اسلام؛ جامع اور مکمل نظامِ انسانیت

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اکتوبر 11, 2022 - خطباتِ جمعتہ المبارک
اسلام؛ جامع اور مکمل نظامِ انسانیت

16؍ ستمبر 2022ء کو حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:

’’معزز دوستو! دینِ اسلام جو نبی اکرم ﷺ کے ذریعے ہم پر پہنچا ہے، یہ وہ جامع، کامل اور مکمل نظامِ انسانیت ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی انسانیت کی ترقی اور کامیابی کے لیے وضع کردیا تھا۔ یہی پیغام بنیادی طور پر حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا، حضرت ادریس علیہ السلام کو دیا گیا، حضرت نوح علیہ السلام کو دیا گیا اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بنی اسرائیلی انبیاؑ سے ہوتا ہوا امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا۔

انسانیت کیسے کامیاب ہوتی ہے؟ اس کا طریقۂ کار کیا ہو؟ اس کے قوانین اور ضابطے کیا ہوں؟ اس کی حدود و قیود کیا ہوں؟ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام اور رسول اللہؐ کے ذریعے سے واضح کردیں۔ خاص طور پر ایسی تمام حدود و قیود جو انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں، انھیں لازمی طور پر متعین کردیا گیا۔ جو ضرر پہنچانے والی چیزیں تھیں، انھیں قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا۔ اور جو انسانیت کی بقا کے لیے لازمی اور ضروری تھیں، انھیں فرض اور واجب قرار دے دیا۔

دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ جس کے لیے اُس کی ساخت کے اعتبار سے اچھائی یا بُرائی، اُس کے صحیح یا غلط استعمال کے حوالے سے بنیادی قواعد و ضوابط نہ ہوتے ہوں۔ ہر مخلوق ایک محدودیت رکھتی ہے۔ اور جب وہ محدودیت اور لمیٹڈ حالت میں ہے تو اُس کا استعمال بھی لمیٹڈ اور محدود ہے۔ اس حد بندی کی خلاف ورزی ہوگی تو وہ مخلوق اپنی ساخت میں بکھر جائے گی۔ اس کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ محدود چیز محدود نظام کے دائرے کے اندر ہی صحیح کام کرتی ہے۔ کائنات میں موجود ہر ایک مخلوق کے بارے میں یہ ایک فطری اور سادہ قانون اور ضابطہ ہے۔

انسانیت ان مخلوقات میں سے بہت اعلیٰ، افضل اور احسنِ تقویم مخلوق ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے انسانیت کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے ایک نظامِ زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نظامِ زندگی کو انسان کی تخلیق کے وقت ذاتِ باری تعالیٰ نے متعین کردیا تھا، جسے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اصطلاح میں ’’ملتِ حقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ زندگی بسر کرنے کا صحیح حق اور ثابت شدہ طریقۂ کار، نظامِ زندگی، اس کا علمی، فکری، عملی اور قانونی نظام۔ پھر اس ’’ملتِ حقہ‘‘ کے ظہور کے مختلف ادوار، مختلف انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے درجہ بہ درجہ اس دُنیاوی زندگی میں آئے۔ اس کی جامع ترین شکل ’’ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ‘‘ ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اُسی ملت کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے کہ اس کی جو حدود و قیود متعین ہوگئی ہیں، ان کی پابندی کرو‘‘۔

عربوں میں خاندان کُش قانون کی اِصلاح

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملتِ حنیفیت کے بنیادی اُصول اور ضابطے اور نظامِ زندگی متعین کیا۔ اس لیے وہ امامِ انسانیت ہیں۔ اور پھر اُن کے متعین کردہ اُن اُصولوں پر عملی نظام بنانے کے حوالے سے تورات، انجیل اور زبور نازل ہوئیں۔ انھیں اصولوں کا عالمی نظام، عالمی قانون سازی، پوری انسانیت کے لیے ترقی کا عالم گیر ضابطۂ حیات حضرت محمد مصطفی ﷺ پر آکر مکمل ہوجاتا ہے۔ انسانیت اگر اس ضابطے اور دائرے میں رہے گی تو کامیاب ہوگی۔ اس کے مقابلے میں اگر کوئی اَور سیاسی معاشی اور قانونی نظام وضع کیا جائے گا، یا کسی اَور چیز کو مرکز اور محور بنا کر کوئی ملت وجود میں آئے گی تو انسانیت ذلیل اور رُسوا ہوگی۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا: ’’تلک حدود اللہ‘‘ (یہ اللہ کی حدود ہیں)(-58 المجادلہ: 4)۔  یہ آیتِ مبارکہ ایک خاص پسِ منظر میں نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے انسانی زندگی کا ایک سماجی واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کی خدمت میں ایک اُدھیڑ عمر خاتون حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ جو حضرت اوس بن صامتؓ کی بیوی تھیں، حاضر ہوئیں۔ ان کے شوہر نے عربوں کے پرانے سماجی دستور کے مطابق اپنی بیوی کو ماں کی طرح کہہ دیا تھا۔ اس کے مطابق عرب معاشرے میں اس عورت کو طلاق واقع ہوجاتی تھی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ عورت ماں تصور کی جاتی تھی۔ اسے ’’ظِہار‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ انتہائی غیرمعقول اور غلط قانون اور ضابطہ تھا۔ حضرت خولہؓ نے آپؐ سے کہا: یا رسول اللہ! میرا خاوند میرا مال کھا چکا۔ میری جوانی فنا کردی۔ اب یہ بڑھاپے میں، جب میں بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوں، تو مجھے کہتا ہے کہ تُو میری ماں ہے۔ یہ عجیب ظالمانہ قانون ہے۔ نہ میرا کوئی گھر بار، نہ ماں باپ۔ بڑھاپے میں کہاں جاؤں گی؟ آپؐ نے فرمایا کہ: دستور تو یہی ہے۔ میں اسے نہیں بدل سکتا۔ قانون بنانا، یا قانون سازی کرنا اللہ کا اختیار ہے۔ اللہ اگر مجھے کوئی حکم دے گا تو میں بتا دوں گا۔ تو وہ خاتون اللہ سے دعا مانگتی ہے کہ ’’میں اپنا غم، اپنی تکلیف، اپنی مشکل اللہ کے سامنے پیش کرتی ہوں اور شکایت کرتی ہوں‘‘۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اتنے میں حضرت جبرائیلؑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کر پہنچ گئے: ’’اللہ نے اُس خاتون کی بات سن لی، جو اے محمدؐ! آپ سے اپنے شوہر سے متعلق جھگڑا کر رہی تھی‘‘۔ (-58 المجادلہ: 1) اللہ نے حکم نازل کردیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کریں، وہ اُن کی مائیں بن جائیں۔ ماں تو صرف وہی ہوتی ہے، جس سے انسان پیدا ہوتا ہے۔ پھر اللہ پاک نے اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کفارۂ ظِہار واجب کیا، اور وہ بھی بہت سخت ترین۔ یہ قانون بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ: ’’تلک حدود اللہ‘ ‘ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں۔ جو اس حدبندی کا انکار کرتے ہیں، اس کے مقابلے پر اپنی حدبندی، اپنی قانون سازی، اپنے مزعومہ خیالات رکھتے ہیں، وہ کافر ہیں‘‘۔

قانونِ الٰہی کے مقابلے میں کسی دوسرے نظام کو قبول کرنے کے نقصانات

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’یہ بات بڑی اہم اور سمجھنے والی ہے کہ اللہ نے جو حدود و قیود مقرر کی ہیں، وہ کیا ہیں؟ اور اس کے مقابلے میں حدود و قیود بنانا یا نیا دوسرا نظام بنانا، وہ کیا ہے؟ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا فکر اس کی وضاحت کرتا ہے۔ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ انسان دو قوتوں کا مرکب ہے: بہیمیت کا اور مَلَکیت کا۔ اس کے جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ نے ’’ارتفاقات‘‘ کا نظام وضع کیا ہے۔ ارتفاقِ اوّل سے لے کر ارتفاقِ رابع تک سہولتوں کا، رفاقتوں کا، انسانی محبتوں کا، معاشرت کا، سماج کی تشکیل کا، ایک نظام تشکیل دیا ہے: نظامِ ارتفاقات۔ جو اس کی بہیمیت یا اس کی جسمانی صلاحیتوں کو نشو و نما دیتا ہے، ارتقا دیتا ہے۔ اُس کو اس کرۂ ارض پر سہولت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور دوسرا اس کی مَلَکیت ہے اور اس مَلَکیت  کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ کی وحدانیت، اس کی عبادت، اس کے سامنے سر بہ سجود ہونے اور اس کے احکامات کے مطابق چار اَخلاق طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت کا خوگر ہو، یہ اَخلاق اُس کی روح کی ضرورت ہے۔ اور ارتفاقاتِ اربعہ اُس کے جسم کی ضرورت ہیں۔

یہ وہ بین الاقوامی نظام ہے، جو رسول اللہ ﷺ نے وضع فرمایا۔ اور جتنے بھی قانون بنائے، ذیلی اور ضمنی، وہ انسانیت ِجامعہ کو سامنے رکھ کر بنائے۔ اس کو کہا: ’’تلک حدود اللہ‘‘ ان حد بندیوں کی مخالفت نہیں کی جاسکتی۔ اب جو اس نظام کو توڑ کر ان سے مُحادّہ (دشمنی اور جھگڑا) کرے، یعنی اس انسانیتِ جامعہ کی حدود و قیود کو توڑ کر اپنا قانونی نظام، اپنا سیاسی نظام، اپنا معاشی نظام بنائے تو وہ گویا اللہ اور اُس کے رسولؐ کے خلاف محاذِ جنگ کھول رہا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو خاندانی نظام، قومی اور بین الاقوامی نظام میں ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے انسانیت دوست اُصول اور ان کی حدود کو توڑ کر صرف طبیعاتی خواہشات، محض عقلی خیالات، ستاروں اور علم نجوم کے تاثرات کی بنیاد پر نظام بنائے، یا ان تینوں کے ملغوبے سے کوئی نظام بنائے، وہ اللہ اور اُس کے رسول کا دشمن ہے۔ وہ مکہ کے مشرک ہوں، مدینے کے یہودی، یا مدینے کے منافقین ہوں۔ مسلمان کلمہ گو ہوں یا قیصر و کسریٰ ہوں۔ ان تمام کو اللہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ ان حدود کا انکار کرنے والے اور ان سے دشمنی رکھنے اور جنگ لڑنے والے ذلیل اور رُسوا ہوں گے۔

پھر اللہ پاک نے کہا کہ: ’’ایک دن آئے گا کہ میں ان تمام کو جمع کروں گا۔ انھوں نے جو عمل کیے ہوئے ہوں گے، اُن کی ہم ان کو اطلاع دیں گے‘‘۔ (-58 المجادلہ: 6) یہ سارا ڈیٹا اس لیے محفوظ ہے کہ اللہ پاک ہر چیز پر شہید اور نگران ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی آدمی اللہ تعالیٰ کے اس قانونی نظام اور انسانیت کے عدل و انصاف کے ان ارتفاقات و اقترابات کو نظرانداز کرکے اپنا نظام بنائے اور ہمارے پاس ڈیٹا میں محفوظ نہ ہو۔ ایک ایک عمل ریکارڈ میں محفوظ ہے اور اسی کی بنیاد پر ان کی جزا و سزا کا عمل ہوگا‘‘۔

حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی اہمیت و ناگزیریت

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’قرآن حکیم نے انسانی سماج سے متعلق ایک جامع قانون و ضابطہ اور ہر طرح کی حدود و قیود بتلائی ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب حدود اللہ کی بات آتی ہے تو ہمارا مذہبی طبقہ مخصوص قسم کی عبادات تک محدود رہتا ہے۔ انسانی سماج کے سماجی مسائل پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی۔ حال آںکہ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام ابراہیمی انبیاؑ کا مقصد معاشرتی ارتفاقِ ثانی کا نظام اور قومی ریاستی ڈھانچہ اور بین الاقوامی نظام قائم کرنا تھا۔ لیکن آج ہمارے وعظوں میں، ہماری گفتگو میں، ہمارے دین کی تبلیغ اور پھیلاؤ میں نہ اَخلاقِ اربعہ (طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت) پر گفتگو ہے نہ ارتفاقِ اربعہ پر۔ اُن چیلنجز کا تذکرہ ہی نہیں، جن کو بنیاد بنا کر قرآن حکیم گفتگو کرتا ہے۔ یہ قرآن کی تعلیمات سے بے شعوری اور غفلت ہے۔ اور یہ وہی انتہا پسندی ہے، جو کسی زمانے میں یہود و نصاریٰ نے رہبانیت اختیار کرکے اپنے علما اور احبار کو اپنا خدا بنانے کے تناظر میں پیدا کر رکھی تھی۔ یہ وہی جرم ہے۔ آج ہمارا منبر و محراب نہ ریاست کو بنیاد بنا کر گفتگو کرتا ہے اور نہ معاشرے اور سماج کی بنیاد پر رہنمائی کرتا ہے۔ نہ انسانی پیشوں اور معاشی سرگرمیوں کو زیربحث لاتا ہے۔ نہ انسانی مسائل کو پیش نظر رکھتا ہے۔

قرآن حکیم میں بیان کردہ واقعہ ظِہار سے متعلق سورت المجادلہ کی یہ آیاتِ مبارکہ اپنے سیاق و سباق میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں کہ اپنی سوسائٹی کے انسانی مسائل اور ان کے شعبوں سے متعلق عقلی سوال اُٹھائے جائیں۔ غلط قوانین پر مبنی نظام سے مجادلہ کریں۔ اگر ایک خاتون حضوؐر _ جو ریاست کے سربراہ ہیں _ سے ایک غلط قانونِ ظِہار کی بنیاد پر ’’مجادلہ‘‘ (جھگڑا) کرتی ہے، تو یہاں کے حکمرانوں سے سوال کیوں نہیں کیا جاسکتا کہ تمھاری پارلیمنٹ نے غلط قانون کیوں بنایا ہے؟ یہ مینجمنٹ غلط کیوں کی ہے؟ جس سے انسان ڈوب گئے؟ ایسا معاشی نظام غلط کیوں بنایا ہے، جس کے نتیجے میں غربت پھیل رہی ہے، مہنگائی پھیل رہی ہے، انسانیت سسک رہی ہے!؟۔ 

سوال اُٹھانا ایک مسلمان کے شعور کا تقاضا ہے، جو قرآن حکیم پر ایمان رکھتا ہے۔ سورت المجادلہ کی یہ آیات دعوت دیتی ہیں کہ اپنے سسٹم پر سوال اُٹھاؤ، اپنے اس ماحول پر سوال اُٹھاؤ، اس نظام کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس میں جو خرابیاں ہیں، انھیں جاننے کی کوشش کرو۔ تبھی صحیح قانون اور نظام بن پائے گا۔ پھر یہ سورت بڑی اہم بات سکھاتی ہے کہ اکیلا فرد ہی نہیں، بلکہ ان کو قائم کرنے والی ایک پارٹی (حزب اللہ) پیدا کرنا ضروری ہے۔ باشعور لوگ مل کر ایک حزب اور مجلسِ مشاورت بنائیں اور اس حزب اور منظم جماعت کا ایک سربراہ ہو اور وہ جماعت مستحکم نظام قائم کرنے کی جدوجہد اور کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سورت کو جامعیت کے ساتھ سمجھنے اور اس کی اساس پر ہم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اُس ذمہ داری کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین!)‘‘

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیے بغیر کوئی کامل نظام قائم نہیں ہوسکتا

یکم؍ اکتوبر 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نومبر 18, 2021

اَحبار و رُہبان کی دین فروشی اور فاسد کردار

12؍ اگست 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: ’’معزز…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 12, 2022

افتتاحی تقریب ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور، پشاور کیمپس

اِدارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کا 2001ء سے شروع ہونے والا سفر کراچی، سکھر، صادق آباد، ملتان اور راولپنڈی کی منزلیں طے کرتا ہوا پشاور آ پہنچا ہے! الحمدللہ علیٰ ذالک…

انیس احمد سجاد نومبر 14, 2022

اسلام کی تمام تعلیمات کا بنیادی مقصد

14؍ جنوری 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز دوستو! دی…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 11, 2022