اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیے بغیر کوئی کامل نظام قائم نہیں ہوسکتا

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
نومبر 18, 2021 - خطباتِ جمعتہ المبارک
اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیے بغیر کوئی کامل نظام قائم نہیں ہوسکتا

یکم؍ اکتوبر 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’معزز دوستو! انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی اجتماعی سوسائٹی کی تشکیل کے لیے ایک نظامِ زندگی اُستوار کرتا ہے۔ ایک سسٹم بناتا ہے۔ مہذب انسانیت اپنی اجتماعی طاقت اور قوت پیدا کرنے کے لیے کسی نہ کسی نظام کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہے۔ سوائے اُن مجنون اور پاگل لوگوں کے جو ذہنی طور پر مفلوج یا جسمانی طور پر معذور ہیں، یا جنگلوں میں وحشی قبائل ہیں۔ ان کے علاوہ مہذب دنیا کسی نہ کسی نظام کے تابع رہ کر زندگی بسر کرتی ہے۔ کسی نہ کسی سسٹم کے تحت کام کرتی ہے۔ خواہ وہ نظام انسانوں کا بنایا ہوا ہو، اپنی عقل سے سوچا ہوا ہو، یا انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کے تناظر میں ہو۔

ہر نظام میں یہ لازمی اور ضروری ہے کہ جس کو بھی منتظمِ اعلیٰ تسلیم کرلیا جائے، اُسی کے مطابق تمام اُمور سرانجام پائیں گے۔ نظم و ضبط اور ڈسپلن منتظمِ اعلیٰ کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔ اس کا نام ’’بادشاہ‘‘ رکھ لو، اس کو صدر، وزیراعظم، ڈکٹیٹر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، سربراہِ مملکت یا چیف ایگزیکٹو کہہ لو، اسی طرح قبیلے کا سردار کہہ لو یا خاندان کا سربراہ، کسی شہر کا میئر، چیئرمین یا کچھ بھی کہہ لو۔ نظامِ حکومت کی ڈور جس کے قبضے میں ہے، اُس کے قائم کردہ ڈسپلن کو قائم رکھنا ہر سسٹم کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کل انسانیت کی اجتماعیت کے عالمی نظام کے قیام کے لیے بین الاقوامی نظام بنانے، اُس کی عالم گیر حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے کون سے مرکز کو تلاش کیا جائے؟ سرمائے کو؟ پارٹی ڈکٹیٹرشپ کو، کسی خاندان، یا کسی نسل کو، کسی خاص قوم کو، کسی خاص طبقے کو؟ ظاہر ہے کہ یہ تمام جتنی بھی چیزیں ہیں، خود اپنی ذات میں محتاج اور درماندہ ہیں۔ ان کی اپنی زندگی، ان کی اپنی تخلیق، ان کی اپنی کارکردگی کسی اَور ذات (اللہ تبارک و تعالیٰ) کی محتاج ہے، ذاتی نہیں ہے۔ اپنے اختیار سے نہیں ہے۔ ہمیں اُس طاقت اور قوت کی کھوج لگانی چاہیے جو بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب تمام انسانیت کے لیے انسانی مفاد کا نظام تشکیل دے۔ یہ کھوج لگانا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔

مسلمان کی کامیابی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ اس کائنات پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمرانی کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ تسلیم کرے۔ اُس کے ساتھ سچا تعلق قائم کرے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ اُس کی وابستگی اخلاص پر مبنی ہو۔ اُس میں کوئی ذاتی غرض اور کوئی مفاد پیشِ نظر نہ ہو۔ پوری دل جمعی، اعتماد، طاقت اور قوت کے ساتھ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کی پاسداری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے جو انسانیت کی ترقی کے لیے پروگرام پیش کیا ہے، انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے جو دینِ حق عنایت کیا ہے، اُسے دنیا میں غالب کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں استعمال میں لائے۔ طاقت اور قوت اس لیے خرچ کرے کہ وہ اللہ کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ کے تعلق سے انسانی ذہن روشن ہوتا ہے

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ انسانی فطرت کو سمجھانے کے لیے ایک بڑی اچھی مثال دیتے ہیں کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے، بچپن میں ابھی اُسے چلنا پھرنا آتا ہے، وہ محتاج ہوتا ہے، گرتا پڑتا ہے تو فوراً ایک آسرے کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے ماں باپ موجود ہوں تو بچہ حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ اعتماد کرتا ہے کہ یہ مجھے ہر تکلیف سے بچائیں گے۔ جیسے جیسے اُس کی جسمانی ساخت بڑی ہوتی ہے اور وہ اپنے ذہنی اُفق اور اپنی قوتِ عقلیہ کو صیقل کرنا چاہتا ہے۔ جوانی کی منزل پر قدم رکھتا ہے تو وہ کسی استاذ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اُس کی اب حاجت یہ ہے کہ کوئی اُسے اعلیٰ علوم سکھائے، جس سے اُس کی زندگی میں تہذیب پیدا ہو اور وہ ترقی کرے۔ اس لیے ماں باپ کا سہارا چھوڑ کر سکول، کالج، یونیورسٹی، مسجد، مدرسے کا رُخ کرتا ہے۔ وہ محبت جو کل تک صرف ماں باپ کے لیے تھی، اب وہ استاذ کی طرف بھی منتقل ہوجاتی ہے۔

تعلیم سے فراغت کے بعد یہ انسان مزید آگے بڑھتا ہے، اُسے مزید ترقیات چاہئیں، اب اُسے سوسائٹی میں فعال کردار ادا کرنا ہے۔ فعال کردار ادا کرنا بغیر نظم و ضبط اور ڈسپلن، بغیر امن و امان کے تحفظ اور بغیر معاشی سسٹم کے نہیں ہوسکتا۔ وہ سسٹم بنانے والا اور چلانے والا منتظم ہوتا ہے، حکمران یا قبیلے کا سردار اور سوسائٹی کا نمائندہ بنتا ہے۔ وہ اُس کے لیے ایک بہت اچھا خیرخواہی کا سسٹم بناتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اُس کی یہ حکومت ایک نسل، ایک خاندان یا ایک علاقے کے لوگوں کے لیے کردار ادا کرے گی، لیکن انسان کا دماغ، اُس کی علمی اور عملی ضروریات یہیں تک تو محدود نہیں ہیں۔ وہ اس سے اوپر جانا چاہتا ہے۔ ہوتے ہوتے اُسے اُن انبیا علیہم السلام کا تعارف ہوتا ہے، اُن کی بنائی ہوئی جماعتوں کا، جو کل انسانیت کی فلاح و بہبود کی سوچ رکھتے ہیں۔ اس طرح جو انسان ان انبیا علیہم السلام کے تعلق سے کل انسانیت کے نفع کا ماحول بنائے گا، تب ہی کسی قوم کا قومی نظام درست ہوگا۔ قومی نظام درست ہوگا تو تعلیمی ادارہ درست ہوگا۔ وہ درست ہوگا تو خاندان اور ماں باپ صحیح ہوں گے۔ اس کا ایک پورا سسٹم ہے۔

اب اُس کا ذہنی اُفق اُس ذات کو تلاش کرتا ہے جو انسانیت کے دائرے سے اوپر اُٹھ کر کل انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کردار ادا کر رہی ہے۔ اور وہ سوائے ذاتِ باری تعالیٰ کے اَور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس کی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط کرے جو کبھی بھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اُس کی اپنی پیدائش اور تخلیق سے لے کر اس دنیا کی پوری زندگی، موت کے بعد کے تمام مراحل ہیں، پھر حشر اور اس کے بعد جنت دوزخ کے جتنے بھی مراحل ہیں، ہر مرحلے میں یہ تعلق اور محبتِ الٰہیہ کام کر رہی ہوتی ہے۔ ماں باپ، استاذ، رہنما، یہاں تک کہ نبی اکرمؐ جن سے محبت تھی، وہ دنیا میں بہ ظاہر موجود نہیں، لیکن اللہ تو ہر جگہ پر ہے، شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ تعلق انسان کے ذہن کو روشن کردیتا ہے‘‘۔

نظامِ انسانیت کی ترقی کا مرکز؛ ذاتِ الٰہی سے تعلق

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’دنیا میں جتنے بھی نظام ہائے فکر ہیں، وہ ایک جگہ پر جا کر رُک جاتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام‘ سرمائے کے بت کا پجاری ہے۔ اس کا پورا کا پورا ڈھانچہ، اُس کی سیاست، معیشت، عدالت، تہذیب، کلچر، تمام تر اجتماعی اور انفرادی سرگرمیاں سرمائے کے بت کے گرد گھومتی ہیں۔ بھلا اس سے زیادہ فضول اور لغو بات کیا ہوگی کہ انسانیت کے لیے جو نظام بنایا جا رہا ہے، وہ انسانیت سے کم تر مخلوق یعنی سرمایہ اور زر کو برتر مان کر بنایا جا رہا ہو۔ ایک اعلیٰ انسان اپنے سے کم تر چیز ’’سرمایہ‘‘ کے گرد گھومے، اُس کے مفاد کے لیے کام کرے، اس سے بڑی بدتہذیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟ خود یورپین فلاسفر بیان کرتے ہیں کہ ارتقا کے مراحل میں انسانیت تمام مخلوقات سے زیادہ اعلیٰ ہے۔ تو کیا اعلیٰ کے لیے اسفل یعنی پست ترین چیز ’’سرمایہ‘‘ کی بنیاد پر نظام بنانا عقل مندی ہے؟ اس سے بڑی بدعقلی کی بات اَور کیا ہوسکتی ہے؟ آپ دیکھئے کہ یہ پست ترین صورتِ حال کے اسیر ہیں۔

اسی طرح انسانوں کی کوئی جماعت خواہ کتنی ہی مخلص کیوںنہ ہو، ایک وقت کے بعد وہ بھی ایک طبقے کی مخصوص آمریت کو جنم دیتی ہے۔ اس لیے کہ جب اس ’’پرولتاریہ‘‘ کے پاس حکومت کی طاقت آتی ہے، پیسہ آتا ہے، تو اس کا دماغ بھی خراب ہوجاتا ہے۔ وہ سرمایہ دار کی جگہ لے لیتا ہے۔ کل تک جو سرمایہ دار تھا، جس سے حکومت چھینی تھی، انقلاب برپا کیا تھا، وہ دولت اور خزانے اور حکمرانی کا مزہ جب اُس انقلابی جماعت کے لوگوں کے پاس آتا ہے تو طاقت کا ارتکاز تکبر اور ظلم پیدا کرتا ہے، انسان دشمنی پیدا کرتا ہے۔ کیوں کہ محدود انسان کی سوچ بھی محدود ہوتی ہے۔ انسان مخلوق ہے اور محدود ہے۔ اسی طرح مذہب کے نام پر حکمران بننے والے بھی ایک وقت کے بعد مذہبی اَخلاقیات ترک کرکے خود مذہبی پاپائیت قائم کردیتے ہیں۔ سوشلزم اور کیمونزم کے نام پر بھی حکمران بننے والے پارٹی ڈکٹیٹرشپ کی بنیاد پر اُسی پاپائیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، کیا فرق ہے اگر زارِ روس کی بنیاد پر آمریت قائم ہو تو ناجائز ہو اور اگر سوشلزم کے نام پر آمریت قائم ہو تو وہ جائز ہوجائے گی؟

اس کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ حکمرانِ اعلیٰ صرف اور صرف ’ذاتِ باری تعالیٰ‘ کو مانا جائے۔ چناںچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ’’ہو الحيّ‘‘ (وہ زندہ ہے)۔ ’’حيّ‘‘ اُس کو کہتے ہیں جس کی زندگی کسی سے مستعار (اُدھار لی ہوئی) نہیں ہوتی۔ وہ کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہوتا۔ از خود ہے، ازل سے ہے، ابد تک رہے گا۔ دنیا بھر کی تمام زندگی کا مرکزِ حیات وہی ذات ہے، جس نے بغیر کسی مادے کے پہلے مادہ بنایا۔ پھر اُس سے تخلیقات کیں، پھر اُس کی تدبیرات کیں اور پھر اُس کی بقا کا ایک جامع دین اور پروگرام انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے دیا، حتیٰ کہ اُس میں انبیا علیہم السلام کی ذاتی اور طبعی خواہشات کی دخل اندازی کا راستہ بھی روک دیا گیا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ سے تعلق کا نتیجہ؛ انسان دوستی کا نظام

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’قرآن حکیم میں ارشاد ہے: ’’اُسی اللہ کو پکارو اُس کے لیے دِین کو خالص کرتے ہوئے‘‘۔ (-40 المومن: 14) دین میں کسی قسم کی کوئی ملاوٹ اور مکسنگ نہیں ہونی چاہیے۔ ’’دِین‘‘ عربی میں سسٹم اور نظام کو کہتے ہیں کہ جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے۔ اس لیے قرضے کو عربی میں ’’دَین‘‘ کہتے ہیں۔ اور قرضہ وہ ہوتا ہے کہ جتنا لیا ہے، اُتنا آپ کو واپس دینا ہے۔ اسی طرح جزا و سزا کا ایک عالم گیر نظام ہے، جس کے قوانین بالکل پرفیکٹ اور انسانی بھلائی کے ہیں۔ اس میں کسی کی کوئی رُو رعایت نہیں ہے۔ یہ ’’دِین الحق‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’دِین الباطل‘‘ وہ ہوتا ہے کہ سزا و جزا کا ایسا نظام کہ جس میں چور راستے تلاش کیے جائیں۔ حیلے بہانوں سے ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داریاں، آمریتیں، مخصوص طبقے کے مفادات حاصل کیے جائیں۔ خواہ وہ سرمایہ داری کے عنوان سے ہوں، یا سوشلسٹ عنوان سے ہوں یا کسی بھی مذہبی پاپائیت کی صورت میں ہوں۔ مزدوروں، کسانوں، محتاجوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا جو بھی چوری پر مبنی نظام ہے، وہ ’’دِین الباطل‘‘ ہے۔ حکمرانی کا ایسا نظام جو بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب انسانیت کے لیے کردار ادا نہیں کرتا، وہ غلط نظام ہے۔ کیوں کہ ہر نظام کی دو ذمہ داریاں ہیں: ایک امن اور دوسرے معاشی خوش حالی۔ امن بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب تمام لوگوں کے لیے ہو اور معاشی خوش حالی بھی تمام انسانوں کے لیے ہو۔ امن و امان کا نظام قائم ہو۔ معاشی خوش حالی کا نظام قائم ہو۔

اس میں کسی اَور طاقت کی مداخلت نہ ہو۔ جس مداخلت کے ذریعے سے سسٹم چلانے والا عیاش طبقہ اپنے مفادات حاصل کرے، اسی لیے قرآن حکیم نے ’’ملاء‘‘ اور ’’مترف‘‘ یعنی جاگیردار، وڈیروں، سرمایہ دار کے خلاف کھل کر آواز بلند کی ہے۔ ان سرمایہ پرستوں کے خلاف کہا کہ جو سونے چاندی کے خزانے پر مسلط ہو کر بیٹھ گئے، اجارہ داریاں بنا لیں، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکتے ہیں، ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ اُن مولویوں اور پیروں کے خلاف بھی قرآن حکیم میں ببانگِ دہل اعلان کیا کہ بڑے بڑے علما، پیر، لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ (-9 التوبہ: 34) ان کی وجہ سے دین بدنام ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں اچھا! یہ مولوی صاحب یہ کر رہے ہیں، یہ پیر صاحب یہ کر رہے ہیں، یہ تو دین کا نظریہ ہوگا، اسلام کا نظریہ ہوگا، اس طرح لوگوں کو دین سے دور کرتے ہیں۔

یہ وہ انقلابی نظریہ ہے جو انبیا علیہم السلام نے انسانیت کے سامنے رکھا۔ اسی لیے کہا خالصتاً دین کی اساس پر، دین کو خالص کرتے ہوئے صرف اللہ کو پکارو۔ جب کہ آج تمھارا حال یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکار رہے ہو، امریکا کو بھی پکار لو، سرمایہ داروں کو بھی پکار لو، جاگیرداروں سے بھی یارانے گانٹھ لو، حکمران ظالم طبقوں سے بھی دوستیاں لگاؤ اور اللہ اللہ بھی کرو۔ یہ دو چیزیں کبھی نہیں جڑ سکتیں‘‘۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

اسلام؛ جامع اور مکمل نظامِ انسانیت

16؍ ستمبر 2022ء کو حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: ’&rs…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اکتوبر 11, 2022

اَحبار و رُہبان کی دین فروشی اور فاسد کردار

12؍ اگست 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: ’’معزز…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 12, 2022

افتتاحی تقریب ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور، پشاور کیمپس

اِدارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کا 2001ء سے شروع ہونے والا سفر کراچی، سکھر، صادق آباد، ملتان اور راولپنڈی کی منزلیں طے کرتا ہوا پشاور آ پہنچا ہے! الحمدللہ علیٰ ذالک…

انیس احمد سجاد نومبر 14, 2022

اسلام کی تمام تعلیمات کا بنیادی مقصد

14؍ جنوری 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز دوستو! دی…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 11, 2022