تعلیم و تربیت کے لیے کتابِ ہدایت ضروری ہے!

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اپریل 17, 2021 - دروس القرآن الحکیم
تعلیم و تربیت کے لیے کتابِ ہدایت ضروری ہے!

وَإِذ آتَينا موسَى الكِتابَ وَالفُرقانَ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ.  وَإِذ قالَ موسىٰ لِقَومِهِ يا قَومِ إِنَّكُم ظَلَمتُم أَنفُسَكُم بِاتِّخاذِكُمُ العِجلَ فَتوبوا إِلىٰ بارِئِكُم فَاقتُلوا أَنفُسَكُم ذٰلِكُم خَيرٌ لَكُم عِندَ بارِئِكُم فَتابَ عَلَيكُم ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوّابُ الرَّحيمُ

(اور جب ہم نے دی موسیٰ کو کتاب اور حق کو ناحق سے جدا کرنے والے احکام، تاکہ تم سیدھی راہ پاؤ۔ اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے: اے قوم! تم نے نقصان کیا اپنا یہ بچھڑا بنا کر، سو اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف، اور مار ڈالو اپنی اپنی جان، یہ بہتر ہے تمھارے لیے تمھارے خالق کے نزدیک، پھر متوجہ ہوا تم پر، بے شک وہی ہے معاف کرنے والا نہایت مہربان)۔ (البقرہ: 53-54)

گزشتہ آیات میں ذکر کیا گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو آزادی دلائی۔ اس موقع پر انھیں تعلیم و تربیت کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں چالیس دن تک اپنے پاس طور پہاڑ پر رکھا۔ اس دوران بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے بچھڑے کی پوجا شروع کی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آکر سخت ناراض ہوئے، جس پر انھوں نے معافی مانگی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انھیں معاف کیا۔

ان آیات میں بتلایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعلیم و تربیت اور ہدایت کے لیے تورات ایسی عظیم کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عنایت فرمائی اور شخصی تہذیب و تربیت کے حوالے سے سچی توبہ کا درست طریقۂ کار بتلایا گیا ہے۔

وَإِذ آتَينا موسَى الكِتابَ وَالفُرقانَ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ. 

: اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ بنی اسرائیل پر تورات کے نزول کے حوالے سے اپنے ایک عظیم ترین انعام کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ کسی قوم کو آزادی اور حریت کے بعد سب سے پہلی ضرورت ایک ایسے قانون، دستور اور آئین کی ہوتی ہے کہ جس پر عمل کرکے وہ اپنی شخصی تہذیب، ملکی نظام، قومی اور بین الاقوامی سیاسی اور معاشی ترقی کے حوالے سے کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔ ان قوانین پر عمل کرکے وہ اپنے اندر ایسی استعداد پیدا کرے، جو اُن کی دُنیوی اور اُخروی ترقی کا باعث ہو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لیے قومی ترقی اور اُخروی کامیابی کا جامع پروگرام لائے تھے۔ اس لیے انھیں تحریر شدہ احکامات پر مشتمل کتاب دی گئی، اور اس کتاب پر عمل کرنے کے لیے انھیں ایسا فہم اور شعورِ الٰہی عنایت کیا گیا، جو حق و باطل میں فرق و امتیاز کرنا سکھاتا تھا۔ اس کا مقصد بنی اسرائیل کو انسانی زندگی کی تعمیر و تشکیل کے لیے درست راستہ دکھانا اور انھیں منزلِ مقصود تک پہنچانا تھا، تاکہ وہ تعلق مع اللہ کے ذریعے سے صفت ِاحسان حاصل کرکے شخصی تہذیب ِنفس بھی حاصل کریں اور قومی آزادی کے سیاسی اور معاشی فوائد بھی خوبی کے ساتھ حاصل کریں۔

وَإِذ قالَ موسىٰ لِقَومِهِ يا قَومِ إِنَّكُم ظَلَمتُم أَنفُسَكُم بِاتِّخاذِكُمُ العِجلَ

: تعلیم و تربیت میں یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ انسان ظلم اور عدل کے درمیان پہچان پیدا کرے۔ اُس سے جو ظلم اور زیادتی ہوئی ہے، اُس سے واقفیت حاصل کریں۔ غلطیوں سے سیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ غلطی کو غلطی مانے بغیر توبہ نہیں ہوتی۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بچھڑے کو خدا بنا کر پوجا کی تھی۔ جب تک وہ تورات کے احکامات کی روشنی میں اس کو ظلم اور شرک سمجھ کر اپنی غلطی نہیں مانتے، تعلیم و تربیت نہیں حاصل کرسکتے۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچھڑے کی پوجا کرنے والے بنی اسرائیلی گروہ سے کہا: تم اپنے اس شرک اور ظلم کو غلطی کے طور پر تسلیم کرو کہ تم نے اللہ کے مقابلے میں ایک بچھڑے کو خدا بنا کر پوجا کی ہے۔

فَتوبوا إِلىٰ بارِئِكُم فَاقتُلوا أَنفُسَكُم ذٰلِكُم خَيرٌ لَكُم عِندَ بارِئِكُم

: اس شرک و ظلم اور عظیم غلطی پر اچھی طرح دلی ندامت اختیار کرکے اپنے پیدا کرنے والی ذات کے سامنے توبہ کرو اور اپنے آپ کو پاک بنانے کے لیے اُس کے حوالے کردو۔ اور قتل ہونے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ چناںچہ بنی اسرائیل کے جن لوگوں نے بچھڑے کو سجدہ نہیں کیا تھا، لیکن غلطی کرنے والوں کو روکا بھی نہیں تھا۔ انھیں حکم دیا گیا کہ وہ بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو قتل کریں، تاکہ اُن کے دلوں میں اس ظلم و کفر کی نفرت بیٹھے اور ان دونوں گروہوں کے دلوں کا روگ ختم ہو۔ بنی اسرائیل کے وہ لوگ جنھوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کا ساتھ دیا اور ان پوجا کرنے والوں سے نفرت رکھی، انھیں توبہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ باقی دونوں جماعتوں کے دلوں کے روگ کو دور کرنے کے لیے ایسی توبہ ضروری تھی۔ اس طرح توبہ کرنا تمھارے پروردگار کے نزدیک سب سے بہتر عمل ہے۔ اس لیے کہ انسان ظلم اور غلطیوں سے توبہ کے بعد ہی اپنی زندگی میں ترقی یافتہ تعلیمات سے پورے طور پر تہذیب یافتہ بنتا ہے۔

فَتابَ عَلَيكُم ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوّابُ الرَّحيمُ

: اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعلیمات انسانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ہیں۔ غلطیاں انسانوں سے ہوتی ہیں۔ انسان جب اپنی غلطی مان کر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ ضرور اُسے معاف کرتا ہے۔ توبہ کے نتیجے میں ترقیات حاصل ہوتی ہیں۔ احکاماتِ الٰہی کو درست طو رپر سمجھنے کا ملکہ اور صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو تعمیر کرنے کا صحیح جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

اس سورت کی آیت 49 سے لے کر آیت 56 تک بنی اسرائیل کے نفسانی امراض کے علاج، شخصی طور پر مسئولیت اور تہذیب ِاَخلاق سے متعلق امور بیان کیے گئے ہیں۔ انھوں نے ابھی غلامی سے نجات حاصل کی تھی۔ غلامی کے زمانے کے اثرات اُن پر بڑے گہرے تھے۔ ان آیات میں اُس حوالے سے ان کی شخصی تہذیب کرتے ہوئے اللہ کے حضور احسان کی صفت کے صحیح اور درست مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے۔

 

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

سزا و جزا کے نظام سے کوئی نہیں بچ سکتا

وَاتَّقوا يَومًا لا تَجزي نَفسٌ عَن نَفسٍ شَيئًا وَلا يُقبَلُ مِنها شَفاعَةٌ وَلا يُؤخَذُ مِنها عَدلٌ وَلا هُم يُنصَرونَ (48:2) (اور ڈرو اس دن سے کہ کام نہ آئے کوئی شخص کسی کے کچھ بھی، اور قبول نہ ہو…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جنوری 09, 2021

غلامی سے آزادی کا حصول؛ انعامِ الٰہی

وَإِذ نَجَّيناكُم مِن آلِ فِرعَونَ يَسومونَكُم سوءَ العَذابِ يُذَبِّحونَ أَبناءَكُم وَيَستَحيونَ نِساءَكُم ۚ وَفي ذٰلِكُم بَلاءٌ مِن رَبِّكُم عَظيمٌ (القرآن، البقرہ: 49) (اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ رہائی دی ہم نے…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 17, 2021

انعاماتِ الٰہیہ اور غلطیوں کی معافی ؛ تربیت کا درست طریقہ

وَإِذ فَرَقنا بِكُمُ البَحرَ فَأَنجَيناكُم وَأَغرَقنا آلَ فِرعَونَ وَأَنتُم تَنظُرونَ. وَإِذ واعَدنا موسىٰ أَربَعينَ لَيلَةً ثُمَّ اتَّخَذتُمُ العِجلَ مِن بَعدِهِ وَأَنتُم ظالِمونَ ثُمَّ عَفَونا عَنكُم مِن بَعدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُم تَشكُرونَ…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 14, 2021

مذہب لڑائی کا ذریعہ نہیں ہے

’’1920ء کے بعد دنیا نے یہ طے کرلیا کہ ریاستیں قومی تناظر میں وجود میں لائی جائیں گی۔ قوم کی جان، مال، رنگ، نسل، مذہب کا تحفظ ہوگا اور جمہوری اور ادارتی بنیاد…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2020