وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72)
(اور جب مار ڈالا تھا تم نے ایک شخص کو، پھر لگے ایک دوسرے پر دھرنے، اور اللہ کو ظاہر کرنا تھا جو تم چھپاتے تھے۔ پھر ہم نے کہا: مارو اس مُردہ پر اس گائے کا ایک ٹکڑا۔ اسی طرح زندہ کرے گا اللہ مُردوں کو۔ اور دکھاتا ہے تم کو اپنی قدرت کے نمونے، تاکہ تم غور کرو۔)
گزشتہ آیات میں واضح کیا گیا کہ گائے کے ذبیحے سے متعلق بنی اسرائیل کے سوالات کے صحیح جوابات کے نتیجے میں وہ اجتماعی طور پر گائے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انھوں نے اللہ کے حکم کی پوری اطاعت کا مظاہرہ کیا تو اُن کے قلوب میں تجلیٔ الٰہی کے مثالی نور سے مناسبت پیدا ہوگئی۔ مظاہرِ قدرت؛ سورج، چاند، ستارے اور گائے جیسے جانوروں سے تعلق منقطع ہو کر ملائِ اعلیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق پیدا ہوگیا۔ اُن کے اہل اور صاحبِ استعداد لوگوں میں تورات کے احکامات کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ وہ جو گائے کے ذبح کو مذاق سمجھ رہے تھے، اُس پر صدقِ دل سے ایمان لے آئے اور انھوں نے آئندہ احکامِ الٰہی کے مطابق اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا عزم کرلیا تھا۔
اب ان آیات میں انسانی جان اور مال کے احترام کے حوالے سے اپنے اجتماعی جھگڑے نمٹانے سے متعلق قتل کے ایک اہم مقدمے کا فیصلہ بیان کیا جا رہا ہے۔
وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ : بنی اسرائیل میں ایک آدمی قتل ہوگیا تھا۔ اُس کی کوئی اولاد نہیں تھی اور وہ بہت زیادہ مال کا مالک تھا۔ اُس کا چچازاد بھائی اُس کا وارث بنتا تھا۔ اُس نے مال حاصل کرنے کے لالچ میں اُس آدمی کو قتل کردیا۔ پھر رات کے وقت اُس کی لاش اُٹھا کر کسی دوسرے آدمی کے دروازے کے سامنے رکھ دی۔ صبح کو قاتل نے وارث کی حیثیت سے اُس آدمی کے خلاف قتل کا اِلزام لگا دیا۔ اُس نے اس کا انکار کرتے ہوئے اس قاتل پر قتل کا الزام عائد کیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے دونوں طرف کے فرقے آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا اِلزام لگانے لگے۔
وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ : انسانی جان کے قتل اور مالی لالچ کی اصل حقیقت کو وہ لوگ چھپا رہے تھے۔ اصل قاتل اور لالچی انسان کو بچانے کے لیے حربے استعمال کر رہے تھے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ انسانی جان کے احترام اور مال کی حفاظت کے لیے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو اور مال کے لالچ کی وجہ سے انسانی قتل کیا گیا تھا، اُسے کھول کر سب کے سامنے بیان کردیا جائے۔ اس موقع پر سمجھ دار لوگوں نے کہا کہ تم آپس میں کیوں لڑتے جھگڑتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام ہمارے درمیان موجود ہیں، ان سے فیصلہ کروا لیتے ہیں۔
فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ : اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے یہ ہدایت دی کہ ذبح کی ہوئی گائے کے گوشت کو مقتول کے جسم کے ساتھ لگاؤ تو یہ اپنا قاتل خود بتا دے گا۔ جیسے ہی انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم کے مطابق گائے کا گوشت مقتول کے جسم کی ران یا دونوں کندھوں کے درمیان ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ لگایا تو وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ تمھارا قاتل کون ہے؟ تو اُس نے بتلایا کہ مجھے میرے چچازاد بھائی نے قتل کیا ہے۔ اور پھر فوراً ہی دوبارہ فوت ہوگیا۔ اللہ کے حکم کے مطابق گائے ذبح کرنے کی برکت سے اُس گائے کے گوشت میں ایسا مثالی نور ظاہر ہوا کہ جس کے نتیجے میں مقتول کے جسم میں زندگی پیدا ہوئی اور اس نے بنی اسرائیل میں اجتماعی اجتماعی جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے حیاتِ نو پیدا کردی۔
كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ : بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔
اس واقعے کے ضمن میں کئی حقیقتیں واضح کردی گئیں۔ ایک تو یہ کہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کی حقیقت سمجھا دی گئی۔ آج اگر مقتول کے جسم میں اُس کی روح ڈال کر جرم کی حقیقت واضح کی گئی ہے، ایسے ہی آخرت میں اللہ تبارک و تعالیٰ مُردہ انسانوں میں روح ڈال کر زندہ کرے گا اور لوگوں کے جرائم خود انھیں کی زبانی یا اُن کے اعضا کی زبانی سامنے آجائیں گے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی واضح کی گئی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے پہلے بنی اسرائیل ایک مُردہ قوم کی حیثیت رکھتی تھی، ان کی تعلیم و تربیت سے دوبارہ اُن میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے اور وہ ایک طاقت ور مستحکم قوم کی حیثیت سے دُنیا بھر میں زندہ دلی کے ساتھ کردار ادا کرنے کے قابل ہوگئی۔
وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ : اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اور تجلیات کے ذریعے تعلیم و تربیت کا ایسا طریقۂ کار بنی اسرائیل کو دکھایا تھا کہ جس کے ذریعے سے وہ اللہ کی رحمت کی مدد حاصل کرکے عقل مند اور باشعور بنیں۔ اللہ کی رحمت اُس وقت نازل ہوتی ہے کہ جب کوئی قوم اجتماعی طور پر اللہ کے احکامات کی اطاعت پر ایک واحد جسم کی صورت کردار ادا کرنے کے لیے پُرعزم ہو۔ ان میں اجتماعی طور پر فکر و نظریے کی وحدت اور بھرپور عملی سیاسی و معاشی قوت موجود ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی تعلیمات کے ذریعے سے اُن کو سیاسی اور معاشی قوت حاصل کرنے کا طریقہ سکھایا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے فکر کی بلندی اور علمی وحدت کے لیے انبیا علیہم السلام بھیجے۔ اور سیاسی اور معاشی قوت کے لیے اُن میں بادشاہ اور حکمران پیدا کیے۔ جس قوم میں اس طرح کی فکری وحدت اور عملی قوت نہ ہو، تو وہ کیسے انسانی معاشروں کو انسانی ترقی کے قوانین کے مطابق کامیاب کرسکتے ہیں۔ بنی اسرائیل سے کہاجا رہا ہے کہ آج تم ایسی اعلیٰ صلاحیت سے محروم ہوچکے ہو۔ اس لیے تم بین الاقوامی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ تم نے موسوی تعلیمات سے فیض یاب ہونے کے باوجود اُس کی پورے طور پر قدر نہیںکی۔ اور آج آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے اور مالی لالچ ایسے جرائم میں مبتلا ہو اور غضب ِالٰہی کے مستحق بن چکے ہو۔ جیسا کہ اس کا بیان اگلی آیات میں آرہا ہے۔
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول
گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…