

گزشتہ آیات (-2 البقرہ: 131-130) میں ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ سے روگردانی کے حماقت پر مبنی بُرے نتائج سے آگاہ کیا گیا تھا۔ اور یہ واضح کیا گیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کل انسانیت کی رہنمائی کے لیے منتخب کرلیا تھا اور انھوں نے ’’ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ‘‘ کہہ کر اسے قبول کرلیا تھا۔ اس طرح ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کسی خاص نسلی گروہ اور فرقے میں بند نہیں ہے۔ اللہ کا حکم کسی قوم کے کسی فرد کے ذریعے سے بھی نازل ہو تو اُسے ہر حال میں تسلیم کیا جائے گا۔
اب ان آیات (-2 البقرہ: 133-132) میں واضح کیا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد؛ حضرات اسماعیل و اسحاق علیہما السلام کو اسی دینِ حنیفی کی وصیت کی تھی اور اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی اپنی موت کے وقت اپنی اولاد کو اپنے ان تینوں بزرگوں کی اتباع کرنے کا حکم دیا تھا اور ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کے پیغامِ الٰہی کو قبول کرکے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تھا۔
﴿وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ ﴾ (اور یہی وصیت کر گیا ابراہیم اپنے بیٹوں کو اور یعقوب بھی): یہودیوں اور نصاریٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس دینِ حنیفی کی تشریح کرتے ہوئے ملّتِ طبیعیّین اور ملّتِ نَجّامِین کے زیرِ اثر ایسا ملغوبہ تیار کیا تھا، جس سے انھوں نے یہودیت اور عیسائیت کے فرقوں کی صورت میں پیش کیا تھا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کے احکامات پسِ پشت ڈال کر نہ صرف باہمی تفرقے میں مبتلا ہوئے اور ایک دوسرے کی نفی کی، بلکہ آج دینِ اسلام کی مخالفت بھی کر رہے ہیں اور حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی طرف غلط باتیں منسوب کررہے ہیں۔
ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کی صحیح بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کو جو وصیت کی تھی اور جو حضرت یعقوبؑ نے یہودہ سمیت اپنے بارہ بیٹوں کو وصیت کی تھی، وہ دو اُمور پر مشتمل تھی:
1۔﴿يَابَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ ﴾ (کہ اے بیٹو! بے شک اللہ نے چن کردیا ہے تم کو دین): تمام جہانوں کے ربّ تبارک و تعالیٰ نے تمھارے لیے جو دین منتخب کیا ہے، وہ عالم گیر ہے۔ کل انسانیت کے فائدے کا ہے۔ ربّ العالمین کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام جہان میں بسنے والی انسانیت کا ربّ ہے، نہ کہ کسی ایک قوم کو چھوڑ کر صرف کسی دوسری قوم کا ربّ ہے۔ چناں چہ یہ بات غلط ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں آنے والے نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کو اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ وہ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی نسل اور قوم میں سے نہیں ہے، اللہ کے دین کا دنیا میں نزول کسی بھی فرد کے ذریعے سے ہوجائے، اُسے قبول کیا جائے۔ اس لیے کہ ان دونوں حضراتؑ نے اپنی اولاد کو یہی وصیت کی تھی کہ وہ دینِ اسلام کو قبول کریں۔
2۔﴿فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ﴾ (سو تم ہرگز نہ مرنا، مگر مسلمان): اسی طرح انھوں نے یہ وصیت بھی کی تھی کہ اسی عالم گیر دینِ حنیفی پر اسلام کی حالت میں تمھاری موت آنی چاہیے۔ اس دینِ حنیفی کی قبولیت عارضی اور وقتی نہیں، بلکہ مرتے دم تک اس دینِ اسلام کی تعلیمات پر قائم رہنا تمھارے لیے لازمی اور ضروری ہے۔
﴿أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ﴾ (کیا تم موجود تھے جس وقت قریب آئی یعقوب کے موت؟): یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی خود ساختہ تشریحات اور تحریفات کو ’’یہودیت‘‘ اور ’’نصرانیت‘‘ کے عنوان سے متعارف کروایا تھا۔ ان میں سے ہر ایک حضرت یعقوب علیہ السلام کی وصیت سے متعلق خود ساختہ تصورات رکھتے تھے۔ اپنی ان تحریفات پر مبنی گروہیت ہی کو وہ دین سمجھتے تھے اور باقی کو گمراہ سمجھتے تھے۔ خاص طور پر اپنی تحریفات کو حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوئے دینِ اسلام کا انکار کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سوال کیا ہے کہ کیا تم حضرت یعقوب علیہ السلام کی موت کے وقت موجود تھے؟ اپنی اس موقع پر عدمِ موجودگی کے باوجود اُن کی طرف غلط باتیں کیوںمنسوب کرتے ہو؟ حال آں کہ اس وقت کی صورتِ حال یہ ہے کہـ:
﴿إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي﴾ (جب کہا اپنے بیٹوں کو: تم کس کی عبادت کرو گے میرے بعد؟): ماضی کی حقیقی تاریخ یاد رکھو! حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی موت کے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا تھا کہ: میرے بعد تم کس ربّ کی عبادت کرو گے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دینِ حنیفی کو قبول کرو گے یا اَحبار و رُہبان میں سے کسی کو اپنا ربّ مان کر اُس کے بیان کردہ حلال و حرام کو تسلیم کرو گے؟
﴿قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴾ (بولے: ہم بندگی کریں گے تیرے ربّ کی، اور تیرے باپ دادوں کے ربّ کی، جو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق ہیں، وہی ایک معبود ہے اور ہم سب اسی کے فرماں بردار ہیں) : تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے تمام بیٹوں نے اپنے والد ِگرامی کے سامنے دو باتوں کی قبولیت کا اعلان کیا تھا:
1۔ ہم تیرے خدا اور تیرے آباؤ اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل وحضرت اسحاق علیہم السلام کے ایک واحد خدا کی عبادت کریں گے۔ اُسی کی غلامی تسلیم کریں گے۔ کسی اَور کو اُس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
2۔ ہم اُسی ایک خدا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام احکامات کو تسلیم کریں گے۔ خواہ وہ کسی بھی وقت، کسی بھی زمانے میں کسی بھی نبی پر نازل ہوں، وقت کے اُن نبی پر ایمان لائیں گے اور اُن کے احکامات کو تسلیم اور قبول کریں گے۔
اس طرح ان آیات میں ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کی اصل حقیقت واضح کی گئی ہے کہ وہ خدائے وحدہٗ لاشریک کی طرف سے ہر دور میں نازل شدہ انبیاؑ کی تعلیمات پر ایمان لانا ہے۔ اس کے مطابق نبیٔ آخر الزمان حضور اقدس ﷺ ہی اس ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے اس دور میں نمائندے ہیں، ان کی پیروی کرنا ضروری ہے۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ
حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ کی کنیت ’’ابو خالد مکی‘‘ ہے۔ فاختہ بنت زہیر آپؓ کی والدہ اور اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپؓ کی پ…
دینِ اسلام کی جامع تعلیمات
22؍ ستمبر 2023ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: ’’معزز…
حضرت عثمان بن طلحہ بن ابو طلحہ قریشی عبدری الحجبی رضی اللہ عنہٗ
حضرت عثمان بن طلحہ قریشی رضی اللہ عنہٗ بہت سی انسانی خوبیوں اور بہترین اَخلاق اور انسانیت کے مظہر لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔آپؓ بیت اللہ الحرام کے حاجب یعنی کلید برداری کے …
حضرت فاطمۃ الزہرا
خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ آپؓ اعلانِ نبوت سے پہلے پیدا ہوئیں۔ آپؓ نے آغوشِ نبوت می…