

پاکستان کی سر زمین اس برس پھر پانی کے بے قابو سیلابی ریلوں کی زد میں ہے۔ دریاؤں کے کنارے لرز رہے ہیں، کھیت کھلیان غرقاب ہوچکے ہیں، بستیاں اُجڑ گئی ہیں اور ہزاروں گھرانے فاقہ و دربدری کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ یہ منظر محض ایک قدرتی حادثے کا نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی زندگی کے آئینے میں جھانکنے کا موقع ہے کہ یہ پانی کا طوفان ہے یا ہماری بے تدبیری اور بے حسی کا حساب؟جب آسمان پر بادل اُترتے ہیں تو بارش کی بوندیں زمین کے لیے زندگی کا پیغام بنتی ہیں۔ یہی پانی کھیتوں میں ہریالی اُگاتا ہے، دریاؤں کو گنگناتا ہے اور پیاسی دھرتی کو سیراب کرتا ہے، مگر جب یہی پانی انسانی بداِنتظامی کا شکار ہوجاتا ہے تو قہرِ الٰہی کا روپ دھار لیتا ہے۔ پاکستان کی حالیہ سیلابی صورتِ حال اسی المیے کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ بارشوں کا ہونا یا دریاؤں کا طغیانی اختیار کرنا کوئی غیرمتوقع واقعہ نہیں۔ صدیوں سے یہ خطہ پانیوں کے اُتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کرتا آیا ہے۔ اس سر زمین کے سینے پر بہنے والے دریاؤں سے ہماری تہذیب پھوٹتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے اس وِرثے کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کیا ہم نے پانی کو دوست بنانے کی بجائے دشمن بنانے کا سامان خود نہیں کیا؟
دریاؤں کے بہاؤ کو روکا اور ان کے درمیان بستیاں بساکر ہم نے خود کو موت کے دہانے پر کیوں کھڑا کیا؟ چراگاہوں اور ندی نالوں کے قدرتی راستوں پر قبضے کیوں کیے؟ برساتی پانی کے بہاؤ کو روکنے کے لیے ہم نے کنکریٹ کے جنگل تو اُگا دیے، مگر نکاسی کے راستے نہ چھوڑے۔ پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ بارش چند دن زیادہ برس جائے تو شہر جھیل بن جاتے ہیں۔ گویا ہم نے اپنی آنکھوں سے اپنی بربادی کا منظر خود تراشا اور پھر آسمان کو الزام دیا۔سرحدی صوبے کے پہاڑی علاقوں میں بارشوں اور سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی ہے وہ تو اپنی جگہ، اب تو یہ المیہ محض دیہی اور پہاڑی علاقوں تک محدود نہیں رہا۔ ہمارے بڑے بڑے شہر بھی پانی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ کراچی سے لے کر لاہور اور سیالکوٹ تک کی گلیوں میں پانی کا سمندر اُبل پڑاہے۔ شہری زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں بجلی کے تار‘ موت کے پھندے بن جاتے ہیں۔ ہسپتالوں تک رسائی رُک جاتی ہے۔ ایک دن کی بارش‘ شہری منصوبہ بندی کی قلعی کھول دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اربوں کھربوں کے ترقیاتی منصوبوں کے باوجود ہمارا نظام چند دنوں کی بارش کے آگے کیوں کھڑا نہیں ہو پاتا؟
یہ صورتِ حال ہمیں دو سطحوں پر سوچنے پر مجبور کرتی ہے: ایک: ہماری ریاستی پالیسی اور عملی تدبیر کی سطح؛ اور دوسرے: ہماری اجتماعی سماجی و اَخلاقی روِش کی سطح۔
ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو ہر سال سیلاب آتا ہے، ہرسال لاکھوں لوگ متأثر ہوتے ہیں، مگر ہر سال ہم وہی پرانی فہرست سناتے ہیں: امدادی کیمپ، راشن کی تقسیم، چند دن کے لیے ہمدردی کے بیانات اور پھر خاموشی۔ کیوں ہم نے کبھی سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے پائیدار منصوبے نہیں بنائے؟ ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر کے بجائے ہم نے محض سیاسی نعروں میں وقت ضائع کیا۔ اس کے نتیجے میں آج ایک طرف کھیت پانی میں ڈوب رہے ہیں اور دوسری طرف تھر اور چولستان پیاس سے تڑپ رہے ہیں۔ گویا ایک ہی ملک میں ایک جگہ پانی کی کثرت اور دوسری جگہ پانی کی کمی عذاب بنی ہوئی ہے۔
مگر اس المیے کا دوسرا پہلو کہیں زیادہ خوف ناک ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے بالادست طبقے کی اجتماعی غفلت، بے حسی اور خود غرضی کا پہلو ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملکی ماحولیات کا توازن بگڑ چکا ہے، بے تحاشا درخت کٹ رہے ہیں، پہاڑوں کے پتھر توڑ کر زمین کا سینہ کنکریٹ سے پٹ چکا ہے اور فضا میں ماحولیاتی آلودگی کے بادل تیر رہے ہیں، لیکن ایک مخصوص طبقہ اپنے مفادات کی خاطر قدرت سے برسرِ پیکار ہے۔ پھر ہم قدرت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بارش کی بوندوں کو ہمیشہ رحمت بنائے رکھے؟
اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخر ہم کب تک خود برپا کیے ہوئے حادثات کو تقدیر کہہ کر ٹالتے رہیں گے؟ کب تک سیاست دان سیلاب کو اپنی مقبولیت کا ذریعہ بناتے رہیں گے؟ کب تک میڈیا محض متأثرین کی تصویریں دکھا کر اپنی ریٹنگ بڑھاتا رہے گا؟ کب تک ہم‘ شہری اور دیہی عوام اپنے روزمرہ مفادات میں اُلجھ کر اجتماعی سوچ کو بھلا بیٹھیں گے؟ اگر ہم نے اپنی سوچ نہ بدلی تو پانی کا ہر اَگلا ریلا پہلے سے زیادہ ہول ناک ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پانی کو دشمن کے بجائے دوست بنائیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم بڑے ڈیموں اور چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر کریں، برساتی نالوں کو کھلا رکھیں، جنگلات کو دوبارہ اُگائیں، شہروں کی منصوبہ بندی کو انفرادی مفادات کے لیے بنائی گئی سوسائٹیوں کا کاروبار نہ بنائیں، بلکہ اپنے رہائشی منصوبوں کو سائنٹفک بنیادوں پر استوار کریں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم امدادی سیاست سے آگے بڑھ کر مستقل نظام کی پائیدار منصوبہ بندی کریں۔ ہر سال کی ہنگامی مہمات ہماری اصل ناکامی پر پردہ ڈالنے کا محض ایک حربہ ہیں، مستقل حل نہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ محض ڈیم اور سڑکیں مسئلے کا حل نہیں۔ اصل تبدیلی ہمارے نظام میں درکار ہے۔ ہمیں اجتماعی ذمہ داری کا شعور پیدا کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ قدرت کے عطا کردہ وسائل کے ساتھ اوچھے انداز میں کھیلنے کا نتیجہ ہمیشہ عبرت ناک ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے آج اپنے انفرادی مفادات کی قربانی دینا ہوگی۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
سیلاب کی حالیہ تباہ کاریاں ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ اب عارضی منصوبہ بندی کا وقت نہیں، بلکہ اس پورے ملکی نظام کو زیرِ بحث لانے کا وقت ہے۔ یہ سیلاب دراصل ہمارے اجتماعی اور قومی شعور کا امتحان ہے۔ یہ ہمیں پکار رہا ہے: اے اس ملک کے باسی! تُو نے اپنی زمین کو لوٹا، اپنے درختوں کو کاٹا، اپنے دریاؤں کو تنگ کیا، اب کیا تُو اپنی روِش بدلے گا؟ یا یوں ہی بربادی کے مناظر رقم کرتا رہے گا؟کوئی قوم اگر چاہے تو پانی کے اس چیلنج کو بھی اپنے لیے رحمت میں بدل سکتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ خوابوں سے نکل کر حقیقت کی زمین پر منصوبہ بندی کرے۔ ہم اجتماعی شعور کو جگائیں۔ ہم قدرت سے ہم آہنگ ہوں۔ پھر یہ پانی قہر نہیں، زندگی کی نئی سبز کہانی بن سکتا ہے۔(مدیر)

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
پاکستان کی داغ داغ سیاست
77 سال قبل جب پاکستان کی ریاست وجود میں آئی تو تقسیم کی لکیر کے اس پار سے جوق در جوق لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے یہاں پہنچے، لیکن گزشتہ ستتر سالہ حوادث و واقعات نے …
معاشی پھیلاؤ کا بجٹ
آمدہ سال حکومت 131 کھرب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے خود حکومتی اندازے کے مطابق قریباً 79 کھرب روپے وصول کیے جاسکیں گے۔ باقی رقم اندرونی اور بیرونی قرض…
خانہ پُری بجٹ
حکومت آمدہ سال 136 کھرب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے خود حکومتی اندازے کے مطابق تقریباً 90 کھرب روپے وصول کیے جاسکیں گے اور باقی رقم اندرونی اور بیرونی…
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…