سورت البقرہ کی پہلی آیت سے لے کر آیت نمبر 39 تک واضح کیا گیا تھا کہ انسانیت کی کامیابی کا واحد راستہ لاریب قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ انسانیت کو اس کی ضرورت اور حاجت ہے۔ اس لیے کہ قرآن حکیم کا مقصد کل انسانیت کے لیے ایسی خلافت قائم کرنا ہے، جس کے ذریعے سے تمام انسانوں کے مسائل حل ہوجائیں۔ چناں چہ حضرت آدم علیہ السلام کے خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کی حقیقت ان آیات میں بیان کی گئی تھی۔ آیت نمبر 40 سے لے کر آیت نمبر 121 تک بنی اسرائیل کے حوالے سے یہ بات واضح کی گئی کہ وہ تورات پڑھنے کے باوجود اس دور میں کل انسانیت کی رہنمائی کے قابل نہیں ہیں۔ انھیں ایک اعلیٰ ترین کتاب تورات اور اولوالعزم پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے سچے حواریّین نے اللہ کا پیغام دیا تھا۔ ان پر جو انعامات نازل ہوئے اور انھیں باقی جہان والوں پر فضیلت دی گئی، اس کا تقاضا تھا کہ وہ اس کے مطابق انسانیت کے لیے کام کرتے، لیکن انھوں نے ان انعامات کے ہوتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ انسانیت کے لیے تو کیا کام کرتے، خود اپنے بنی اسرئیلی لوگوں کو ذاتی اور گروہی مفادات کے تحت آپس میں لڑاتے اور اُن کا خون بہاتے رہے، حتیٰ کہ اپنے انبیا علیہم السلام کو تکلیف دینے اور قتل کرنے سے بھی باز نہ آئے۔
گزشتہ آیات (-2 البقرہ: 121-120) میں یہ واضح کیا گیا کہ اب وہ اس حد تک مسخ ہوگئے کہ سچے دینِ ابراہیمی پر عمل کرنے کے بجائے ملتِ ابراہیمیہ موسویہ کو انھوں نے مسخ کرکے رکھ دیا ۔ اور حالت یہ ہے کہ وہ آج رسول اللہ ﷺ سے اپنے تحریف شدہ ملت کو مانے بغیر راضی نہیں ہوں گے۔ ایسی صورت میں ان کی اتباع نہیں کی جاسکتی، البتہ اُن میں سے جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت، اُس کے پورے حقوق کی ادائیگی اور ذمہ داری کے ساتھ کرتے ہیں، وہ سچے مؤمن ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلامؓ وغیرہ حضرات کتاب اللہ کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے آپؓ پر ایمان لے آئے۔
آیت 122 سے لے کر150 تک بنی اسرائیل کے وہ مخلص لوگ جو کتاب اللہ کی تلاوت اُس کے پورے حقوق کے ساتھ کرتے ہیں، انھیں ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے بنیادی اَساسی اُصول سمجھائے جا رہے ہیں۔ ابتدا میں سورت البقرہ کی آیت 47 بنی اسرائیل پر انعامات کی اہمیت بتلانے کے لیے دوبارہ آیت 122 کے طور پر دہرائی جا رہی ہے۔
﴿يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴾ (اے بنی اسرائیل! یاد کرو احسان ہمارے، جو ہم نے تم پر کیے، اور اس کو کہ ہم نے تم کو بڑائی دی اہلِ عالَم پر): اس میں بنی اسرائیل کو وہ تمام نعمتیں یاد دلائی گئیں، جو اُن پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کی تھیں کہ ﴿وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا ﴾ یعنی: اُن میں حکمران اور بادشاہ بنائے۔ اس طرح اُن کی حکومت قائم کی اور ﴿وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ ﴾ (-5المائدہ: 20) یعنی: انھیں دُنیوی اور اُخروی طور پر ایسے انعامات سے نوازا کِیا اور قومی شان وشوکت عطا کی، جو دوسری اَقوامِ عالَم کو حاصل نہیں تھی۔ ایسی صورت میں انھیں تمام اقوامِ عالَم کے لیے مثالی کردار ادا کرنا اور ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ اور ملتِ موسویہ کی تعلیمات کو دنیا بھر میں انسانیت کی بھلائی کے لیے پھیلانا اُن کی ذمہ د اری ہے۔
﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ﴾ (اور ڈرو اُس دن سے کہ نہ کام آوے کوئی شخص کسی کی طرف سے ذرا بھی): ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کی خدا پرست اور انسان دوست تعلیمات کا پہلا بنیادی اَساسی اُصول یہ ہے کہ ہر انسان اپنے کیے دھرے کا خود ذمہ دار ہے۔ اُس کو اپنے اوپر عائد اللہ تعالیٰ کے احکامات کو خوب غور و فکر کرکے ذمہ داری سے ادا کرنا ہے۔ خدا پرستی اور انسان دوستی کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنا ہے۔ اللہ کے دین کو شرک، کفر اور تحریف وتلفیق سے بچانا اور انسانیت کی بھلائی کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔ دنیا میں ان ذمہ داریوں سے رُوگردانی نہ کرو۔ اُس دن سے ڈرو کہ جب تمھیں خدا کے حضور پیش ہونا ہوگا اور وہ دن ایسا ہے کہ کوئی انسان، کسی دوسرے انسان کے کام نہیں آئے گا۔ ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب وکتاب خود دینا ہوگا۔
بنی اسرائیل کے حکمران طبقوں اور مذہبی اَحبار ورُہبان نے دینِ موسوی میں تحریف کرکے مجرم کو بچانے کے چار طریقے اختیار کیے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ اصل مجرم کو بچا کر کسی دوسرے انسان پر سزا کی حد جاری کردیتے تھے۔ اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ یہ جو تم نے اپنی بادشاہت کے زمانے میں ایک انسان کے بدلے میں دوسرے انسانوں کو سزا دینے کا ظالمانہ کام اختیار کر رکھا ہے، یہ آخرت میں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔
﴿وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ﴾ (اور نہ قبول کیا جاوے گا اس کی طرف سے بدلہ): بنی اسرائیل کی مسخ شدہ مذہبیت میں دوسرا طریقہ یہ تھا کہ وہ مجرم‘ بادشاہ یا مذہبی رہنما کو کوئی مال وغیرہ دے کر جرم کی سزا سے بچ جاتا تھا۔ اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ: قیامت کے دن اللہ کے حضور میں ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ وہاں کوئی مالی تاوان دے کر مجرمین اپنے جرم کی سزا سے بچ جائیں۔ وہاں تو ہر ایک کا معاملہ عدل و انصاف کے ساتھ ہوگا۔
﴿وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ ﴾ (اور نہ کام آوے اس کو سفارش): مجرم کا سزا سے بچنے کا تیسرا طریقہ یہ تھا کہ کوئی تگڑی سفارش کرکے مجرم سزا سے بچ جائے۔ ظاہر ہے ایسی سفارش حکمرانوں کا کوئی طاقت ور طبقہ یا اثر ورسوخ رکھنے والا مذہبی پروہت ہی کرسکتا تھا۔ اس آیت میں اس کی بھی نفی کی گئی ہے کہ قیامت کے دن اس طرح کا بھی کوئی معاملہ اللہ تعالیٰ کے سامنے نہیں ہوسکے گا۔ وہاں ایسے مجرموں کے لیے کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہوگا۔
﴿وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ﴾ (اور نہ ان کو مدد پہنچے): کوئی سفارش اور مالی استطاعت نہ ہونے پر کسی مجرم کے بچنے کا چوتھا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ عوامی ہجوم کی نصرت اور مدد سے سزا سے بچ کر اپنی جان چھڑا لے جائے۔ قیامت کے دن ایسا بھی ممکن نہیں۔ وہاں پر کسی میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اللہ کے مقابلے پر ہجوم بنا کر کسی کو بچا سکے۔
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
اسلام کی تمام تعلیمات کا بنیادی مقصد
14؍ جنوری 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز دوستو! دی…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیے بغیر کوئی کامل نظام قائم نہیں ہوسکتا
یکم؍ اکتوبر 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز …
اَحبار و رُہبان کی دین فروشی اور فاسد کردار
12؍ اگست 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: ’’معزز…