یہودی اہلِ علم کی پہلی خرابی؛ تحریف ِکلام اللہ

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جون 11, 2022 - دروس القرآن الحکیم
یہودی اہلِ علم کی پہلی خرابی؛ تحریف ِکلام اللہ

۞ أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا۟ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌۭ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَـٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُۥ مِنۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ٧٥

(اب کیا تم اے مسلمانو! توقع رکھتے ہو کہ وہ مانیں تمھاری بات، اور ان میں ایک فرقہ تھا کہ سنتا تھا اللہ کا کلام، پھر بدل ڈالتے تھے اس کو جان بوجھ کر، اور وہ جانتے تھے۔)

گزشتہ آیت میں یہودیوں کے دلوں کی سختی کا حال بیان کیا گیا تھا اور بتلایا تھا کہ وہ پتھر دل یا اُس سے بھی زیادہ سخت دل ہوچکے ہیں۔ اس سبب سے انھوں نے بہت سے غلط اعمال کیے۔ اُن کے خراب اعمال کی تفصیل آیت 75 تا 102 میں بیان کی گئی ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں اُن کی سب سے پہلی خرابی بیان کی جا رہی ہے کہ انھوں نے اللہ کے کلام اور کتاب کو سمجھنے کے باوجود اُس میں تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔

أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا۟ لَكُمْ : اس آیتِ مبارکہ میں سب سے پہلے مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ کیا تم یہ لالچ رکھتے ہو کہ یہ یہودی تمھارے دین پر ایمان لے آئیں گے اور مسلمان ہوجائیں گے؟ مدینہ منورہ میں صحابہؓ کی خواہش تھی کہ یہودی بھی اس دین کو قبول کرلیں۔ اس کے لیے انھیں دعوت دی جاتی تھی۔ اس پر اللہ پاک نے فرمایا کہ اس طرح کی طمع اور خواہش مت رکھو۔ اس لیے کہ ان کے دل اتنے سخت ہوچکے ہیں کہ یہ اللہ کے کلام میں تحریف کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ جو سمجھ بوجھ کے باوجود اللہ کے پاک کلام میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ تمھاری بات کیسے مانیں گے؟ اور تمھارے دینِ اسلام پر کیونکر ایمان لائیں گے؟

وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌۭ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَـٰمَ ٱللَّهِ : ان یہودیوں میں دو طرح کے لوگ ہیں: ایک وہ جو اللہ کے کلام تورات کے عالم اور اس کی سمجھ رکھنے والے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو اَن پڑھ اور اُمی ہیں۔ کتاب کا علم نہیں رکھتے۔ دلوں کی سختی کے سبب ان دونوں طبقوں کی حالت کی خرابی کی نوعیت مختلف ہے۔ پہلے اہلِ علم طبقے پر مشتمل فریق کی خرابی بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں اَن پڑھ لوگوں کی خرابی کا ذکر ہے۔

اللہ کے کلام کو سننے سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں، جنھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: ’’اے موسیٰ! اگر ہم اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے تو ہم وہ گفتگو سننا چاہتے ہیں، جب آپ اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام انھیں اپنے ساتھ طور پہاڑ پر لے گئے اور وہاں انھیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کاموں کا حکم دیا ہے اور اِن کاموں سے روکا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جانے والوں میں سے ایک فریق نے آکر بنی اسرائیل کے سامنے اُن باتوں میں تحریف کرکے بیان کیا۔ یا کلام اللہ کے سننے سے مراد تورات ہے، جو اللہ کا کلام ہے۔ اسے یہ لوگ سنتے ہیں اور اس میں تحریف کرتے ہیں۔

ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُۥ مِنۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ : یہودی اہلِ علم طبقے کی خرابی یہ ہے کہ تورات میں بیان کردہ اللہ کے کلام کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد اُس میں اپنی ذاتی خواہشات اور خود ساختہ نظریات کے مطابق لفظی اور معنوی تحریف کرتے ہیں۔

تحریف کی حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کے علما و اَحبار نے اپنی عقل اور اپنے حالات کے مطابق اپنی ترقیات کے لیے کچھ نظریات و اَفکار گھڑ لیے تھے۔ پھر وہ کوشش کرکے تورات کی آیات میں دور دراز کی تاویلات کرکے اپنے ان نظریات و اَفکار کو ثابت کرتے تھے۔ حال آں کہ وہ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کتاب اللہ کی آیات کا اصل مدلول اور مفہوم کیا ہے۔ اس کے باوجود اُس کے ترجمے اور مفہوم میں کچھ کلمات کا اضافہ کرکے تبدیلی پیدا کردیتے تھے اور اُسے عام لوگوں کے سامنے بیان کرتے تھے۔ اور انھیں یہ باور کراتے تھے کہ وہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں، وہ اللہ کی کتاب میں موجود ہے اور وہ کتاب اللہ پر صحیح عمل کرنے والے ہیں۔ عام طور پر اُن کی یہ عادت بن چکی تھی۔ تورات کے اصل نسخوں کو وہ عوام سے دور رکھتے تھے اور انھیں اپنے مراکز میں محفوظ اور مقفل رکھا جاتا تھا۔ اُن ترجموں کی اپنی خواہشات کے مطابق شروح اور حواشی لکھے جاتے۔ اس طرح دور دراز کے علاقوں میں اُن کی تحریف شدہ باتیں پھیل گئیں۔ پھر جب جالوت اور بُختِ نصر کے حملوں کے نتیجے میں ان کے مراکز تباہ و برباد ہوئے تو تورات کے اصل نسخے بھی اُس کی زد میں آئے۔ تو اب اُن کے لیے تورات کی اصل عبارت اور اُن میں اضافہ شدہ حواشی اور شروح میں فرق و امتیاز پیدا کرنا مشکل ہوگیا۔ ان کے دلوں کی سختی سے کلامِ الٰہی میں تحریفات کی یہ وبا اور خرابی ان کی عادت بن گئی۔

فائدہ: امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں کتابِ مقدس قرآن حکیم پر مشتمل اللہ کا کلام آج بھی مِن و عَن محفوظ ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ علمائے اسلام اور سلف صالحین نے اس بات کی قطعی اجازت نہیں دی کہ مصحفِ قرآنی میں کلماتِ قرآنی کے علاوہ ایک بھی زائد کلمہ تحریر کیا جائے۔ یہاں تک کہ سورتوں کے نام اور آیاتِ قرآنی پر لگی حرکات و سکنات، اعراب اور نقطوں میں بھی کوئی کمی بیشی کسی صورت گوارا نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ علمائے اسلام کو یہودیوں کی اُن تحریفات کا علم تھا کہ جو تورات کی اصل کتاب کے ساتھ زائد تشریحی جملوں اور اضافہ شدہ حواشی کے لکھنے سے پیدا ہوئی تھی۔ یوں اصل کلام اللہ محفوظ نہیں رہا۔ تورات محرف شدہ ہوگئی۔

قرآن حکیم کی حفاظت کا ایک اَور سبب یہ بھی ہے کہ یہ تسلسل اور تواتر کے ساتھ مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ رہا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی تمام مساجد میں تراویح کی سنت ادا کی جاتی ہے۔ یہ عمل مبارک اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرفاروقؓ کے قلب میں الہام کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں قرآن حکیم کے حفظ کا ذوق و شوق پیدا ہوا اور قرآن حکیم سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتا رہا۔ بعض لوگ تراویح کی سنت کو ’’بدعتِ عمریہ‘‘ کہہ کر رد کرتے ہیں، یہ لوگ وہ ہیں جن کے دلوں میں دراصل قرآن داخل نہیں ہوا اور وہ لوگ تراویح کی وجہ سے قرآن کی حفاظت کو صحیح طور پر نہیں سمجھ پائے۔

 

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام

وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 10, 2021

قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج

سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 16, 2023

تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی

گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نومبر 11, 2022

تعلیماتِ انبیاؑ قوموں کو زندہ اور عقل مند بنا دیتی ہیں

وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72) (اور جب مار ڈالا تھا…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اپریل 10, 2022