یہودی علما کی دوسری خرابی؛ عوام سے علم چھپانا

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جولائی 21, 2022 - دروس القرآن الحکیم
یہودی علما کی دوسری خرابی؛ عوام سے علم چھپانا

درسِ قرآن                                                                   تفسیر: شیخ التفسیر مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

 

یہودی علما کی دوسری خرابی؛ عوام سے علم چھپانا

ﵟوَإِذَا لَقُواْ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قَالُوٓاْ ءَامَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعۡضُهُمۡ إِلَىٰ بَعۡضٖ قَالُوٓاْ أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ ٱللَّهُ عَلَيۡكُمۡ لِيُحَآجُّوكُم بِهِۦ عِندَ رَبِّكُمۡۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ، أَوَلَا يَعۡلَمُونَ أَنَّ ٱللَّهَ يَعۡلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعۡلِنُونَﵞ 

    (-2 البقرہ: 76-77)

(اور جب ملتے ہیں مسلمانوں سے، کہتے ہیں: ’ہم مسلمان ہوئے‘، اور جب تنہا ہوتے ہیں ایک دوسرے کے پاس تو کہتے ہیں: ’تم کیوں کہہ دیتے ہو اُن سے جو ظاہر کیا ہے اللہ نے تم پر، تاکہ جھٹلائیں تم کو اس سے تمھارے ربّ کے آگے، کیا تم نہیں سمجھتے؟‘ کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔)

گزشتہ آیات میں واضح کیا گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی اللہ تعالیٰ کی کتاب تورات کے اعلیٰ علم کے انکار کے سبب یہودیوں کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوچکے تھے۔ اس کے نتیجے میں اُن کے اہلِ علم میں کئی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ گزشتہ آیت میں اُن کی پہلی خرابی اللہ کی کتاب میں تحریف کرنے کی صورت میں بیان کی گئی۔ اس آیت میں اُن کی دوسری خرابی‘ انسانیت کے نفع کا علم چھپانے سے متعلق ہے۔

ﵟوَإِذَا لَقُواْ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قَالُوٓاْ ءَامَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعۡضُهُمۡ إِلَىٰ بَعۡضٖﵞ   مدینہ منورہ میں یہودیوں کی بستیاں تھیں۔ وہاں سے یہ لوگ صبح کو مدینہ شہر میں آتے تھے۔ حضور ﷺ کی مجلس میں منافقت سے شریک ہوتے اور بہ ظاہر ایمان کا دعویٰ بھی کرتے تھے۔ اس موقع پر خوشامد کے طور پر اپنی کتابوں میں موجود رسول اللہؐ کی آمد کی نشانیاں اور علامات بیان کردیا کرتے تھے۔ شام کو جب اپنی بستیوں میں واپس جاتے تو اُن کے علما انھیں اس بات سے باز رکھنے اور علم چھپانے کا حکم دیتے تھے، تاکہ مسلمان اُن کے خلاف دلیل اور حجت قائم نہ کریں۔ اسی پسِ منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

ﵟقَالُوٓاْ أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ ٱللَّهُ عَلَيۡكُمۡ ﵞ یہودی علما حضور ﷺ کی مجلس میں شریک ہونے والے یہودیوں سے کہتے کہ کیا تم مسلمانوں کے سامنے وہ علم کھول کر بیان کردیتے ہو، جو خاص علم اللہ تعالیٰ نے تم پر کھولا تھا؟ اس سوال کے ضمن میں وہ انھیں روکتے تھے کہ اپنا مخصوص علم کسی کو نہیں دینا چاہیے۔ اس طرح اپنی علمی اجارہ داری قائم کرنے کی روِش اختیار کرنے کا انھیں حکم دیا جاتا تھا۔ نیز اس لیے بھی روکتے تھے، تاکہ مسلمان تم پر حجت قائم نہ کرسکیں۔

ﵟلِيُحَآجُّوكُم بِهِۦ عِندَ رَبِّكُمۡۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَﵞ : چوں کہ خود یہودی تورات کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے تھے، اُس میں لکھا ہوا تھا کہ آخری نبی ﷺ کی یہ علامات ہیں اور جب وہ دنیا میں تشریف لائیں تو تم اُن پر ایمان لانا اور اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا۔ اس لیے یہودی علما کا خیال تھا کہ ہمارے رسول اللہؐ پر ایمان نہ لانے کے خلاف  بہ طورِ حجت کے ہماری ہی کتاب پیش کی جائے گی اور مسلمان ربّ تبارک و تعالیٰ کے سامنے یہ دلیل پکڑیں گے کہ یہودی اپنی کتاب میں حکم کے باوجود ایمان نہیں لائے۔ یہودی علما اتنے مسخ ہوچکے تھے کہ علمِ الٰہی کو چھپانے کو عقل مندی سے تعبیر کرتے اور اپنے عام لوگوں کو عقل کے نام پر بے عقلی کی دعوت دیتے تھے۔

ﵟأَوَلَا يَعۡلَمُونَ أَنَّ ٱللَّهَ يَعۡلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعۡلِنُونَﵞ : اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی اس بد رَوِش اور خرابی کو بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ اگر یہ لوگ علمِ الٰہی کو چھپائیں گے تو کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہر خفیہ اور اعلانیہ باتوں کو خوب جانتا ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ تورات میں بیان کردہ ان علوم اور حقائق کو اپنے نبی ﷺ کے سامنے بیان کردے گا۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’یعنی اللہ کو تو ان کے سب امور _ ظاہر ہوں یا مخفی _بالکل معلوم ہیں۔ ان کی کتاب کی سب حجتوں کی خبر مسلمانوں کو دے سکتا ہے۔ اور جا بہ جا مطلع فرما بھی دیا۔ آیتِ رجم کو انھوں نے چھپایا، مگر اللہ نے (اُسے) ظاہر فرما کر ان کو فضیحت (رُسوا) کیا۔ یہ تو ان کے علما کا حال ہوا، جو عقل مندی اور کتاب دانی کے مدعی تھے‘‘۔

حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’یہودی علما کتاب اللہ کی آیات کو چھپاتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض شرعی احکام اور آیات کو یہودی علما اس لیے چھپاتے تھے کہ اُس سے اُن کے جاہ و مرتبت اور اُن کی ریاست اور حکومت میں کمی آئے گی اور لوگوں کی ان سے عقیدت کمزور پڑ جائے گی۔ لوگ انھیں کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے مجبور کرنے لگیں گے، جس سے ان کی ذلت اور رُسوائی ہوگی۔  چناں چہ وہ ہر عام و خاص کے لیے دین کی تعلیمات کو ظاہر کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے‘‘۔

شاہ صاحبؒ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے یہی آیت تحریر فرماتے ہیں اور پھر یہودی علما کی اس حرکت کو واضح کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ: ’’خلاصہ یہ کہ اگر یہودی علما کا تم نمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے زمانے کے علمائے سُو کو دیکھ لو، جو دُنیا کے طلب گار ہیں اور انھوں نے اندھی تقلید کا راستہ اختیار کیا ہے اور کتاب و سنت کے احکامات اور نصوص کی تشریح میں انتہا پسندی اور تشدد سے حیلہ سازی کو فروغ دیا ہے۔ ’’تماشا کُن کأنّھُم ہُم‘‘ (تم یہ تماشا دیکھو! گویا کہ یہ وہی یہودی علما ہی ہیں)‘‘۔ (الفوز الکبیر)

علم کا بنیادی مقصدانسانیت کے فائدے اور نفع کے لیے بہتر نظام بنانا ہوتا ہے۔ خاص طور پر علمِ الٰہی‘ جو انبیا علیہم السلام پر اس لیے نازل ہوتا ہے، تاکہ انسانیت عدل و انصاف پر قائم ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’لیقوم الناس بالقسط‘‘ (-57 الحدید:25) ایسے علم کو چھپانا انسانیت کی ترقی کے راستے میں رُکاوٹ کھڑا کرنا ہے۔ اس لیے احادیثِ نبویہؐ میں کتمانِ علم پر بڑی سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ علم چھپانا بہت بڑا جرم ہے۔ یہ انسانیت کی ترقی میں مجرمانہ کردار کا حامل ہے۔ اس لیے قرآن حکیم نے بڑی تفصیل کے ساتھ ان آیات میں علم اور عقل کے نام پر وجود میں آنے والی جاہلیت کا پردہ چاک کیا ہے۔ علم کے فروغ اور پھیلاؤ کے ذریعے عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال

(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اگست 25, 2022

بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام

وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 10, 2021

تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی

گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نومبر 11, 2022

عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت

۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2021