امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
(4۔ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی عظمت اور سلطنت )
’’چوتھا ذکر ’’اللّٰہ أکبر‘‘ ہے۔ اس جملے میں اللہ کی عظمت اور اُس کی قدرت اور اُس کی بادشاہت اور سلطنت کو ملاحظہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ کلمہ اللہ کی معرفتِ ثبوتی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اسی لیے اس جملے کی فضیلت میں درجِ ذیل حدیث وارد ہوئی ہے کہ: ’’اللّٰہ أکبر‘‘ آسمان و زمین کے درمیان تمام چیزوں کو بھر دیتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 2322)
(ان چار کلمات کی فضیلت میں ارشاداتِ نبویؐ)
(1) ’’یہ چار کلمات تمام کلمات سے افضل ہیں: (۱) سبحان اللّٰہ، (۲) و الحمد للّٰہ، (۳) و لا الٰہ إلَّا اللّٰہ، اور (۴) اللّٰہ اکبر‘‘۔ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ، حدیث: 2294)
(2) اور ایک روایت میں ہے کہ: ’’اللہ تبارک و تعالیٰ کو یہ چاروں کلمات بہت محبوب ہیں۔ تمھیںان کے پڑھنے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ان میں سے جس کلمے کو چاہو پہلے پڑھ سکتے ہو‘‘۔ (حوالہ بالا)
(3) اور ایک روایت میں ہے کہ: ’’یہ چاروں کلمات جنت میں باغ لگانے کا باعث بنتے ہیں‘‘۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 2315)
(دوسری حدیث میں دیگر چار کلمات کی فضیلت کا سبب)
حضرت جویریہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے صبح نماز پڑھانے کے لیے تشریف لے جا رہے تھے کہ میں اپنے مصلّے پر بیٹھی تھی۔ پھر چاشت کے وقت حضوؐر واپس تشریف لائے تو میں اُسی طرح اپنے مصلّے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ تو رسول اللہؐ نے مجھ سے پوچھا کہ: ’’جس حالت میں مَیں تمھیں چھوڑ کر گیا تھا، تم اُس وقت سے اسی طرح بیٹھی ہوئی ہو؟‘‘ تو انھوںنے فرمایا کہ: ہاں! نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’میں نے اُس کے بعد چار کلمات تین مرتبہ پڑھے ہیں۔ اگر اُن کا وزن تمھارے اب تک پڑھے ہوئے کلمات کے ساتھ کیا جائے تو میرے پڑھے ہوئے یہ کلمات اُن سے زیادہ وزنی ہوں گے: ’’سُبحان اللّٰہ و بِحَمْدہٖ (۱) عَدَدَ خَلْقِہٖ، (۲) و رِضَائَ نَفْسِہٖ، (۳) و زِنَۃَ عَرشِہٖ، (۴) و مِدادَ کَلِمَاتِہ‘‘۔ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ، حدیث: 2301)
(ترجمہ: اللہ کی تسبیح و تحمید ہے (۱)اُس کی تمام مخلوق کی تعداد کے برابر، (۲)ذاتِ باری تعالیٰ کی اپنی رضا کے برابر، (۳)اُس کے عرش کے وزن کے برابر، (۴) اُس کی تعریف میں لکھے گئے کلمات کی روشنائی کے برابر۔)
اس حدیث کی حقیقت یہ ہے کہ کسی عمل کی شکل و صورت جب نامۂ اَعمال میں قرار پکڑ لیتی ہے تو اس کی جزا او رثواب کے موقع پر اُس صورت کا پھیلاؤ اور اُس کی وسعت اُس کلمے کے معنی کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ مثلاً اگر کلمہ ’’عَدَدَ خَلْقِہٖ‘‘ کے عمل کی صورت وجود میں آئی ہے تو اُس کی وسعت اس جملے کے معنی کی وسعت کے مطابق ہوگی۔
(ذکر اَذکار کرنے والوں کے لیے ایک اُصولی ضابطہ)
یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ جس آدمی کا زیادہ تر میلان ذکر اللہ کے معنی کے رنگ سے اپنے نفس کو رنگین کرنے کی طرف ہوتا ہے تو اُس کے حق میں یہ بات مناسب ہے کہ وہ ذکر اللہ کثرت سے کیا کرے۔ اور جس آدمی کا زیادہ تر میلان اپنے نامۂ اَعمال میں عمل کی صورت کو زیادہ محفوظ کرنے اور قیامت کے دن اُس کے نتائج کی طرف ہو تو اُس کے حق میں زیادہ نفع بخش بات یہ ہے کہ وہ ایسا ذکراختیار کرے جو کیفیت کے اعتبار سے باقی تمام ذکرو اذکار سے فائق اور بلند تر ہو۔
کسی آدمی کو یہ نہیںکہنا چاہیے کہ ’’جب ان کلمات کو صرف تین مرتبہ پڑھنا باقی تمام ذکر اذکار سے افضل ہے تو پھر ذکر کی کثرت کرنا اور سارے وقت کو اُس میں استعمال کرنا وقت کا ضائع کرنا ہے؟‘‘ اس لیے کہ بعض کلمات کی فضیلت ایک اعتبار سے ہے اور بعض دوسرے کلمات کی فضیلت دوسرے اعتبار سے ہوتی ہے۔
(امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یعنی اس اعتبار سے کہ کم الفاظ اور بغیر تکرار کے زیادہ ثواب حاصل ہو تو یہ (حدیثِ جویریہؓ والے) کلمات افضل ہیں۔ اور اس اعتبار سے کہ ذکر کے رنگ سے نفس کو رنگین کرنا ہے اور قلب کو اُس ذکر کے معنیٰ سے منور کرناہے تو پھر پہلے چار کلماتِ ذکر کی کثرت کرنا اور انھیں باربار دُہرانا اور اپنے زیادہ تر وقت کو اس میں خرچ کرنا زیادہ افضل ہے۔)
(مترجم کہتا ہے کہ: اسی لیے صوفیائے کرام اپنے مسترشدین کے نفوس کو ذکر اللہ سے رنگین کرنے اور قلوب کو ذکر اللہ سے منور کرنے کے لیے ذکر و اذکار کی کثرت اور اپنے زیادہ تر اوقات کو اس کے شَغَل میں مشغول رکھنے کا حکم دیتے ہیں۔)
نبی اکرم ﷺ نے اُم المؤمنین حضرت جویرؓیہ کو اعمال کے ثواب کے اعتبار سے رہنمائی کی ہے۔ اور اس سلسلے میں اُن کو ترغیب دی ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے ذکر کے حوالے سے جو یہ طریقۂ کار بیان فرمایا ہے کہ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ اور باقی دیگر کلمات کو ’’لا إلٰہ إلَّا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس کا راز یہ ہے کہ اس طرح انسانی نفس کو ذکر الٰہی کی طرف پوری توجہ حاصل رہتی ہے۔ ورنہ تو وہ صرف زبانی تلفظ اور لقلقہ رہ جاتا ہے۔(حضرت سندھیؒ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ’’اگر کوئی آدمی صرف ’لا إلٰہ إلَّا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرے اور اُسی کو دُہراتا رہے تو وہ اُس کی عادت بن جاتا ہے اور وہ بغیر کسی توجہ اور غور و فکر کے پڑھتا رہتا ہے، لیکن جب اُس کے ساتھ اپنی حالت کے تقاضوں کے مطابق باقی کلمات کبھی کبھی ساتھ شامل کرتا رہے تو یہ بات انسانی نفس کو متنبہ کرنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ اور انسان پورے طریقے سے ذکر ِالٰہی کے معنی میں خوب غور و فکر اور تدبر کرتا ہے‘‘۔) (باب الاذکارِ و ما یتعلّق بھا)
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
مختلف اوقات اور حالات کی دعائیں(4)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (نئے کپڑے پہننے کی دعائیں) جب نیا کپڑا پہنے تو یہ دعائیں پڑھے: (1) …
احسان و سلوک کی ضرورت اور اہمیت (1)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ شریعت نے انسان کو سب سے پہلے حلال و حرام کے حوالے س…
سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) تیسرا اصول ’’سماحتِ نف…
صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…