اسلام میں اجتماعیت مقصود ہے

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اگست 12, 2021 - خطباتِ جمعتہ المبارک
اسلام میں اجتماعیت مقصود ہے

 

۱۵؍ محرم الحرام ۱۴۲۲ھ / 4؍ ستمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’معزز دوستو! دینِ اسلام اپنی اجتماعیت کے ساتھ اپنے غلبے کے تقاضے کو پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جماعت کی اجتماعیت ہی دین کے غلبے کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔ ہمارے ہاں محرم الحرام کے مہینے میں مسلمان جماعت کے افتراق و انتشار پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، جب کہ اس کے بجائے جماعتِ صحابہؓ کے اجتماعی کردار کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ صحابہ کرامؓ کی پوری کی پوری جماعت نے دین کے غلبے کی جدوجہد کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ افراد اجتماعیت کا حصہ بن کر کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی بھی فرد کو، خواہ وہ صحابی ہو، تابعین میں سے ہو، اولیاء اللہ میں سے ہو، جماعت سے کاٹ کر پیش کرنا، اجتماعیت کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔

یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام کے مقابلے میں کفر کے بھی افراد پیشِ نظر نہیں ہوتے، بلکہ ہدف کفر کی وہ اجتماعی طاقت ہے، جو دینِ حق کا راستہ روکتی ہے، انسانیت کی ترقی کے راستے میں رُکاوٹ بنتی ہے، اُس ظالمانہ اجتماعیت کو توڑنا مقصود ہے۔ کفر کی اجتماعیت کو توڑ کر غیرمسلم اور کافر افراد ایک مسلمان ریاست اور اجتماعیت میں امن کی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ اُن کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اگر وہ انفرادی حیثیت میں مغلوبیت کی حالت میں، کفر و شرک، ظلم کے نظام کی مغلوبیت قبول کرتے ہوئے دینِ اسلام کے عدل و انصاف کے نظام کو قبول کرتے ہیں تو اپنے عقیدے پر رہ سکتے ہیں۔ عقیدے کی بنیاد پر کسی سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔

اگر ایک کافر اپنے غلط نظام کو توڑ کر انفرادی حیثیت میں کفر میں رہتے ہوئے مسلمان ریاست اور حکومت میں رہ سکتا ہے تو صحابہ کرامؓ کے باہمی مزاجی اختلافات __ جو مزاج کے طبعی تقاضوں کے تحت ہیں __ میں ہماری طرف سے ایسا جنگ و جدل کا ماحول بیان کرنا، فتوے لگانا، افتراق پیدا کرنا، کفر کا بازار گرم کرنا، قطعی طور پر غلط ہے۔ صحابہؓ کی اجتماعیت نے اجتماعی طور پر دین کے غلبے کا ہدف پورا کیا ہے۔ وہ ائمہ اہل بیت ہوں یا صحابہ کرامؓ کی وہ اولوالعزم اجتماعیت ہو، جو حضرت امیرمعاویہؓ کی قیادت میں کردار ادا کرنے والی ہے۔ حضرات ابوبکر صدیق، عمرفاروق، عثمان غنی اور علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہم تو وہ خلفائے راشدین ہیں کہ جن کی اتباع بعد کی دونوں جماعتوں؛ ائمہ اہل بیت اور خلفائے بنواُمیہ دونوں نے کی ہے۔ اُس اجتماعیت میں ہر فرد نے اپنی حمیتِ دینی کے تحت جماعت کے اجتماعی مقاصد کو پورا کیا ہے۔ شریعت، طریقت اور سیاست کی اجتماعیت برقرار رکھی ہے۔ دین کے غلبے کے لیے کام کیا ہے‘‘۔

’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ سامراجی پالیسی ہے

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’دینِ اسلام کی اجتماعیت کا ہدف ظلم کے نظام کا خاتمہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ دنیا میں دینِ حق کے غلبے کے لیے آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’ہم نے اپنے رسولؐ کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ دینِ حق کو دینِ باطل پر غالب کریں‘‘۔ پوری جماعتِ صحابہؓ نے اجتماعی طور پر غلبۂ دین کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ افراد کے مزاج کے اختلاف سے جماعت کی اجتماعیت نہیں ٹوٹتی۔ مزاجوں کا اختلاف رہتا ہے۔ صحابہ کرامؓ میں سے ہر ایک اپنے طبعی مزاج کے ساتھ حمیتِ اسلامی، دین کی غیرت اور دین کے غلبے کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنے والے ہیں۔ جب سے اس برعظیم پاک و ہند میں زوال پیدا ہوا اور غلامی مسلط ہوئی ہے، تو ہمارے ذہنوں میں انفرادیت کے جراثیم ایسے داخل کردیے گئے کہ اپنے اپنے بزرگ پر قبضہ کرکے اُس کی بنیاد پر باقیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج کرنے، فتوے لگانے، جھگڑے پیدا کرنے، جلوس نکالنے کا مرض لاحق ہوگیا۔

اس برعظیم پاک و ہند میں افتراق و انتشار پیدا کرکے حکمرانی کرنا انگریز سامراج کی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی سیاست کا لازمی شاخسانہ ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی شیعہ سنی فسادات ہیں۔ ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ ’جی یہ شیعہ سنی فرقے تو چودہ سو سال سے چلے آرہے ہیں‘۔ لیکن کیا اس کی بنیاد پر تاریخِ اسلام میں کبھی لڑائی جھگڑے ہوئے ہیں؟ مسلمان جماعت کی چودہ سو سال کی تاریخ میں اس طرح کے جھگڑے کہ جس سے سوسائٹی میں افتراق و انتشار جنم لے اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو؟ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہ سب انگریز سامراج کے تسلط کے زمانے میں شروع ہوا۔ 1905ء میں لکھنؤ میں وہاں کی ریاستی انتظامی طاقتوں اور قوتوں نے پہلا شیعہ سنی فساد کرایا، جس میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ورنہ مسلمان معاشروں میں بہت سے فرقے گزرے ہیں۔ ان کے درمیان علمی مکالمہ ہوتا رہا ہے۔ دلائل، بات چیت، سمجھنے سمجھانے کے لیے مباحثے اور مکالمے رہے ہیں، جو کسی بھی معاشرے کی صحت مندانہ علمی روایت ہوتی ہے۔

اس برعظیم پاک و ہند میں حال آںکہ سیاسی اختلاف موجود تھا، ہمایوں کے ایران سے آنے کے بعد شیعہ اُمرا کا دہلی پر ایک اعتبار سے قبضہ ہوگیا۔ اُن کے اثرات بڑھ گئے، لیکن اس کی وجہ سے مغل ریاست ہل گئی ہو؟ نہیں! اُسی دربار میں سنی اُمرا بھی تھے اور شیعہ اُمرا بھی تھے۔ اکبر کے بعد ہمایوں اور جہانگیر کے زمانے میں، بلکہ اورنگزیب عالمگیر جیسے اہم ترین بادشاہ کے زمانے میں بھی کہ جہاں ہندوؤں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر سلوک کیا گیا تو شیعوں کے ساتھ تو ان سے بھی اچھا سلوک رکھا گیا۔ مغل ریاست میں صلاحیت اور اہلیت کا حامل ایک ہندو تھا تو اُسے بھی گورنر لگا دیا اور اگر شیعہ تھا تو اُسے بھی گورنر لگا دیا گیا۔ شیعہ سنی لڑائی جھگڑے کا کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا، بلکہ سیاسی حوالے سے اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد اور میرٹ پر فیصلے ہوتے تھے‘‘۔

 

 

ماتم کے جلسوں جلوسوں کے روٹس کا پسِ منظر

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’محرم الحرام کے جلسے جلوسوں کے لائسنس سب سے پہلے انگریز سامراج نے شیعوں اور سنیوں کو دیے۔ ورنہ قدیم تمام شیعہ علما کے ہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہٗ کی اس شہادت پر دس محرم کا معمول یہ رہا ہے حضرت حسینؓ کی یاد میں اُن کی اور صحابہؓ کی دین کے غلبے کی جدوجہد کو یاد کرکے روتے تھے۔ بس اتنا سا ماتم تھا۔ سنی صوفیا اور علما کے ہاں بھی یہ روایت رہی ہے کہ اپنے کسی بزرگ کی وفات کے زمانے میں اُس دن جمع ہو کر اُس بزرگ کے اقوال یاد کرتے تھے۔ اُن کی تقریریں اور خطابات سنتے تھے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ سر پیٹنا، مار دھاڑ کرنا، سینہ کوبی کرنا کبھی نہیں رہا۔ شیعوں کی بنیادی کتابوں میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ ماتم اس طریقے سے کرنا کہ جس سے اذیت پہنچے، ناجائز ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ: ’’جب کوئی آدمی مردے پر اس طریقے سے نوحہ کرتا ہے، روتا پیٹتا ہے، ماتم کرتا ہے، تو اُس سے مردے کو اذیت پہنچتی ہے‘‘۔ سچے علما نے کبھی یہ کام نہیں کیا۔

انگریز کے زمانے میں شیعوں کو لائسنس دیا گیا کہ امام حسین کی یاد میں جلوس نکالو۔ اس برعظیم پاک و ہند میں 1905ء سے پہلے حضرت حسینؓ کی شہادت پر کبھی جلوس نہیں نکلے۔ پھر جب شیعوں کے اس عمل پر سنیوں نے اعتراض کیا تو اُن کو کہا گیا کہ لو بھئی! تم بھی جلوس کا لائسنس لے لو۔ تم بھی دفاعِ صحابہؓ کے نام پر جلوس نکالا کرو۔ شیعوں کے لیے جان بوجھ کر جلوس کے وہ راستے منتخب کیے گئے کہ جو سنیوں کے علاقے سے گزرتے ہیں، تاکہ جھگڑا ہو اور وہاں کسی سنی کو پیسے دے کر اُس سے پتھراؤ کرایا جاتا اور جھگڑا پیدا ہوتا۔ دفاعِ صحابہؓ کی ریلی کے لیے وہ راستے متعین کیے گئے جو شیعوں کے علاقے سے گزرتے ہیں۔ اور کسی شیعہ کو کھڑا کرکے وہاں پتھراؤ کرادیا۔

جیسے افغانستان کے جہاد میں یہاں کے سسٹم نے ہر ایک جماعت کو استعمال کیا۔ شیعوں کی جہاد والی پارٹی اپنی تھی، اور سنیوں کی اپنی تھی، دیوبندیوں کی اپنی تھی، اہل حدیثوں کی اپنی تھی۔ ایسے ہی ایرانی انقلاب کو جو امریکا طاغوت کے خلاف آیا تھا، اُس کو روکنے کے لیے شیعہ سنی جھگڑے کو یہاں پروان چڑھایا گیا۔ ورنہ 1978ء سے پہلے اُسی مسجد میں سنی بھی نماز پڑھ رہا ہے، اُسی مسجد میں شیعہ بھی پڑھ رہا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی مرکزی جامع مسجد میں چلے جاؤ، آج بھی شیعہ وہاں نماز پڑھتا ہے۔ کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ اپنے اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھ رہے ہیں۔ لیکن یہاں باقاعدہ محاذ گرم کیا گیا۔ افتراق و انتشار پیدا کیا گیا۔ لڑائی جھگڑا یہاں کے سسٹم کی ضرورت تھی۔ یہاں کے آلۂ کار دونوں طرف کے مولوی، وہ جھگڑے پیدا کرتے۔ جب سامراج کو اپنی ضرورت پیش آئی تو پھر ’’ملّی یک جہتی کونسل‘‘ بھی بنا دی گئی۔ وہاں شیعہ سنی لیڈر اکٹھے کھا پی رہے ہوتے ہیں۔ جب باہر نکلتے ہیں تو اُن کی زبانیں آگ اُگلتی ہیں۔ کفر اور شرک کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی گردنیں اُڑائی جاتی ہیں‘‘۔

مسلمانوں کا حقیقی دشمن اور آج کا تقاضا

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’حقیقت یہ ہے کہ آج مسلمانوں کا دشمن سامراج ہے، طاغوت ہے، سرمایہ داری نظام ہے۔ وہ سرمایہ داری نظام جس نے اس خطے پر کفر اور شرک، ظلم اور ستم کے لیے بدمعاشی پیدا کی۔ انسانیت کو غلام بنانے کے لیے کردار ادا کیا۔ اُس کی بنیاد پر ملکوں کی لڑائیاں پیدا کرائی گئیں۔ فرقوں کی لڑائیاں کھڑی کی گئیں۔ نوجوانوں کی قربانی دی گئی۔ نوجوانوں کو شہید کرایا گیا۔ مفادات اپنے اٹھائے گئے۔ محرم الحرام آتا ہے تو جھگڑا بھی خود پیدا کرایا جاتا ہے اور پھر صلح کے نام پر، امن کے نام پر میٹنگز بھی خود ہی کی جاتی ہیں۔ پھر مذہب کو بدنام کیا جاتا ہے کہ مذہب تو سوائے لڑائی بھڑائی سکھانے کے اَور کوئی کام ہی نہیں کرتا۔ اس کا کام تو لوگوں کو فرقوں کے اختلافات میں مبتلا کرنا ہے۔

مذہب کو بدنام کرنے کے لیے فرقہ وارانہ فسادات کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ حال آںکہ مذہب کی تو حکومت ہی نہیں ہے۔ جب مذہب کی حکومت نہیں تو مذہب کا فرقہ کہاں سے ہوگیا؟ یہ تو سامراج کی حکومت ہے۔ سرمایہ داری کی حکومت ہے۔ ظلم کا نظام ہے۔ عدل کا نظام قائم کرو۔ وہ جو تمام علما کا متفقہ ضابطہ رہا ہے، وہ نافذ کرو۔ وہ نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جھگڑے کھڑے کرنا مقصود ہے۔ فرقہ واریت کی فضا پیدا کرنا، نوجوانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنا خطرناک بات ہے۔ نوجوانوںکو ان سے علاحدہ رہنا چاہیے۔ یہ مذہب کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ اس ظالمانہ سسٹم کا معاملہ ہے۔ سامراجی نظام کا معاملہ ہے۔ یہ دین کا معاملہ نہیں ہے۔ ہوش مند مسلمان، خواہ وہ کسی فرقے کا ہو، وہ طاغوت کو اپنا ہدف سمجھتا ہے۔ آزادی اور حریت کے لیے کردار ادا کرتا ہے۔

صحابہؓ کی اجتماعیت کو سمجھو۔ ائمہ اہل بیت اور صحابہؓ کفر اور دشمن کے مقابلے پر یک جان رہے ہیں۔ خلافتِ بنواُمیہ میں تابعینؒ، تبع تابعینؒ ہوں یا ائمہ اہل بیتؒ ہوں، انھوں نے اِنھیں بنواُمیہ کی بیعت کی ہے۔ اِنھیں کی بیعت امام زین العابدینؒ اور امام باقرؒ نے کی۔ اِنھیں کی بیعت امام موسیٰ کاظمؒ اور امام زیدؒ نے کی ہے۔ یہ تمام کے تمام لوگ اسی ایک جماعت کی اجتماعیت کا حصہ رہے۔ یہی اجتماعیت خلافتِ بنوعباس اور خلافتِ بنوعثمان میں رہی۔ یہ مسلمانوں کی اصل تاریخ ہے۔ اس تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے۔ صوفیا کا دور ہو، محدثین اور فقہا کا تسلسل ہو، ائمہ اہل بیت کا سلسلہ ہو، اولیاء اللہ اور علمائے ربانیین کے سلسلے ہوں، یہ ساری ایک جماعت ہے۔ شریعت، طریقت اور سیاست تینوں کی جامعیت کو لے کر اس جماعت نے غلبۂ دین کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ اس نظریے کو سمجھنا آج کے مسلمان کی اہم ضرورت ہے۔ اس اجتماعیت اور اجتماعی شعور کی بنیاد پر کردار ادا کرنا، مسلمان کے لیے لازمی ہے۔ فرقہ واریت سے برأت کا اعلان کرنا، امن و امان کو یقینی بنانا، نظریہ اور شعور پیدا کرنا، سامراج کے مقابلے پر عدمِ تشدد کے اُصول پر اپنی اجتماعیت پیدا کرنا آج کے دور کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس اجتماعیت کو سمجھنے اور اس کے مطابق کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین!)‘‘۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

حضرت فاطمۃ الزہرا

خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ آپؓ اعلانِ نبوت سے پہلے پیدا ہوئیں۔ آپؓ نے آغوشِ نبوت می…

مولانا قاضی محمد یوسف ستمبر 10, 2021

دینِ اسلام کی جامع تعلیمات

22؍ ستمبر 2023ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: ’’معزز…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نومبر 14, 2023

حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ

حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ کی کنیت ’’ابو خالد مکی‘‘ ہے۔ فاختہ بنت زہیر آپؓ کی والدہ اور اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپؓ کی پ…

مولانا قاضی محمد یوسف جولائی 11, 2023

مؤذنوں کے سردار حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہٗ

آپؓ کا نام: بلال، کنیت:ابوعبداللہ، والد کا نام رباح اوروالدہ کانام حمامہ تھا۔ آپؓ حبشی نژاد غلام تھے۔ آپؓ مکہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت بلالؓ مؤذنین کے سرخیل، قدیم الاسلام، حضرت ا…

مولانا قاضی محمد یوسف اگست 25, 2022