اختیار کرے۔ بالکل ایسے ہی جیسے انسانی طبیعت کا علاج کرنے والا طبیب جسمِ انسانی کو بہتر کرنے کی حکمت اور سیاست کرتا ہے۔ ان اَخلاق کی معرفت اور پہچان اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو آدمی اپنے مقصد کے حصول کے ذرائع و وسائل اور آلات و اوزار نہیں جانتا تو ممکن ہے کہ ایسا آدمی جب انھیں استعمال میں لائے گا تو وہ گویا کہ اندھی اونٹنی پر سوار کی طرح بھٹکتا پھرے، یا جیسے رات کے اندھیرے میں لکڑیاں چننے والا بھٹکتا ہے۔
(انسانیت کے بنیادی اَخلاق)
احسان و سلوک کے فن میں جن اصولی اور بنیادی اَخلاق سے بحث کی جاتی ہے، وہ چار ہیں، جیسا کہ ہم گزشتہ ’مباحث‘ (چوتھے مبحث کے چوتھے باب) میں بیان کرچکے ہیں:
(1) طہارت: ایسی طہارت حاصل کرنا، جس سے عالَمِ مَلَکُوت (ملائِ اعلیٰ اور وہاں موجود فرشتوں) کے ساتھ مشابہت پیدا ہوجائے۔
(2) اِخبات: اللہ کے سامنے ایسی عجز و اِنکساری اختیار کرنا کہ جس کے نتیجے میں عالَمِ جَبَرُوت (صفاتِ باری تعالیٰ اور عرشِ الٰہی) کی طرف توجہ حاصل ہوجائے۔
’’طہارت‘‘ کے حصول کے لیے شریعت نے وضو اور غسل جیسے اعمال، جب کہ ’’اِخبات‘‘ کے حصول کے لیے نماز، ذکر و اَذکار اور تلاوت ایسے اعمال لازمی قرار دیے ہیں۔ یہ دونوں اَخلاق جب کسی انسان میں جمع ہوجائیں تو ہم نے اس کا نام ’’سکینت‘‘ اور ’’وسیلہ‘‘ رکھا ہے۔ یہی مطلب ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ کے اُس قول کا جو انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں کہا تھا کہ: ’’حضرت محمد ﷺ کے محفوظ اَصحاب کو اس بات کا علم تھا کہ بے شک وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف وسیلے کے طور پر سب سے زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔ (رواہ الحاکم و الترمذی) (جاری ہے)
(من أبواب الإحسان، باب(1): علمُ الشّرائع و الإحسان)
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (4۔ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی عظمت اور سلطنت ) ’&rs…
مختلف اوقات اور حالات کی دعائیں(4)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (نئے کپڑے پہننے کی دعائیں) جب نیا کپڑا پہنے تو یہ دعائیں پڑھے: (1) …
سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) تیسرا اصول ’’سماحتِ نف…
صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…