امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
[توحید کی عظمت اور اہمیت]
’’نیکیوں کے تمام اُصولوں میں سے سب سے بنیادی اساسی اُصول اور نیکیوں کی تمام قسموں میں سب سے عمدہ ترین توحید ِالٰہی ہے۔ اس لیے کہ توحید ہی کی بنیاد پر ربُّ العالمین کے سامنے ’’اِخبات‘‘ (خشوع و خضوع اور عجز و اِنکساری) کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ ’’اخبات‘‘ انسانی کامیابی حاصل کرنے والے اَخلاق میں سب سے عظیم تر ہے۔
توحید ِالٰہی ہی اصل میں (سعادت حاصل کرنے کی) وہ علمی تدبیر ہے، جو (گزشتہ بیان کردہ) دو تدبیروں میں سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ اسی کے ذریعے سے انسان کو غیب کی طرف مکمل توجہ حاصل ہوتی ہے۔ او رانسانی نفس میںیہ استعداد پیدا ہوتی ہے کہ وہ توحید کے ذریعے سے ذاتِ مقدس کے غیب کے ساتھ لاحق ہوجائے۔
بے شک نبی اکرمؐ نے توحید کی عظمت ِشان پر متنبہ کیا ہے۔ اور اِسے تمام نیکیوں کی اقسام میں سے دل کی طرح کی مرکزی حیثیت قرار دیا ہے۔ اور یہ کہ جب دل ٹھیک ہوجائے تو پورا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اور جب دل خراب ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ آپ ﷺ کا یہ قول بالکل مطلق ہے کہ:
’’من مات لا یشرک باللّٰہ شیئا ’’انّہ دخل الجنّۃ‘‘ (مشکوٰۃ، حدیث: 26 و 38)۔ (جو آدمی ایسی حالت میں فوت ہوا کہ اُس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو وہ ’’جنت میں داخل ہوگا‘‘)
یایہ کہ: ’’حرّمہ اللّٰہ علیٰ النّار‘‘ (مشکوٰۃ، حدیث: 25 و 36)۔
(اُس پر اللہ نے جہنم کو حرام قرار دیا)۔
اوریہ کہ: ’’لا یُحجَب من الجنّۃ‘‘ (مسلم، ج:1، ص226)
(جنت اور اُس کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوگا)۔
اور اسی طرح کے جملے آپؐ نے ارشاد فرمائے (مثلاً آپؐ کا یہ قول کہ:’’أدخلہ اللّٰہ الجنّۃ علیٰ ما کان من العمل‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ، حدیث: 27)۔ (اللہ اُسے جنت میں داخل کرے گا اس بنیاد پر کہ اُس نے جو عمل کیے تھے)
اسی طرح نبی اکرمؐ نے ربّ تبارک و تعالیٰ سے یہ بات نقل فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
’’من لقینی بقراب الأرض خطیئۃ لا یشرک بی شیئاً، لقیتہٗ بمثلہا مغفرۃ‘‘ (رواہ مسلم، کتاب الذکر و الدّعاء و التّوبۃ، حدیث: 6833)۔ (جو آدمی پوری زمین کی مقدار کے برابر گناہوں کو لے کر مجھ سے اس حال میں ملا کہ اُس نے میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا تو میں بھی اُس سے اُسی درجے مغفرت کے ساتھ ملوں گا)
[توحید کے چار مرتبے]
جاننا چاہیے کہ توحید کے چار مرتبے ہیں:
(1۔ توحید کا پہلا مرتبہ)
ان میں سے ایکیہ کہ ’’واجب الوجود‘‘ (لازمی وجود) صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہی کا وجود ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کوئی وجود لازمی اور واجب نہیں ہے۔
(2۔ توحید کا دوسرا مرتبہ)
عرش، آسمانوں، زمینوں اور تمام جواہر (جسمانی وجود رکھنے والی مخلوقات) کو پیدا کرنے والا صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے۔
[توحید کے ان دو مرتبوں پر تمام فرقے متفق ہیں]
توحید کے یہ دو مرتبے ایسے ہیں کہ کتب ِالٰہیہ میں ان کو ثابت کرنے کے لیے کوئی بحث نہیں کی جاتی۔ اس لیے کہ مشرکینِ عرب میں سے توحید کے ان دونوں مرتبوں کا کوئی بھی مخالف نہیں ہے۔ نہ ہییہود اور عیسائی ان دو مرتبوں کا انکار کرتے ہیں، بلکہ قرآن عظیم واضح طور پریہ بیان کرتا ہے کہ توحید کے دونوں مرتبے ان تمام فرقوں کے نزدیک تسلیم شدہ بنیادی اُمور اور مقدمات میں سے ہیں۔
(جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورت زخرف میں ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’
‘‘ (الزخرف: 9) ’’اگر تُو ان سے سوال کرے کہ کس نے آسمان و زمین پیدا کیے ہیں؟ تو ضرور بالضرور کہیں گے کہ انھیں زبردست اور جاننے والے اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا کیا ہے‘‘)
(3۔ توحید کا تیسرا مرتبہ)
توحید کا تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، اُس کی عالم گیر تدبیر اور نظام صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات چلا رہی ہے۔
(4۔ توحید کا چوتھا مرتبہ)
توحید کا چوتھا مرتبہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کوئی ذات کسی طرح کی بھی عبادت کی مستحق نہیں ہے۔
[توحید کے یہ دونوں درجے ایک دوسرے سے مربوط ہیں]
توحید کے یہ دونوں مرتبے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے طبیعی ربط اور تعلق میں لازمی طور پر بندھے ہوئے ہیں۔
(مولانا عبیداللہ سندھیؒ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ’’یعنی تدبیرِ الٰہی اور اللہ کے لیے عبادت کے درمیان فطری ربط اور تعلق پایا جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایسا لازمی تعلق ہے، جو کائنات کی دیگر تمام لازم و ملزوم اشیا میں ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوتے‘‘۔) (جاری ہے۔۔۔)
(المبحث الخامس، مبحث البرّ و الإثم، باب 1: توحید)
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار (6)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قضائے خداوندی نہیں ٹلتی، مگ…
تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…
چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…