گزشتہ آیات (البقرہ: 104 تا 107) میں یہ واضح کیا گیا کہ بنی اسرائیل کے یہودی اس حد تک انحطاط، ذلت اور غضبِ الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کا تحریف شدہ دین منسوخ کیا جانا ضروری ہے۔ زمانہ بدلنے اور رسول ﷺ کی آمد پر نئے دین اور نظم و ضبط پر مبنی نئے نظام کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو یہودیوں کے عادات و اطوار سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کی طرف جھکاؤ اور میلان اختیار کرنا درست نہیں ہے۔
ان آیات (البقرہ: 108-109) میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ دشمن کے منفی رویوں خاص طور پر یہودیوں کی غلط عادات کو سمجھیں۔ وہ اُن کی غلط عادات اور رویے اختیار کرکے ایمان کے بجائے کفر کا راستہ مت اختیار کریں۔ اس لیے کہ وہ تمھارے ساتھ بڑا حسد رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دینِ حق کو چھوڑ کر تم مرتد ہوجاؤ۔
﴿أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ﴾ (کیا تم مسلمان بھی چاہتے ہو کہ سوال کرو اپنے رسول سے جیسے سوال ہوچکے ہیں موسیٰ سے اس سے پہلے) : مدینہ میں آپؐ کی آمد سے پہلے اَوس اور خزرج کے لوگ یہودِ مدینہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ آپؐ کی آمد کے بعد یہودی انھیں دینِ اسلام سے روکنے کے لیے طرح طرح کے شبہات اور سوالات سجھاتے تھے۔ مسلمانوں کے دل میں یہ سوال بھی ڈالا گیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہمیں حکومت اور خلافت کی صورت میں نصرتِ الٰہی کب تک ملے گی، تاکہ ہمیں اطمینان ہوجائے۔ اسی طرح کے مختلف شکوک و شبہات اور سوالات پیدا کیے جاتے تھے۔
اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ تمھارا اپنے رسول ﷺ سے ایسے سوالات کرنا بالکل اُسی طرح ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان یہودیوں نے شکوک و شبہات پیدا کرنے والے سوالات کیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’سورت النساء‘‘ میں فرمایا: ’’تجھ سے اہلِ کتاب سوال کرتے ہیں کہ تُو اُن پر اُتار لاوے لکھی ہوئی کتاب آسمان سے، سو مانگ چکے ہیں موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز، اور کہا: ہم کو دکھلادے اللہ کو بالکل سامنے‘‘۔ (-4 النساء: 153) زیرِنظر آیت میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جس طرح یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اُلٹے سیدھے سوالات اور شکوک و شبہات کرکے کفر کا راستہ اختیار کرچکے ہیں، کیا تم بھی ایسا ہی کفر کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہو؟ یاد رکھو:
﴿وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴾ (اور جو کوئی کفر لیوے بدلے ایمان کے تو وہ بہکا سیدھی راہ سے): کسی سوال کے جواب کو پورے عقل و شعور کے ساتھ نہ سمجھنا اور اپنے شک اور شبہ پر اصرار کرنا دراصل کفر کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ یہودیوں نے یہی طرزِ عمل اختیار کیا۔ مسلمانوں کو اس سے روکا جا رہا ہے۔ چناں چہ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ فرماتے ہیں: ’’یہودیوں کی باتوں پر ہرگز اعتماد نہ کرنا۔ جس کسی کو یہودیوں کے شبہ ڈالنے سے شبہ پڑگیا‘ وہ کافر ہوا۔ اس کی احتیاط رکھو اور یہود کے کہنے سے تم اپنے نبی کے پاس شبہ نہ لاؤ، جیسے وہ اپنے نبی کے پاس لاتے تھے‘‘۔اور ایمان کے بدلے میں کفر اختیار کرنا بہت بڑی گمراہی کا راستہ ہے۔
﴿وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا ﴾ (دل چاہتا ہے بہت سے اہلِ کتاب کا، کہ کسی طرح تم کو پھیر کر مسلمان ہوئے پیچھے کافر بنادیں): دراصل ایسے سوالات اور شکوک و شبہات پیدا کرکے یہودیوں کی یہ بڑی آرزو اور تمنا ہے کہ کسی طرح مدینہ میں ایمان لانے والے لوگ اپنا دین چھوڑ کر مرتد ہوجائیں اور آپؐ کی مدینہ منورہ آمد سے پہلے جس طرح یہودیوں کی علمی اجارہ داری قائم تھی، اور مسخ شدہ یہودی تعلیمات کے ذریعے سے وہ مفادات اُٹھا رہے تھے، اسی طرح بدستور مدینہ کے لوگوں کو اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کرتے رہیں۔
﴿حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ﴾ (بہ سبب اپنے دلی حسد کے، بعد اس کے کہ ظاہر ہوچکا ان پر حق): اصل بات یہ ہے کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بڑا حسد اور بغض ہے، حال آں کہ ان پر دینِ حق بالکل ظاہر ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود یہ اپنی بداَخلاقی اور انسان دشمنی سے باز نہیں آتے اور مدینہ منورہ میں رہنے والے لوگوں کی ترقی سے دلوں میں حسد، کینہ اور نفرت کے جذبات رکھتے ہیں۔
﴿فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ (سو تم درگزر کرو اور خیال میں نہ لاؤ، جب تک بھیجے اللہ اپنا حکم، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے): جب مسلمانوں نے یہودیوں کی ان قبیح عادات اور اطوار اور منفی رویوں کو اچھی طرح سمجھ لیا، خاص طور پر اُن کے حسد، کینہ اور بغض سے واقفیت ہوگئی تو مسلمانوں کا ارادہ اُن سے لڑائی لڑنے اور جھگڑا کرنے کا ہوا، اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دُنیاوی مصلحت اور تنظیمی حکمتِ عملی کے طور پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ یہودیوں کی ان حرکتوں کو نظرانداز کرو، اُن کے منفی رویوں کا خیال دل میں لا کر پریشان مت ہو۔ فی الحال درگزر کرو، یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ان سے لڑائی کا واضح حکم آجائے۔ ایک وقت آئے گا، جب ان کی طرف سے کھلے طور پر میثاقِ مدینہ کی خلاف ورزی اور اپنے حلف سے غداری کے نتیجے میں جھگڑے اور لڑائی کی نوبت آئے گی، اُس وقت ان سے جہاد کرنا ضروری قرار پائے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
ان آیات میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ انسانیت دشمن قوموں اور غضبِ الٰہی کے مستحق مذاہب کی منفی عادات و اطور اور رویوں سے علمی اور فکری طور پر شعوری آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔ اُن کے جاہلانہ سوالات سے اپنے دین کے نظام پر شکوک و شبہات نہیں پیدا کرنے چاہئیں۔ پورے فہم اور شعور کے ساتھ اپنے انسانیت دوست دینی نظام کی سمجھ اور اس پر اعتماد ہونا ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط اور ڈسپلن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ دشمن کے رویوں کو سمجھنے کے بعد جذباتی طور پر لڑائی جھگڑے پیدا کرنا اور نظم و ضبط کے بغیر نجی جنگ جوئی اختیار کرنا درست نہیں، بلکہ اپنے داخلی نظم و نسق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس کی وضاحت اگلی آیات میں ہے۔
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت
۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال
(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …