سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (87 تا 90) میں بنی اسرائیل کی اس خرابی کا تذکرہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی جامع دینی تعلیمات کا بڑے تکبر سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اور دین میں تفریق اور تقسیم پیدا کرکے اپنی خواہشات کے پیروکار بنے ہوئے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ جامع احکاماتِ دین سے بغاوت کے سبب اُس کے غضب در غضب میں مبتلا ہوئے ہیں اور اس قانون شکنی کے سبب سیاسی اور معاشی ذلت کے عذاب کے مستحق قرار پائے ہیں۔
اب آیات 91-92 میں یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ یہودیوں کی طرف سے تورات و انجیل کی تعلیمات پر ایمان کا دعویٰ بھی قطعاً جھوٹا ہے۔ اگر یہ واقعی اُن کتبِ مقدسہ پر ایمان رکھتے تو اوّل اُن کی تصدیق شدہ کتاب قرآن حکیم پر ایمان لاتے، اور دوسرے یہ کہ انھوں نے تورات پر ایمان کے دعوے کے باوجود نہ صرف انبیائے بنی اسرائیل کو قتل کیا، بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیے ہوئے عہد و میثاق کی بھی خلاف ورزی کی۔ اس طرح اُن کا تورات پر ایمان کا دعویٰ بھی سراسر جھوٹ ہے۔
وَإِذا قيلَ لَهُم آمِنوا بِما أَنزَلَ اللَّهُ قالوا نُؤمِنُ بِما أُنزِلَ عَلَينا وَيَكفُرونَ بِما وَراءَهُ وَهُوَ الحَقُّ مُصَدِّقًا لِما مَعَهُم ۗ (اور جب کہا جاتا ہے اُن سے: مانو اُس کو جو اللہ نے بھیجا ہے، تو کہتے ہیں: ہم مانتے ہیں جو اُترا ہے ہم پر، اور نہیں مانتے اُس کو جو سوا اُس کے ہے، حال آں کہ وہ کتاب سچی ہے، تصدیق کرتی ہے اس کتاب کی جو اُن کے پاس ہے): بنی اسرائیل سے جب قرآن حکیم پر ایمان لانے کا کہا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم پر جو کتاب (تورات) نازل کی گئی تھی، ہم تو اس پر ایمان رکھتے ہیں، اس کتاب کے علاوہ کسی اَور کتاب کو نہیں مانیں گے۔ حال آں کہ قرآن حکیم ایسی حق کتاب ہے، جو تورات کی تصدیق کرتی ہے۔ اس طرح یہود تورات پر دعوائے ایمان کا اظہار کرکے قرآنی تعلیمات سے جان چھڑاتے ہیں۔ اس پر ان کے تورات پر دعوائے ایمان کے حوالے سے یہ اہم سوال اُٹھایا گیا کہ:
قُل فَلِمَ تَقتُلونَ أَنبِياءَ اللَّهِ مِن قَبلُ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ (کہہ دو: پھر کیوں قتل کرتے رہے ہو اللہ کے پیغمبروں کو پہلے سے؟ اگر تم ایمان رکھتے تھے) : یعنی اگر تم واقعی تورات پر ایمان لانے والے تھے تو تورات کی تعلیمات کو پھیلانے والے انبیا علیہم السلام مثلاً حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام وغیرہ کو کیوں قتل کرتے رہے؟ انبیا علیہم السلام کو قتل کرنا دعوائے ایمان کے قطعی منافی ہے۔
قرآن حکیم نے اُن پر مزید حجت قائم کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے نہ صرف انبیاؑ کو قتل کیا، بلکہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی تورات کی تعلیمات اور عہد و میثاق میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا۔ اصل میں یہ وہ لوگ ہیں، جو موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پر بھی بہت کمزور ایمان رکھتے تھے۔ ہوتے ہوتے اُن کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ سِرے سے ہی ایمان والے نہیں رہے۔ اس حوالے سے اگلی آیات میں ہے کہ:
وَلَقَد جاءَكُم موسىٰ بِالبَيِّناتِ ثُمَّ اتَّخَذتُمُ العِجلَ مِن بَعدِهِ وَأَنتُم ظالِمونَ (اور آچکا تمھارے پاس موسیٰ صریح معجزے لے کر، پھر بنا لیا تم نے بچھڑا اُس کے گئے پیچھے اور تم ظالم ہو): یعنی وہ واقعہ یاد کرو کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واضح دلائل لے کر تمھارے پاس آئے تھے تو تم نے اپنے پر ظلم کرتے ہوئے اُن کے طور پہاڑ پر جانے کے بعد بچھڑا بنا لیا تھا، اس وقت تمھارا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا کہاں چلا گیا تھا؟
وَإِذ أَخَذنا ميثاقَكُم وَرَفَعنا فَوقَكُمُ الطّورَ خُذوا ما آتَيناكُم بِقُوَّةٍ وَاسمَعوا ۖ قالوا سَمِعنا وَعَصَينا وَأُشرِبوا في قُلوبِهِمُ العِجلَ بِكُفرِهِم
(اور جب ہم نے لیا قرار تمھارا اور بلند کیا تمھارے اوپر کوہِ طور کو، پکڑو جو ہم نے تم کو دیا زور سے اور سنو، بولے: سنا ہم نے اور نہ مانا، اور پلائی گئی ان کے دلوں میں محبت اسی بچھڑے کی‘ بہ سبب ان کے کفر کے): تورات پر ایمان کے منافی دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے قرآن نے اُن پر حجت تمام کی کہ جب ہم نے تم سے تورات کی جامع تعلیمات پر عمل کرنے کا عہد و میثاق لیا تھا، تو تم نے اس کے ماننے کے باوجود اس عہد کی نافرمانی کی تھی۔ کفر کے سبب سے تمھارے دلوں میں بچھڑے کی محبت گھسی ہوئی تھی۔ اب بتلاؤ اس واقعے کا تورات پر ایمان سے کیا تعلق ہے؟
قُل بِئسَما يَأمُرُكُم بِهِ إيمانُكُم إِن كُنتُم مُؤمِنينَ (کہہ دے کہ بُری باتیں سکھاتا ہے تم کو ایمان تمھارا ،اگر تم ایمان والے ہو): نبی اکرمؐ سے کہا جا رہا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم تورات پر ایمان کے دعوے دار ہو تو تمھارا یہ دعوائے ایمان بہت ہی بُرا ہے، اس لیے کہ تمھارا عمل اس کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ تم انبیا علیہم السلام کو قتل کرتے رہے ہو۔ بچھڑا بنا کر اُسے پوجتے رہے ہو اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خدا پرستی اور انسان دوستی کے معاہدا ت کرکے اُن کی صریحاً خلاف ورزی کرتے رہے ہو۔ اگر یہی تمھارا ایمان ہے تو یہ بہت ہی بُرا ایمان ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ تم اپنی خواہشات کی گرداب میں مبتلا ہو کر اللہ کی نازل کردہ تمام ہی کتابوں کے منکر ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم کا اجتماعی اور سیاسی مزاج بگڑ جاتا ہے تو وہ قانون، آئین اور شریعت کی پابندی نہیں کرتی۔ بہ ظاہر اُس پر ایمان رکھنے اور اُسے تسلیم کرنے کے دعوے کرتی ہے، لیکن خواہشات کے اسیر اہلِ علم و دانش اور حکمران طبقے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی وجہ سے نہ تو قانون کا احترام کرتے ہیں، اور نہ شریعت کی پابندی کرتے ہیں۔ عدل و انصاف اور حق بات کی طرف اُنھیں توجہ دلائی جائے تو اُسے اپنے مفادات کے خلاف جانتے ہوئے رد کردیتے ہیں۔ اور اپنے تسلیم شدہ قانون اور شریعت کی بھی کھلم کھلا من مانی تشریح، تحریف اور تاویل کرکے اُسے پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں۔ قانون شکن قومیں غضبِ الٰہی سے دوچار ہو کر دنیا میں سیاسی ذلت اور معاشی بدحالی میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول
گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…
میثاقِ عدل کی واضح طور پر خلاف ورزی
سورت البقرہ کی گزشتہ آیت (84) میں بنی اسرائیل کے میثاقِ عدل کا تذکرہ تھا۔ اس معاہدے کی دو شِقیں تھیں: (1) وہ ایک دوسرے کا خون نہیں بہائیں گے۔ (2) وہ ایک دوسرے کو اپنے گھرو…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
فکری گمراہی کی و جہ سے عملی سیاست کا فساد
سورۃ البقرہ کی گزشتہ آیات (97 تا 99) میں واضح کیا گیا کہ ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے بنیادی حقائق میں سے ایک حضرت جبرائیل علیہ السلام کی تاریخی حقیقت کو ماننا ہے، جب کہ یہود…