سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اکتوبر 10, 2021 - افکار شاہ ولی اللہؒ
سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) تیسرا اصول ’’سماحتِ نفس‘‘ ہے۔

(سماحت ِنفس کی حقیقت اور معنویت)

اور وہ یہ ہے کہ انسان کی ملکیت، اپنی بہیمیت کے درجِ ذیل تقاضوں کے تابع اور ان کی فرماں برداری اختیار نہ کرے:

(1)        محض لذتوں کے حصول کی طلب اور خواہش

(2)        (کسی سے) انتقام لینے کی چاہت اور لذت

(3)        حد سے زیادہ غضب ناک ہونے کی حالت

(4)        (روپے پیسے میں) بخل اور کنجوسی سے محبت

(5)        بہت زیادہ مال اکٹھا کرنے کی حرص اور لالچ سے محبت

(6)        (دوسروں کو حقیر سمجھتے ہوئے) جاہ و مرتبت حاصل کرنے کی چاہت

انسان جب بہیمیت سے مناسبت رکھنے والے ان اعمال کو سرانجام دیتا ہے تو اُس وقت اُس کے نفس کی گہرائی اور جوہر میں ان اعمال کا ایک رنگ چڑھ جاتا ہے:

(الف) پس اگر ایک انسان میں سماحتِ نفس ہو تو اُس کے لیے ان پست عادات و اطوار اور اُن کے بُرے رنگ سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے گویا کہ اُس کے نفس پر کسی قسم کا کوئی رنگ موجود ہی نہیں۔ وہ اللہ کی رحمت کی طرف خالص ہو کر یکسو ہوجاتا ہے۔ اگر مزید کوئی رُکاوٹ نہ ہو تو اپنے نفس کی اصل جبلت اور فطرت کے تقاضوں کے مطابق انواراتِ الٰہیہ کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔

(ب) اگر کوئی انسان اپنے نفس میں خُلقِ سماحت نہ رکھتا تو اُن بداعمالیوں کا رنگ اُس کے نفس میں ٹھیک اُسی طرح باقی رہتا ہے، جیسا کہ کسی مُہر پر نقش شدہ الفاظ موم پر منقش ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اُس کی روح پر دنیاوی زندگی کی میل کچیل اور بُرے اثرات چپک جاتے ہیں۔ اس کے لیے ان سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوتا۔

ایسے آدمی کے جسم سے جب روح نکلتی ہے تو اُس کے گناہ اس کے آگے پیچھے اور اُس کے دائیں بائیں، غرض ہر طرف سے اُسے گھیر لیتے ہیں۔ ایسے انسان کی روح اور انسانیت کی اصل فطرت کے تقاضے سے پیدا ہونے والے انوارات کے درمیان بہت زیادہ موٹے پردے حائل ہوجاتے ہیں۔ یہ حالت اُس کو اذیت پہنچانے کا سبب بنتی ہے اور وہ انتہائی تکلیف میں مبتلا رہ جاتا ہے۔

(سماحتِ نفس کی اقسام)

سماحتِ نفس کے مختلف اعتبار سے کئی نام ہیں:

(1)        جب کوئی انسان درجِ ذیل بہیمی تقاضوں سے بچے تو اُس کا نام ’’عِفّت‘‘ ہے:

                (i)  ’’شَہوَۃُ البَطَن‘‘ (کھانے پینے اور صرف پیٹ بھرنے کی خواہش اور شہوت)(ii)  ’’شَہوۃُ الفَرج‘‘ (شرم گاہوں کی جنسی شہوات اور خواہشات)

(2)        جب کوئی انسان عیش و عشرت اور آرام طلبی کے تقاضے کو چھوڑتا ہے تو اُس کا نام ’’اجتِہاد‘‘ (مجاہدے کی زندگی بسر کرنا) ہے۔

(3)        جب کوئی انسان (مصیبت کے وقت) تنگ دلی اور رونے پیٹنے کی حالت سے بچتا ہے تو اُسے ’’صَبْر‘‘ کہا جاتا ہے۔

(4)        جب کوئی آدمی انتقام کی چاہت کے تقاضے سے بچتا ہے تو اُسے ’’عَفْو‘‘ (معاف اور درگزر کرنا) کہا جاتا ہے۔

(5)        جب کوئی آدمی مال کی حد سے زیادہ محبت سے بچتا ہے تو اُسے ’’سخاوت‘‘ اور ’’قَناعت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

(6)        جب کوئی آدمی شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی سے بچتا ہے تو اس کا نام ’’تقویٰ‘‘ ہے۔

ان تمام کو جامع صورت میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’’اصل بات یہ ہے کہ نفس اپنے بہیمی تقاضوں اور خیالات کی فرماں برداری کرنے سے اپنے آپ کو بچائے‘‘۔

صوفیائے کرام نے سماحت کے اس خُلق کے درجِ ذیل نام رکھے ہیں:

(1) ’’قطع التّعلّقات الدّنیویّۃ‘‘ (دنیاوی تعلقات سے قطع تعلق رہنا)

(2) ’’فناء عن الخسائس البشریّۃ‘‘ (بشریت کی پست باتوں سے فنا ہوجانا)

(3) ’’حُرِّیَت‘‘ (دنیا کے جھمیلوں اور خواہشات سے اپنے آپ کو آزاد رکھنا)

اس طرح صوفیائے کرام نے سماحت کے اس خُلق کو مختلف ناموں سے تعبیر کیا ہے۔

(سماحتِ نفس حاصل کرنے کا طریقہ)

اس خُلقِ سماحت کو حاصل کرنے کے لیے عمدہ ترین بات یہ ہے کہ:

(1)        ایسے مواقع سے بچنا کہ جو سماحت کی ضد پر مشتمل بُری عادات و اطوار میں مبتلا کرنے والے ہوں۔

(2)        ہر وقت اپنے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر کو غالب کیے رکھنا۔

(3)        اپنے نفس کو عالمِ بالا کی طرف متوجہ رکھنا۔ یہی مطلب ہے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہٗ کے اس قول کا کہ انھوں نے فرمایا: ’’میرے نزدیک اس دنیا کے پتھر اور آبادی ایک برابر ہیں‘‘۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے اپنا کشف بیان کرتے ہوئے انھیں جنت کی خوش خبری دی۔

(حضرت بریدہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیںکہ نبی اکرمؐ جنت میں داخل ہوئے تو آپ کا استقبال ایک نوجوان لونڈی نے کیا۔ تو آپؐ نے اُس سے پوچھا کہ: ’’تم کس کی ہو؟‘‘ تو اُس نے کہا کہ: میں زید بن حارثہ کی ہوں۔ تو آپؐ نے حضرت زیدؓ کو اس کی خوش خبری سنائی۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: 1، ص: 230)

(من أبواب الإحسان، باب(1): علمُ الشّرائع و الإحسان)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار - حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ

اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (3) امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5۔ اللہ سے دعا کرنا او…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 21, 2022

تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 10, 2021

صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 20, 2023

چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار  (2)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چوتھی حدیث:)…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 18, 2022