فرقہ وارانہ اختلاف کی نوعیت اور اس کا صحیح فیصلہ

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جون 07, 2024 - دروس القرآن الحکیم
فرقہ وارانہ اختلاف کی نوعیت اور اس کا صحیح فیصلہ

گزشتہ آیات (-2 البقرہ: 111-112) میں بتلایا گیا تھا کہ خواہشات پر مبنی بلادلیل یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح دعوے کرنا‘ درست نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو آدمی بھی صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا اور ابراہیمی حنیفی اُصول پر اللہ کی طرف صفتِ احسان کے ساتھ متوجہ ہوا، وہ کامیاب ہے اور اُسی کے لیے اجرِ عظیم ہے۔

اس آیت (-2 البقرہ: 113) میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ اور صابئین و مشرکین کی طرح فرقہ وارانہ گروہیت میں مبتلا نہ ہوں، بلکہ ابراہیمی تحریک کے سیدھے اور سچے راستے پر عمل کریں اور اُصولِ حنیفیت پر ہی اپنی اجتماعی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسی کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔

﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ ﴾  (اور یہود تو کہتے ہیں کہ: نصاریٰ نہیں کسی راہ پر): یہودی‘ عیسائیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ کسی مضبوط نظریے اور سیدھے راستے پر نہیں ہیں۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ فرماتے ہیں: ’’یہودیوں نے تورات پڑھ کر سمجھ لیا کہ جب نصرانیوں نے حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا کہا، تو بے شک وہ کافر ہوگئے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ تورات کا پہلا باب ’’باب التّکوین‘‘ صحیفۂ اِبراہیم پر مشتمل ہے۔ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کی اتباع کا حکم دیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ابراہیمی دین کی اتباع کرنے والے کو ہی صرف نجات حاصل ہوگی، خواہ وہ کوئی ہو۔ اس طرح یہودیوں نے تورات کے اس باب کی تلاوت کرکے نصرانیوں کے بارے میں معلوم کرلیا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ اس طرح وہ ابراہیمی تحریک کے دائرے سے خارج ہوگئے ہیں۔

﴿وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ﴾  (اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ: یہود نہیں کسی راہ پر، باوجود یہ کہ وہ سب پڑھتے ہیں کتاب): ابراہیمی تحریک کی ایک اہم کتاب اِنجیل کے مطالعے سے عیسائیوں نے بھی سمجھ لیا کہ یہودی اصل ابراہیمی راستے پر نہیں ہیں۔ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں: ’’اور نصرانیوں نے انجیل میں صاف دیکھ لیا کہ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرکے کافر ہوگئے‘‘۔ یہاں ’’الکتاب‘‘ سے مراد وہ مجموعہ ہے، جس میں ’’عہدِ قدیم‘‘ (تورات) اور ’’عہدِ جدید‘‘ (انجیل) دونوں شامل ہیں۔ ان ہر دو فرقوں نے ’’الکتاب‘‘ کی تلاوت سے معلوم کرلیا کہ دوسرا فرقہ ابراہیمی تحریک کے اصل راستے پر نہیں ہے۔

﴿كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ﴾  (اسی طرح کہا اُن لوگوں نے جو جاہل ہیں ان ہی کی سی بات): تورات اور انجیل کو ماننے والے اور اس کی تلاوت کرنے والے یہودیوں اور عیسائیوں نے علمی حوالے سے ایک دوسرے کے بارے میں اس حقیقت کو جان لیا کہ وہ اصل ابراہیمی دینِ حنیفی پر قائم نہیں ہیں۔

ایک تیسرا طبقہ وہ ہے، جو ابراہیمی تحریک کی اصل تعلیمات سے علمی طور پر جاہل ہیں۔ ان کے پاس کوئی علمی کتاب نہیں ہے۔ وہ بھی حنیفی تحریک سے اپنی ناواقفیت اور جہالت کے سبب انھی کی طرح کی بات کرتے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں۔ باقی سب گمراہی پر ہیں۔ حضرت شیخ الہندؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ان جاہلوں سے مشرکین عرب اور بت پرست مراد ہیں۔ یعنی جیسے یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کو گمراہ جانتے ہیں، اسی طرح بت پرست بھی سب فرقوں کو گمراہ اور بے دین بتلاتے ہیں‘‘۔

حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اس کی وضاحت میں ﴿الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ کو زیادہ وسیع معنی میں لیا ہے کہ ان سے مراد ’’صابئین‘‘ ہیں، جو حنیفی تحریک کے علاوہ کسی بھی طرح کی بت پرستی میں مبتلا ہیں۔ یہاں بت پرست سے مراد صرف اہلِ مکہ کو لینا درست نہیں ہے، بلکہ ہر وہ فرقہ اور گروہ ہے جو اپنی جہالت کے سبب‘ حنیفی تحریک کے بنیادی اُصولوں کی خلاف ورزی کرکے غیراللہ کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے۔ ان کے لیے قرآن حکیم نے ’’صابئین‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، جیسا کہ سورت البقرہ کی آیت 62 میں یہودیوں اور نصرانیوں کے بعد ’’صابئین‘‘ کا تذکرہ ہے۔

﴿فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾  (اب اللہ حکم کرے گا ان میں قیامت کے دن جس بات میں جھگڑتے تھے): علمی اور عملی طور پر باہم اختلاف کرنے والی ممکنہ طور پر چار جماعتیں ہیں: 1۔ وہ جماعت جو صدقِ دل سے ابراہیمی تحریک پر ایمان لائی اور ہر دور کے نبی کی سچی باتوں کو انھوں نے قبول کیا ہے اور اس دور میں حضرت محمد مصطفی ﷺ اور قرآن حکیم پر صدقِ دل سے ایمان لائی ہے۔ 2۔دوسرا گروہ یہودیوں کا ہے، جو حنیفی تحریک کی ایک اہم کتاب ’’تورات‘‘ پڑھنے کے باوجود اصل تعلیمات سے ہٹ گئے اور دینِ حنیفی میں خودساختہ تبدیلیاں کرکے تحریف شدہ دین اختیار کیے ہوئے ہے اور دوسرے فرقوں کو گمراہ سمجھتا ہے۔ 3۔ تیسرا گروہ نصاریٰ کا ہے، جو حنیفی تحریک کی ایک اہم کتاب ’’اِنجیل‘‘ پڑھنے کے باوجود اصل دین کی تعلیمات سے روگردانی کرکے تحریف شدہ مذہب اور خود ساختہ دین اختیار کیے ہوئے ہے۔

4۔ چوتھا گروہ اُن صابئین اور مشرکین کا ہے، جو کسی الٰہی کتاب سے علمی طور پر واقف نہیں ہیں اور عملی طور پر حنیفیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ وہ اللہ کے ساتھ حنیف اور یکسو ہونے کے بجائے اللہ کے ساتھ بت، آگ یا کسی اور مخلوق وغیرہ کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ یا اللہ کو کسی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ شرک اور تشبیہ سے پاک توحیدِ الٰہی اختیار نہیں کرتے اور اللہ کے فرماں بردار بن کر اُس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، جیسا کہ سورت البقرہ: آیت 112 میں اَجر کے حصول کے لیے صحیح راستہ بیان کیا گیا ہے۔

ان باہم اختلاف کرنے والی چار جماعتوں میں قیامت کے دن ہی اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا۔ اس لیے کہ فرقہ وارانہ گروہیت کی فضا میں دنیا میں فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ خاص طور پر صابئین اور حنفا کے درمیان موجود اختلافی اُمور کا فیصلہ اور حقیقی تحریکِ حنیفیّت اور یہودیت اور عیسائیت کے درمیان مکمل فیصلہ قیامت کے دن ہی ہوگا۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام

وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 10, 2021

قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج

سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 16, 2023

تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی

گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نومبر 11, 2022

تعلیماتِ انبیاؑ قوموں کو زندہ اور عقل مند بنا دیتی ہیں

وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72) (اور جب مار ڈالا تھا…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اپریل 10, 2022