
’’1920ء کے بعد دنیا نے یہ طے کرلیا کہ ریاستیں قومی تناظر میں وجود میں لائی جائیں گی۔ قوم کی جان، مال، رنگ، نسل، مذہب کا تحفظ ہوگا اور جمہوری اور ادارتی بنیادوں پر اس کو وجود میں لایا جائے گا تو ان دونوں دائروں میں ایک جغرافیائی حدود میں بسنے والی انسانیت ایک قوم ہے۔ پاکستانی نیشنل اِزم، پاکستانی قومیت کے تناظر میں اس قوم کو امن دینا ہے۔ وہ شیعہ ہو، سنی ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو، یہودی ہو، عیسائی ہو، مسلمان ہو، ہندو ہو، کوئی بھی ہو، وہ اس قوم کا حصہ ہے۔ اس قوم کو ایسا امن چاہیے، جو ناقابل تقسیم ہو۔ نہ کہ کسی فرقے یا گروہ یا کسی نسل کی بنیاد پر ہو۔ اُس امن و امان کے قیام کے لیے آپ کو اقدام کرنا ہے۔
حکومتوں کے ہاں جہاں دیگر اقدامات کیے جاتے ہیں، وہاں ان میں مذہب کو لڑائی جھگڑے، دنگا فساد کے لیے استعمال کرنے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ یہ انسانی تاریخ کا تقاضا بھی ہے کہ محرم الحرام کا مہینہ احترامِ انسانیت کے لیے شروع دن سے چلا آرہا ہے۔ اللہ نے اسے کائنات کی تخلیق سے ہی امن کا مہینہ بنا دیا، جو بلاتفریق رنگ نسل مذہب تمام مذاہب کی بنیاد ہے۔ ہر مذہب میں یہ محترم مہینے موجود ہیں۔ اس احترام والے مہینے میں احترامِ انسانیت کے لیے فرقوں کی لڑائی جو خاص طور پر انسانوں کی جان مال، عزت آبرو کے عدمِ تحفظ کا سبب بنے، اس پر قانونی پابندی لگانا‘ مذہب کی تعلیمات کا تقاضا بھی ہے۔ ہر مذہب والا اپنی تعلیمات یا اپنے جو بھی وہ اظہار کرنا چاہتا ہے، اپنی عبادت گاہ کے محدود دائرے کے اندر کرے۔ عوامی مقامات پر آکر توڑ پھوڑ کرنا، بداَمنی کو فروغ دینا، راستے روکنا، انسانی حقوق توڑنا، جان مال، عزت آبرو کے تحفظ کو خطرے میں ڈالنا، کسی بھی طرح نہ اسلامی تعلیم کا حصہ ہے، نہ قومی اور تاریخی تقاضا ہے۔ دونوں چیزیں قومی تقاضے اور اسلام کی تعلیمات سے منافی ہیں۔
یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ مذہب لڑائی کا ذریعہ نہیں ہے۔ آج اس حقیقت کا شعور پیدا کرنا اور اس فکر و نظریے کو آگے بڑھانا دور کا تقاضا ہے۔ نہ حضرت امام حسینؓ نے لڑائی کا سبب پیدا کیا، اور نہ حضرت عمر فاروقؓ نے۔ ان حضراتؓ کے نام پر اس محرم کے مہینے میں یکم اور دس تاریخ کو لڑائی جھگڑا پیدا کرنے کا عمل یہاں کے سامراجی سسٹم کی پیداوار ہے۔ جو سنی مولوی یا شیعہ ذاکر اِن دنوں میں مذہب کے عنوان سے دنگا فساد اور فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کرے، وہ نہ حضرت عمرؓ کا نمائندہ ہے، نہ حضرت حسینؓ کا۔ وہ اس سسٹم کا نمائندہ اور آلہ کار اور غلامی کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔ اس سے برأت کا اعلان کرنا دین کی سچی تعلیمات سے وابستگی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے نظام کو درست تناظر میں سمجھنے اور اس کے مقابلے پر سامراجی نظام کی کارستانیوں اور مکر و فریب کا شعور حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مسند نشین خانقاہ عالیہ رحیمیہ قادریہ عزیزیہ رائے پور
ناظمِ اعلیٰ ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ
متعلقہ مضامین
انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول
گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…
میثاقِ عدل کی واضح طور پر خلاف ورزی
سورت البقرہ کی گزشتہ آیت (84) میں بنی اسرائیل کے میثاقِ عدل کا تذکرہ تھا۔ اس معاہدے کی دو شِقیں تھیں: (1) وہ ایک دوسرے کا خون نہیں بہائیں گے۔ (2) وہ ایک دوسرے کو اپنے گھرو…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
اللہ تعالیٰ کی جناب مںس بے باکی کی سزا اور معافی
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نُؤمِنَ لَكَ حَتّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهرَةً فَأَخَذَتكُمُ الصّاعِقَةُ وَأَنتُم تَنظُرونَ-55 ثُمَّ بَعَثناكُم مِن بَعدِ مَوتِكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ-56 (اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم ہرگز یقین نہ ک…