تینوں لطائف کے تجرباتی دلائل اور عقل مندوں کا اتفاق

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
فروری 15, 2025 - افکار شاہ ولی اللہؒ
تینوں لطائف کے تجرباتی دلائل اور عقل مندوں کا اتفاق

تینوں لطائف کے تجرباتی دلائل اور عقل مندوں کا اتفاق

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : a

(’’عقل‘‘ اور ’’قلب‘‘ و ’’نفس‘‘ کے حوالے سے چوتھی قسم)

’’چوتھا آدمی وہ ہے، جس پر اپنے قومی نظام کے غلبے کی سوچ ہو اور مرتبہ چاہتا ہو،۔اور اپنی ذات سے قومی عار اور ذِلت کی نفی کی خواہش رکھتا ہو تو وہ ان مقاصد کے لیے اپنے غصے کو پی لیتا ہے اور لوگوں کے بُرا بھلا کہنے کی تلخی پر صبر کرتا ہے۔ باوجود یہ کہ اُس میں قوتِ غضب اور شدتِ جرأت موجود ہوتی ہے۔ نیز وہ اپنی طبعی قوت وصحت کے باوجود اپنی شہوات اور لذات کو بھی چھوڑ دیتا ہے، اس لیے کہ:

                ٭           اُس کے بارے میں کوئی غیرپسندیدہ بات نہ کہی جائے،

                ٭           کسی بُری چیز کی طرف اُس کی نسبت نہ کی جائے،

                ٭           یا یہ کہ وہ جس جاہ اور رِفعت کا طالب ہے، وہ اُسے مل جائے۔

(تینوں طرح کے انسانوں کی مشابہت)

پہلا شخص (جو ’’قلب‘‘ کو ’’نفس‘‘ پر غالب رکھنے والا ہے) درندوں سے مشابہت رکھتا ہے (’’نفس‘‘ کی لذتوں کو چھوڑ کر ’’قلب‘‘ میں سمائی ہوئی ہر بات کو پورا کرتا ہے)۔

دوسرا شخص (’’نفس‘‘ کو ’قلب‘‘ پر غالب رکھنے والا) جانوروں سے مشابہت رکھتا ہے (’’قلب‘‘ کی کوئی بات نہ سنے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگا رہے)۔

تیسرا شخص (’’عقل‘‘ کو ’’نفس‘‘ اور ’’قلب‘‘ پر غالب رکھنے والا) فرشتوں سے مشابہت رکھتا ہے (عقل و شعور کو پیش نظر رکھنے والا فرشتوں کی طرح ہوتا ہے)۔

اور چوتھا (قومی نظام کے غلبے کے لیے غصہ پینے والے) آدمی کے بارے میں کہا جائے گاکہ وہ بڑی مروّت اور بلند ہمتوں والا آدمی ہے۔

(دو یا تین لطائف کا غلبہ رکھنے والے افراد)

پھر عام لوگوں میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں ، جن میں (عقل، قلب، نفس) اِکٹھی دو قوتیں (لطائف) تیسری قوت (لطیفے) پر غالب ہوتی ہیں ۔ ایسے افراد کا معاملہ اُن لطائف کے مطابق ایک دوسرے سے متشابہ ہوتا ہے۔ کبھی اُس پر ایک لطیفے کے اثرات ہوتے ہیں اور کبھی دوسرے لطیفے کے اُس پر اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔

پس جب کوئی صاحبِ بصیرت آدمی پوری بصیرت کے ساتھ انسانی افراد کے احوال و کیفیات اور اُن کے اظہارات وتعبیرات کو منضبط کرے تو اس تجربے سے اُسے ماننا پڑے گا کہ انسانوں میں یہ تین لطائف (نفس، قلب اور عقل) ثابت شدہ ہیں ۔

(تینوں لطائف کے ثبوت پر عقل مندوں کا اتفاق ہے)

جہاں تک ان تینوں لطائف پر عقل مندوں کے اتفاق کا معاملہ ہے تو جاننا چاہیے کہ تمام ملتوں اور فرقوں میں سے جو لوگ اپنے ’’نفسِ ناطقہ‘‘ کی تہذیب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، اُن کا ان تینوں لطائف کے ثبوت پر اتفاق ہے۔یا ایسے ’’احوال‘‘ اور ’’مقامات‘‘ کے بیان پر اُن کا اتفاق ہے، جن کا تعلق ان تینوں لطائف کے ساتھ ہے۔

(1۔ ان تین لطائف پر فلسفیوں کا اتفاق)

پس فلسفی لوگوں نے ’’حکمتِ عملیہ‘‘ میں ان تینوں لطائف کے یہ نام رکھتے ہیں :

’’نفسِ مَلَکی‘‘ (فرشتہ صفت نفس)                   ’’نفسِ سبعی‘‘ (درندہ صفت نفس)

’’نفسِ بہیمی‘‘ (جانور صفت نفس)

(تحقیقی بات یہ ہے کہ) انھوں نے ان کے یہ نام رکھنے میں کچھ چیزوں کو نظرانداز کیا ہے۔ وہ ’’عقل‘‘ کو ’’نفسِ مَلَکی‘‘ کہتے ہیں ، حال آں کہ اُن کا یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ ’’نفسِ مَلَکی‘‘ تہذیبِ نفس کے بعد وجود میں آتا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ انسانیت کے افضل ترین حصے کی وجہ سے ’’عقل‘‘ کا نام ’’نفسِ انسانی‘ ‘ رکھا جائے۔ نیز انھوں نے ’’قلب‘‘ کا نام اُس کے مشہور اَوصاف میں سے ایک کو سامنے رکھ کر ’’نفسِ سبعی‘‘ رکھا ہے( اس طرح یہ نام مکمل طور پر ان لطائف کی معنویت واضح نہیں کرتے، بلکہ ان ناموں سے اُن کے جزوی پہلو سامنے آتے ہیں )۔

((2۔ ان تین لطائف پر صوفیا کی جماعتوں کا اتفاق)

صوفیا کی مختلف جماعتوں نے بھی ان تینوں لطائف کا ذکر کیا ہے اور انھوں نے ان میں سے ہر ایک کو مہذب بنانے کی طرف توجہ کی ہے، مگر یہ کہ انھوں نے ان تین لطائف کے ساتھ دو مزید لطیفوں کو بھی ثابت کیا ہے اور ان دونوں لطیفوں کو مہذب بنانے کا بڑا اہتمام کیا ہے۔ وہ دو لطیفے ’’رُوح‘‘ اور ’’سِرّ‘‘ ہیں ۔

ان دونوں لطیفوں کے بارے میں تحقیقی بات یہ کہ ’’قلب‘‘ کے دو رُخ ہیں : ایک رُخ انسانی بدن اور اُس کے اعضا کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، جب کہ دوسرا رُخ ماورائے مادہ اور ذاتِ عالیہ کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اسی طرح عقل کے بھی دو رُخ ہیں : ایک رُخ بدن اور انسانی حواس کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، جب کہ دوسرا رُخ ماورائے مادہ اور ذاتِ عالیہ کی طرف میلان رکھتا ہے۔ پس صوفیا نے ان دونوں لطائف کے وہ رُخ جو نیچے کی جانب ہیں ، ان کا نام ’’قلب‘‘ اور ’’عقل‘‘ رکھا ہے۔ اور ان دونوں کے وہ رُخ جو ماورائے مادہ اور بلندی کی طرف ہیں ، ان کا نام ’’روح‘‘ اور ’’سِرّ‘‘ رکھا ہے۔

پس ’’قلب‘‘ کی صفت‘ عبادات پر اُبھارنے والا شوق اور وجد پیدا کرنا ہے۔ ’’رُوح‘‘ کی صفت‘ اللہ تعالیٰ سے اُنس اور اُس کی طرف کشش رکھنا ہے۔ ’’عقل‘‘ کی صفت ایسا یقین ہے کہ انسان علومِ عادیہ کے ماخذ میں سے اَخذ کرکے قرب حاصل کرسکے۔ جیسے ’’ایمان بالغیب‘‘ اور ’’توحیدِ اَفعالی‘‘۔ اور ’’سِرّ‘‘ کی صفت علومِ عادیہ سے ہٹ کر تجلیات کے شہود کا ظہور ہے۔ اور وہ دراصل اُس ماورائے مادہ کائنات کی کچھ حکایت ہے کہ جہاں نہ کوئی زمان ہے، نہ مکان اور جسے کسی وصف سے بیان نہیں کیا جاسکتا، اور نہ ہی اُس کی طرف کسی چیز سے اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ 

(شریعت کا مقصد؛ مجموعی طور پر نوعِ انسانیت کا معیار قائم کرنا)

شریعت کا مقصد اجتماعی طور پر ’’نوعِ انسانیت‘‘ کے میزان اور معیار کو قائم کرناہے، نہ کہ مخصوص افراد کی خصوصیات کو زیرِ بحث لانا، اس لیے شریعت ان دونوں لطیفوں (قلب اور عقل) کی تفصیلات سے زیادہ بحث نہیں کرتی۔ اور اِجمال کے پردے میں شریعت نے اس طرح کی مباحث کو چھوڑ دیا۔ باقی تمام ملتوں اور فرقوں کے نزدیک بھی ان باتوں کا علم موجود ہے، جسے استقرا (لوگوں کے حالات جمع کرکے اُن کا تجزیہ کرنے) سے کچھ ذہانت استعمال کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ (ابواب الاحسان، باب: 4، المقامات والاحوال)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) تیسرا اصول ’’سماحتِ نف…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اکتوبر 10, 2021

احسان و سلوک کی ضرورت اور اہمیت  (1)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ شریعت نے انسان کو سب سے پہلے حلال و حرام کے حوالے س…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 10, 2021

کائنات میں موجود کثرتِ اشیا کی حقیقت!

رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور 15؍ جنوری 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 17, 2021

شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری

رحیمیہ مطبوعات لاہور کی طرف سے شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری تصنیفاتِ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تحقیق و شرح کے ساتھ عمدہ اشاعت حضرت اقد…

ایڈمن اکتوبر 13, 2022