گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بیان کرنے میں تحریف سے کام لیتے تھے اور اس طرح اَن پڑھ اور جاہل لوگوں سے ذاتی اور طبقاتی مفادات اُٹھاتے تھے۔ درجِ ذیل آیات (البقرہ: 80-82) میں اُن کی اس تحریفِ معنوی کی ایک اہم مثال واضح کی گئی ہے اور احکاماتِ الٰہیہ کے حوالے سے ایک قاعدۂ کلیہ بیان کرکے اس تحریف کی حقیقت آشکارا کی جا رہی ہے۔
وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا ٱلنَّارُ إِلَّآ أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚاور کہتے ہیں: ہم کو ہرگز آگ نہ لگے گی، مگر چند روز گنے چنے): امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’ہر ملت اور مذہب میں کافر، منکر اور دین کو تسلیم کرنے والے فاسق و فاجر کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے۔ کافر کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی سزا تجویز کی گئی ہے، جب کہ فاسق و فاجر اور گناہگار دین دار انسان کے لیے گناہوں کی سزا بھگتنے اور انبیا علیہم السلام کی شفاعت کے سبب جہنم سے نکلنے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہر ملت کی کتاب میں یہ حکم ہر اُس آدمی کے لیے ہے، جو اُس دین اور ملت کے بنیادی عقائد اور تعلیمات کو تسلیم کیے ہوئے ہے۔ چناں چہ تورات میں یہ بات ایک یہودی (مذہب) اور عبرانی (نسل) کے لیے بیان کی گئی اور انجیل میں ایک نصرانی کے لیے واضح کی گئی اور قرآن عظیم میں مسلمانوں کے لیے یہی بات بیان کی گئی ہے۔
اس حکمِ الٰہی کا اُصولی اور صحیح مطلب یہ ہے کہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر صدقِ دل سے ایمان لانا، اپنے نبی _ جو اُن کی طرف مبعوث ہوئے ہیں _ کی پوری فرماں برداری کرنا، اُس ملت کی شریعت کے مطابق پورا عمل کرنا، اور اُس ملت میں جن چیزوں سے روکا گیا ہے، اُن سے اجتناب کرنا ہے۔ یہ حکم کسی فرقے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
یہودیوں نے اس حکم میں یہ تحریف کی کہ یہ حکم صرف یہودیوں اور عبرانیوں کے لیے خاص ہے کہ اپنے انبیاؑ کی سفارش سے وہ ضرور بالضرور جنت میں داخل ہوں گے۔ اگرچہ اس حکمِ الٰہی پر کسی طور عمل نہ بھی کیا جائے۔ اور اگرچہ وہ صحیح طور پر مؤمن نہ بھی ہوں۔ اور ایمان بالآخرت بھی نہ رکھتے ہوں۔ اور اپنی طرف مبعوث شدہ نبیؑ کی رسالت کو بھی صحیح طور پر نہ مانتے ہوں۔ چناں چہ قرآن حکیم نے ان کی اس بات کو نقل کیا ہے کہ: ’’اور کہتے ہیں: ہم کو ہرگز آگ نہ لگے گی، مگر چند روز گنے چنے‘‘۔ ان کی یہ بات سراسر غلط ہے اور محض جہالت پر مبنی ہے۔
قرآن حکیم گزشتہ کتابوں کی تحریفات کو واضح کرکے سیدھا راستہ بتلاتا ہے اور یہودیوں کے اَحبار و رُہبان نے جو شکوک و شبہات اور اِشکالات دینِ حنیفی کے بارے میں پیدا کیے ہیں، انھیں اچھی طرح کھول کر بیان کرتا ہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تحریف کو اگلی آیات میں واضح طور پر بیان کردیا ہے‘‘۔ (الفوز الکبیر، فصلِ اوّل)
قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ ٱللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ ٱللَّهُ عَهْدَهُۥٓ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
(کہہ دو: کیا تم لے چکے ہو اللہ کے یہاں سے قرار (عہد)؟ کہ اب ہرگز خلاف نہ کرے گا اللہ اپنے قرار کے؟ یا جوڑتے ہو اللہ پر جو تم نہیں جانتے؟): کسی بھی معاشرے میں جاری احکامات اور قوانین یا تو کسی معاہدے کے تحت وجود میں آتے ہیں، یا کسی علم و تجربے کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔ یہود کے علما نے دین میں تمام تر تحریفات کے باوجود اپنے فرقے اور گروہ کے لیے ہمیشہ کی جنت میں داخلے اور صرف کچھ دنوں کے لیے جہنم میں داخل ہونے کے حوالے سے جو تحریف کی تھی، اُس کو واضح کرتے ہوئے اللہ پاک نے نبی اکرم ﷺ سے فرمایا کہ: آپ ان سے پوچھیں کہ کیا تھوڑے دن جہنم میں رہنے کے حوالے سے صرف تمھارے فرقے کا ہی اللہ سے کوئی معاہدہ ہے؟ یا تم کوئی ایسا علم رکھتے ہو کہ جس کی بنیاد پر تم نے صرف اپنے فرقے کی جنت میں داخلے کا تصور اپنا رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات نہ تو تورات کے کسی قدیم یا جدید ’’عہد نامہ‘‘ میں موجود ہے اور نہ ہی اس حوالے سے یہودی علما کوئی علم و شعور رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ تحریف محض غلط اور جہالت پر مبنی ہے۔
بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ کیوں نہیں! جس نے کمایا گناہ اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے، سو وہی ہیں دوزخ کے رہنے والے، وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔
جنت اور جہنم کا فیصلہ فرقوں، گروہوں اور نسلوں کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ اس قانونِ الٰہی پر مبنی ہے کہ جو انسان بُرے اعمال کرے اور پھر مسلسل بداعمالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بداَخلاقی اُس کے پورے وجود کو گھیر لے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ خواہ وہ آدمی کسی نسل، کسی فرقے اور کسی قوم سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو۔ تورات، انجیل اور قرآن حکیم کی تعلیمات میں یہ حکمِ الٰہی بغیر کسی فرقہ وارانہ تفریق اور نسلی امتیاز کے‘ اُصولی طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اسے کسی خاص فرقے کے ساتھ نتھی کرنا درست نہیں ہے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(اور جو ایمان لائے اور عمل کیے نیک، وہی ہیں جنت کے رہنے والے، وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے): اسی طرح جو لوگ صدقِ دل سے اللہ اور اپنے نبیؑ پر ایمان لائیں اور اس کے مطابق صحیح عمل کرکے اعلیٰ اَخلاق ؛ طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت حاصل کرلیں تو وہ ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ اس طرح ہر ملت کے جو لوگ اپنے زمانے میں اپنے نبیؑ کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے، وہ جنتی ہیں۔ آج یہ دور نبیٔ آخر الزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ہے، اس لیے اس دور میں سچا مؤمن وہ ہے، جو آپؐ کے لائے ہوئے دین کی پوری اتباع کرے اور اُس کی روشنی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی، انسانیت کے بنیادی چار اَخلاق اور قومی و بین الاقوامی تقاضوں کے تناظرمیں پورا کرے، وہی کامیاب انسان ہے۔ اس لیے اس دور میں تمام نسلوں اور قوموں کو قرآن حکیم کی تعلیمات پر صدقِ دل سے عمل کرنا ضروری ہے۔ انبیا علیہم السلام کی سفارش بھی ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہوگی، جو انبیاؑ کی تعلیمات پر صحیح طور پر عمل کریں گے۔
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
آئین و قانون شکنی؛ یہودیوں کی عادت
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (87 تا 90) میں بنی اسرائیل کی اس خرابی کا تذکرہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی جامع دینی تعلیمات کا بڑے ت…