علما اور اہلِ دانش کی علمی خیانت؛ زوال کا بڑا سبب

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
ستمبر 11, 2022 - دروس القرآن الحکیم
علما اور اہلِ دانش کی علمی خیانت؛ زوال کا بڑا سبب

فَوَيلٌ لِلَّذينَ يَكتُبونَ الكِتابَ بِأَيديهِم ثُمَّ يَقولونَ هٰذا مِن عِندِ اللَّهِ لِيَشتَروا بِهِ ثَمَنًا قَليلًا ۖ فَوَيلٌ لَهُم مِمّا كَتَبَت أَيديهِم وَوَيلٌ لَهُم مِمّا يَكسِبونَ  (-2البقرہ: 79)

(سو خرابی ہے اُن کو جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے، پھر کہہ دیتے ہیں: یہ خدا کی طرف سے ہے، تاکہ لیویں اس پر تھوڑا سا مول۔ سو خرابی ہے اُن کو اپنے ہاتھوں کے لکھے سے۔ اور خرابی ہے اُن کو اپنی اس کمائی سے۔)

گزشتہ آیت میں یہودیوں کے زمانے کے زوال پذیر معاشرے کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ واضح کیا گیا تھا کہ اُن کے جاہل عوام جھوٹی تمناؤں، آرزوؤں اور وہم و گمانات کے اُلجھاؤ میں مبتلا تھے۔ اس آیت ِمبارکہ میں یہودیوں کے مفاد پرست علما اور اہلِ دانش کی علمی خیانت اور بددیانتی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے اُن کے اَحبار و رُہبان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

فَوَيلٌ لِلَّذينَ يَكتُبونَ الكِتابَ بِأَيديهِم ثُمَّ يَقولونَ هٰذا مِن عِندِ اللَّهِ:انسانی معاشرے کی ترقی کا صحیح اور جامع ترین قانون وہ ہوتا ہے، جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے متعین کیا ہو اور اُسے اپنے سچے پیغمبر کے ذریعے سے کتاب کی صورت میں انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کیا ہو۔ خالقِ کائنات کے بنائے ہوئے قانون کا تعلق کل انسانیت کی فلاح و بہبود سے ہوتا ہے۔ وہ محض کسی خاص نسل اور قوم کی بالادستی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ اُس سے مجموعی طور پر انسانیت کی اجتماعی ترقی مطلوب ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی پہلی ’’کتاب‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ’’تورات‘‘ کی صورت میں بنی اسرائیل کے لیے نازل ہوئی تھی۔ یہ کتاب اپنے زمانے کا جامع ترین قانون، دستور اور ضابطہ حیات تھی۔ یہ ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے بنیادی اُصول اور ضابطوں کا جامع قانونی نظام تھا۔ بنی اسرائیل کے لیے اس کی پابندی لازمی اور ضروری تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد مسخ شدہ یہودیت کے زوال پذیر علما نے اس کتاب میں لفظی اور معنوی تحریفات کیں۔ چناںچہ  اپنے مالی مفادات اور حکومتی عہدوں کے حصول کے لیے یہودیوں کے علما اور حکمران اپنی طرف سے کوئی قانون لکھتے تھے اور عام عوام کے سامنے کہتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اس طرح وہ اللہ کے حلال کو حرام اور اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حلال بنا دیتے تھے۔

لِيَشتَروا بِهِ ثَمَنًا قَليلًا ۖ  : تاکہ اس ذریعے سے دُنیاوی مال و مفاد اور عہدہ اور مناصب حاصل کریں۔ تورات کی تشریح کے طور پر خودساختہ قوانین اور ضابطے بناتے اور پھر انھیں تورات میں شامل کرکے الٰہی حکم کے طور پر تحریف کے مرتکب ہوتے تھے، جب کہ جھوٹی آرزوؤں اور تمناؤں میں مبتلا عوام ان علما اور رُہبان کو ’’اَرباباً مِن دُون اللّٰہ‘‘ ( اللہ کو چھوڑ کر انھیں ربّ اور خدا) کی حیثیت دیے ہوئے تھے۔

ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے اس آیت کی تشریح فرمائی ہے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ جب وہ مسلمان ہونے کے لیے نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُن کے گلے میں سونے کی صلیب لٹکی ہوئی تھی۔ آپؐنے انھیں کہا کہ اس بت کو گلے سے اُتار پھینکو۔ پھر آپؐ نے یہ آیت مبارکہ تلاو ت کی: ’’انھوں نے اپنے علما اور راہبوں کو اللہ کو چھوڑ کر خدا بنا لیا تھا‘‘۔ (-9 التوبہ: 31) اس پر حضرت عدی بن حاتمؓ نے عرض کیا کہ: عیسائی لوگ اپنے علما کی عبادت تو نہیں کرتے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’ہاں! جب وہ اُن کے لیے حلال کو حرام بنا دیتے ہیں اور حرام کو حلال کردیتے ہیں تو لوگ اُن کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی اُن کی عبادت کرنا ہے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر)

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’حلال و حرام کا فیصلہ عالم ملکوت میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں، جب کہ انبیا علیہم السلام اُس کو دنیا میں نافذ العمل کرتے ہیں۔ قانون سازی صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کا حق ہے۔ اس میں کسی اَور کو شریک کرنا شرک اور کفر ہے‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغہ، باب حقیقۃ الشرک ملخصا)

اس تناظر میں اللہ پاک نے ان لوگوں پر ہلاکت اور تباہی کا اعلان کیا ہے کہ جو خودساختہ خدائی اختیارات کے مالک بن کر انسانی معاشروں کے لیے ایسے قوانین اور ضابطے بناتے ہیں، جس سے اُن کا مقصد انسانی فلاح و بہبود نہیں ہوتا، بلکہ مال و دولت کمانا اور جاہ پرستی اور عہدے اور مناصب حاصل کرنا ہوتا ہے۔

فَوَيلٌ لَهُم مِمّا كَتَبَت أَيديهِم: اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے اہلِ علم و دانش کی مفاد پرستی پر مبنی کتاب اللہ کی خودساختہ تشریح کرنے پر دوبارہ ہلاکت اور تباہی کا اظہار فرمایا ہے کہ وہ جو قانون سازی کر رہے ہیں، وہ انتہائی تباہ کُن ہے۔ ایسے قوانین اور ضابطے معاشروں کے زوال اور خرابی اور ہلاکت خیزی کا سبب ہوتے ہیں۔

وَوَيلٌ لَهُم مِمّا يَكسِبونَ  : تیسری دفعہ ’’ویل‘‘ (تباہی) کا لفظ استعمال فرما تے ہوئے یہ بھی واضح کردیا کہ مخصوص طبقے کے مفادات کے لیے کی گئی قانون سازی سے انھوں نے جو مالی فوائد اور عہدے حاصل کیے، وہ بھی تباہ و برباد ہونے والے ہیں۔

کسی معاشرے کی ترقی میں اہلِ علم و دانش کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف معاشرے کو ترقی دینے کے لیے واضح راستہ متعین کرتے ہیں، بلکہ عوام کی صحیح خطوط پر رہنمائی کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ کا قول ہے کہ: ’’صِنفان إذا صَلُحَا صَلُحَ النّاسُ، و إذا فَسَدَا فَسَدَ النّاسُ: الأُمَرَائُ و الفُقھاء‘‘۔ (عقد الفرید لابن عبد ربہ) (دو جماعتیں ایسی ہیں کہ جب وہ صحیح ہوں تو لوگ بھی درست ہوجاتے ہیں اور جب وہ خراب ہوجائیں تو لوگوں میں بھی خرابی آجاتی ہے: (1)حکمران (2) اور اہلِ علم و دانش)۔ اس لیے اہلِ علم و دانش کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ ذاتی اور طبقاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اللہ کے احکامات ایسے بیان کریں، جو انسانیت کی تباہی و بربادی کے بجائے انسانیت کی فلاح و بہبود اور ترقی کا باعث ہو۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت

۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2021

دشمن کے منفی رویوں کو سمجھنا اور نظم و نسق کی پابندی

گزشتہ آیات (البقرہ: 104 تا 107) میں یہ واضح کیا گیا کہ بنی اسرائیل کے یہودی اس حد تک انحطاط، ذلت اور غضبِ الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کا تحریف شدہ دین منسوخ کیا…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 13, 2024

تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی

گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نومبر 11, 2022

جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال

(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اگست 25, 2022