16؍ دسمبر 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’معزز دوستو! دینِ اسلام کی معاشی تعلیمات کا بنیادی محور یہ ہے کہ انسانی حقوق کی ادائیگی میں انسانیت کی ذمہ داریاں عمدہ طریقے سے پوری ہوجائیں۔ دینِ اسلام کے کامل نظام میں معاشی نظام کی بنیادی اہمیت ہے۔ معاشی نظام کی اَساس انسانی احتیاجات کی تسکین اور انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے متعلق ہے۔ ان احتیاجات کے پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو لوگ سوسائٹی میں ایسی احتیاجات کا شکار ہیں اور اُن کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں، تو دین کا معاشی نظام مسلمان جماعت پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اُن کے حقوق ادا کرے، اُن کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو۔ قرآن حکیم میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ: ﵟفَـَٔاتِ ذَا ٱلۡقُرۡبَىٰ حَقَّهُﵞ کہ تم جو قرابت دار ہیں، تمھارے گرد و پیش جتنے انسان ہیں، خونی رشتے دار ہوں، جماعتی تعلق والے ہوں، کسی فورم پر کام کرنے والے قرابت دار ہوں، پڑوسی ہوں، آپ کے ساتھ بیٹھ کر سفر کرنے والے ہوں، انھیں ان کا معاشی حق دو۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ اگر تم یہ تمام حقوق ادا کرو گے توﵟذَٰلِكَ خَيۡرٞ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجۡهَ ٱللَّهِۖ ﵞ (-30 الروم: 38) یہ بہت خیر اور بھلائی کی بات ہے، لیکن یہ خیر صرف اُن لوگوں کے لیے ہے، جو صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی مخلوق ہے، انسان ہیں، ان کی احتیاجات ہیں، ان احتیاجات کو پورا کرنے کے لیے میں اللہ کی رضا کے لیے میں یہ خرچ کرتا ہوں۔ کوئی ذاتی لالچ اور مفادپرستی کے لیے حقوق ادا کرنا نہیں ہے۔
نیز اللہ پاک نے فرمایا کہ :ﵟأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَﵞ جو اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرتے ہیں، لوگوں کی مالی ضروریات کی کفالت اور اُن کے حقوق کی ادائیگی کے لیے اللہ کے دیے ہوئے مال کو استعمال میں لاتے ہیں، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ انھیں کو اس زندگی میں بقا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ فلاح کا معنی البقاء ہے، اس کرۂ ارض پر انسانیت میں سے اُن انسانوں کی بقا ہے، اُن کے وسائل باقی رہیں گے، وہ انسان کامیاب ہیں، جو مالی حوالے سے حقوقِ انسانیت ادا کرتے ہیں اور حقوقِ انسانیت کی ادائیگی میں اُن سے کسی قسم کے نفع کے طالب نہیں، بلکہ خالص اللہ کے لیے، اور اس کی رضا اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کی نیت سے یہ کام کرتے ہیں۔ اُن کے لیے فلاح اور بقا ہے۔ انبیا کا طریقہ، اُن کے حواریین کا طریقہ، اُن کے اصحاب کا طریقہ، سچے اولیاء اللہ کا طریقہ یہی ہے۔ ولی ہوتا ہی وہ ہے، جو صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کام کرتا ہے۔ گویا وِلایت، نبوت اور حواریت دراصل تبھی ہے کہ جب وہ انسانی بھلائی کے لیے وسائلِ معاش کو خرچ کرتا ہے۔ جو بھی رزق اُن کے پاس آتا ہے، وہ انسانی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کردیتے ہیں۔ حقوقِ انسانیت ادا کردیتے ہیں۔ ان کا نام ہمیشہ باقی رہتا ہے‘‘۔
سود اِنسانی حقوق کو غصب کرنے کا ذریعہ ہے
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’ہر وہ عمل، جو انسانیت کے معاشی حقوق پر ڈاکہ ڈالے، اُس کی نوعیت کسی بھی صورت میں ہو، اسلام کے معاشی نظام میں وہ قابلِ برداشت نہیں ہے۔ قرآن حکیم نے اس کے لیے واضح قانون سازی کی ہے۔ دنیا بھر میں مالی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا، دوسرے انسانوں کی کمائی کو لوٹنے کا سب سے بدترین طریقہ ہمیشہ سے سودی نظام رہا ہے۔ اس سودی نظام کے خلاف تمام الٰہی کتب، تمام حکما، تمام اَخلاقِ فاضلہ کے ماہرین اور دنیا بھر کے انسانی عقل رکھنے والے عقلا اس کی ممانعت کرتے رہے ہیں۔ اس کے خلاف مزاحمتی سوچ پیدا کرتے رہے ہیں۔ قرآن حکیم نے بھی رِبا اور سود کی حرمت پر سورت البقرہ اور سورت آلِ عمران اور دیگر سورتوں میں بڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
قرآن حکیم کا انداز و اُسلوب یہ رہا ہے کہ جو چیز کسی انسانی سماج میں بہت گہرائی کے ساتھ سرایت کرچکی ہے اور غلط ہے، تو اُس کی ممانعت ایک تدریج اور حکمت کے ساتھ کی گئی۔ جیسے مکہ اور مدینہ کے لوگ شراب بہت زیادہ پیتے تھے، تو اُس کے لیے تین چار مراحل سے گزر کر شراب کی حرمت کا حکم آیا۔ جب اُس کی خرابی انسانیت کے سامنے بالکل الم نشرح ہوگئی، تو پھر اُس کا باقاعدہ قانون جاری کردیا کہ آج کے بعد بند۔ ایسے ہی سود خوری کی ممانعت کی، جو مکی معاشرے میں سرایت کی ہوئی تھی۔ قرآن حکیم نے مکی سورتوں میں مالی ظلم و ستم سے نفرت کی سوچ پیدا کی۔
چناں چہ فرمایا:ﵟوَمَآ ءَاتَيۡتُم مِّن رِّبٗا لِّيَرۡبُوَاْ فِيٓ أَمۡوَٰلِ ٱلنَّاسِ ﵞ، کہ جو تم کسی کو مال دیتے ہو، اضافے کے لیے، یہ درست نہیں۔ عربوں کا دستور تھا کہ عام طور پر شادی بیاہ و دیگر مواقع پر ایک دوسرے کو ہدیے کے طور پر پیسے دیتے تھے، لیکن اُن کی نیت یہ ہوتی تھی کہ مجھے یہ رقم اضافے کے ساتھ واپس ملے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ﵟفَلَا يَرۡبُواْ عِندَ ٱللَّهِۖ ﵞاللہ کے ہاں اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ تو گویا کہ اپنے ہدیے، اپنی کسی خدمت، اپنا کسی انسان پر حق جتا کر حق ادا کرکے اُس سے ایسا معاوضہ لینا، جو مادی ہو، یا کسی مرتبے اور عہدے کا حصول ہو، یا اُس کے نتیجے میں اپنا کوئی پھنسا ہوا کام نکالنا مقصود ہو، تو اُس کو بھی اللہ نے یہاں رِبا اور سود کہا ہے۔
اللہ پاک نے اسی آیت میں ’’رِبا‘‘ کے مقابلے میں لفظ ’’زکوٰۃ‘‘ کا ذکر کیا ہے:ﵟوَمَآ ءَاتَيۡتُم مِّن زَكَوٰةٖ تُرِيدُونَ وَجۡهَ ٱللَّهِ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُضۡعِفُونَﵞ (-30 الروم: 39) کہ جو مال تم بطورِ زکوٰۃ کے دیتے ہو اور تمھارا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا ہے تو وہ ایسے لوگ ہیں، جن کے مال میں ڈبل اضافہ ہوگیا ہے۔ یعنی کسی غریب، مسکین، مسافر یا کسی رشتہ دار پر مال خرچ کیا اور اُس سے مقصد کوئی منفعت اُٹھانا یا احسان جتلانا نہیں ہے، تو ایسے لوگوں کا مال ڈبل ہوگیا، بلکہ دس گنا تک اضافہ ہونے کا احادیث میں ذکر آیا ہے۔ اُن کا فائدہ دنیا میں بھی ہے کہ دنیا میں ایک انسان کی ضرورت پوری ہوگئی اور آخرت میں تو اُس کا اجر کئی گنا بڑھا کر اُن لوگوں کو دیا جائے گا‘‘۔
زکوٰۃ کے حقیقی مقاصد کا اِدراک
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مقاصد دو ہیں: تہذیب نفس؛ انسانی نفس کو مہذب بنانا، اور سیاستِ اُمت۔ انسانی نفس کو مالی حوالے سے مہذب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی نفوس میں جو شُحّ اور بخل بھر چکا ہے، اُس کا خاتمہ ہو۔ نفس کے تین شعبے ہیں: قلب، عقل اور نفسِ طبعی۔ نفس کو مہذب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ نفس کے یہ تینوں شعبے اللہ کی رضا اور مَلَکیت کے تقاضوں سے کردار ادا کریں، نہ کہ بہیمی اور شیطانی تقاضوں سے۔ صوفیائے کرام کہتے ہیں کہ انسان کو یہ پہچان ہونی چاہیے کہ قلب میں خیال اور وسوسہ شیطان کی طرف سے آیا ہے، یا فرشتے کی طرف سے آیا ہے۔ جو آدمی اپنے خیالات کا تجزیہ نہیں کر سکتا، وہ صحیح طور پر زکوٰۃ نہیں ادا کرسکتا۔ اُس کا تزکیہ نہیں ہوسکتا۔
یہی حال عقل کا ہے کہ عقل پر اگر طبیعت اور بہیمیت غالب ہے تو وہ عقلِ بہیمی ہے۔ جانوروں کی طرح سوچتی ہے۔ اُس کی سوچ محدود ہے، جو ظاہری اور فوری نفع دیکھتی ہے۔ یہ عقلِ شیطانی ہے۔ لیکن یہی عقل اگر انسانی حقوق کی پہچان پیدا کرکے انسانیت کے سسٹم کو قائم کرنے کے لیے ایک بہتر نظام بنانے کے لیے جدوجہد اور کوشش کرتی ہے تو یہ عقلِ انسانی ہے۔ یہی حال نفسِ طبعی کا ہے کہ وہ اگر صرف طبعی تقاضوں کے مطابق کردار اد اکرتا ہے، ارادے بناتا اور کام کرتا ہے، تو نفسِ بہیمی اور شیطانی ہے۔ اور اگر اجتماعی تقاضوں کی بنیاد پر کام سرانجام دے رہا ہے تو وہ نفسِ انسانی ہے۔
گزشتہ تین سو سال کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج مالی معاملات کو چلانے والے دل بہیمیت زدہ اور شیطان زدہ ہیں۔ ان میں شیطان نے وسوسہ اور خیالات ڈالے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا دل بھیڑیوں کی طرح ہے۔ ان کی عقل شاطر دماغ ہے۔ ان کا نفس شیطانی اثرات کا حامل ہے۔ امّارۃٌ بالسُّوء (بُرائی کا حکم دینے والا) ہے۔ ان تینوں کے شیطانی اثرات کا مجموعہ سرمایہ داری نظام اور عالمی استحصالی سودی نظام ہے۔ اور اس سے جو چیز وجود میں آئے گی، وہ ’’رِبا‘‘ اور ’’سود‘‘ ہے۔
زکوٰۃ کا دوسرا بڑا بنیادی مقصد سیاست الامت ہے کہ اس مال کے ذریعے سے ملکی نظم و نسق چلانا، ملکی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ وہ ملکی نظم و نسق ایک محلے کا ہو یا ایک بستی کا، ایک چھوٹی سوسائٹی، صوبے یا علاقے کا اور ایک ملک اور ایک بین الاقوامی سطح تک کا ہو، اس نظام کے انتظامی ڈھانچے کو چلانے اور نظم و نسق کے لیے اجتماعی مالی وسائل فراہم کرنا ہے۔ اُن تمام کاموں کے لیے ان وسائل کا خرچ کرنا، جن کا تعلق پبلک سے ہے۔ پُل بنانا، سڑکیں بنانا، انسانیت کی ضروریات کے لیے، اس پورے عمل کو چلانے والے جو انتظامیہ کے لوگ ہیں، اُن کے لیے خرچ اخراجات کرنا۔ ارتفاقِ ثالث اور ارتفاقِ رابع کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مالی وسائل کا استعمال کرنا۔ اجتماعی فنڈ قائم کرنا ہے۔ اور اس کا بھی مقصد صرف اللہ کی رضا ہو‘‘۔
قرض کی اصل حقیقت؛ عقد ِتبرُّع ہے
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد ہے کہ: رِبا کی دو قسمیں ہیں: رِبا الحرام و رِبا الحلال۔ ایک رِبا وہ ہے، جو حرام ہے، جس کا سورتِ بقرہ اور آلِ عمران میں ذکر کردہ آیاتِ رِبا میں ہے اور ایک رِبا حلال ہے، جس کا تذکرہ سورت الروم کی مذکورہ آیت (39) میں کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہاں اس کا اضافہ نہیں ہوگا، بس انسانوں کے ہاں اضافہ ہوگا۔ بعض لوگ اس کو بنیاد بنا کر سود کو حلال بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرض عقدِ تبرع ہے، عقدِ بیع نہیں، نہ عقدِ اجارہ ہے۔ عقدِ تبرع سے مراد یہ ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ احسان کرتے ہیں۔ ایک ضرورت مند کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ جب آپ کو ضرورت پیش آتی ہے تو وہ آپ کا آپ سے بڑھ کر تعاون کردیتا ہے۔ یہ سود نہیں ہے۔ جیسے خود رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ کوئی اگر آپؐ کو ہدیہ دیتا تھا تو آپؐ اپنی طرف سے اُس کو کچھ اضافہ کرکے دے دیتے تھے۔
حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ بعض لوگوں نے آپؐ سے پوچھا کہ کیا یہ سود تو نہیں ہے؟ حضوؐر نے فرمایا کہ بھئی! یہ تو مِن مَرافِق الحیاۃ ہے، یعنی یہ تو زندگی بسر کرنے کی، ایک دوسرے کے ساتھ رفاقت اور سہولت کی بات ہے۔ اس کو سود کے پیمانے پر مت لے کر جاؤ۔ اس کا تعلق تو بغیر کسی شرطِ معاوضہ کے ہے۔ اب اس کو بنیاد بنا کر قرض کو معاملہ بیع سمجھ لیا جائے اور اُس پر کہا جائے جی یہ رِبا الحلال ہوگیا، یہ غلط ہے۔ کیوں کہ مقروض کی غربت پر تو سب کا اتفاق ہے۔ کسی کے ہاں بھی یہ درست نہیں ہے۔ یہ قرآن حکیم کا بنیادی مزاج ہے کہ رِبا (سود) اور زکوٰۃ کے درمیان بنیادی فرق واضح کردیا ہے۔
عالمی سرمایہ داری نظام اس وقت سود خوری کا ہے، جو دینِ اسلام کے بنیادی معاشی نظام سے متصادم ہے۔ اب ایسے سودی نظام کو اسلامی نظام بنانے کی کوشش کرنا، حیلے بہانے تلاش کرنا، اُس کا نیا رُخ بنانا اور پھر اُس کو کہنا کہ یہ انسدادِ سود ہے، یا حرمتِ سود کا عمل ہے، ایں خیال است و محال است و جنوں۔ یہ فضول اور لغو بات ہے۔ قرآن حکیم کے مزاج کو، اُس کے قانون کو، اس کے سسٹم کو انسانی بنیادوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور جو انسانیت دشمن کردار ادا کرنے والی کوئی عقل ہے، کوئی نفس ہے، کوئی قلب ہے، کوئی ارادے ہیں، کوئی عزائم ہیں، جو کوئی فیصلے ہیں، جو سوچیں ہیں، جو خواہشات ہیں، جو تمنائیں اور آزوئیں ہیں، وہ دینِ اسلام کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں۔ ان طبعی خواہشات کو، اُن قلبِ بہیمی کے تقاضوں اور عقلِ شیطانی کے اُمور کو اسلام کا لبادہ اوڑھانا، یہ اسلام کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ اسلام سب سے پہلے تہذیبِ نفس کرتا ہے، انھیں بڑھی ہوئی حیوانی خواہشات کی جڑ کاٹتا ہے۔ اگر وہی چیزیں آگے پھیلتی جائیں، تو اسلام کیسا؟ اسلام تو انسانوں کو انسان بناتا ہے۔ اور جو انسانیت سے دشمنی کا کردار ادا کرتے ہیں، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
اسلام کی تمام تعلیمات کا بنیادی مقصد
14؍ جنوری 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز دوستو! دی…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیے بغیر کوئی کامل نظام قائم نہیں ہوسکتا
یکم؍ اکتوبر 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز …
اَحبار و رُہبان کی دین فروشی اور فاسد کردار
12؍ اگست 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: ’’معزز…