امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
(7) ’’اللّٰھُمّ ! إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ، اللّٰھُمّ ! إِنِّی أَسأَلُکَ الْعَفْوَ وَ العَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ و دُنْیَایَ و أہْلِیْ وَ مَالِیْ، اللّٰھُمّ ! اسْتُرْ عَوْرَاتِیْ و آمِنْ رَوْعَاتِیْ، اللّٰھُمّ ! احْفِظْنِیْ مِنْ بَیَنِ یَدَیَّ، وَ مِنْ خَلْفِیْ، وَ عَن یَمِیْنِیْ وَ عَن شِمَالیْ، وَ مِنْ فَوْقِیْ، وَ أَعُوْذُ بِعَظْمَتِکَ أَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ‘‘۔ (رواہ أبو داؤد، مشکوٰۃ، حدیث: 2397)
(اے اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے معافی کا سوال کرتا ہوں اور اپنے دین، اپنی دنیا، اپنے بیوی بچوں اور اپنے مال میں عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میری پردہ پوشی کر اور میری گھبراہٹ کو دور فرما۔ اے اللہ! میری ہر طرح حفاظت کر! میرے سامنے سے، میرے پیچھے سے، میرے دائیں سے، میرے بائیں سے، میرے اوپر سے۔ اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری عظمت کی کہ میں نیچے سے اُٹھا لیا جاؤں۔ )
(8) تین دفعہ یہ دعا پڑھے: ’’رَضِیْتُ بِاللّٰہ رَبًّا، وَ بِالإِسْلَامِ دِیْنًا، وَ بِمُحَمَّدٍ ﷺ نَبِیًّا۔ (رواہ أحمد و التّرمذی، مشکوٰۃ، حدیث: 2399)
(اللہ کو ربّ ماننے، اسلام کو دین تسلیم کرنے اور محمد ﷺ کو نبی ماننے پر میں بہت خوش اور راضی ہوں۔)
(9) ’’أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘۔ (مشکٰوۃ: 2423)
(میں ہر مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کامل اور مکمل کلمات کی۔)
(10) ’’اَللّٰہُمَّ ! مَا أَصْبَحَ بِیْ مِنْ نِّعْمَۃٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِّنْ خَلْقِکَ، فَمِنْکَ وَحْدَکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ، فَلَکَ الْحَمْدُ وَ لَکَ الشُّکْرُ‘‘۔ (رواہ أبو داؤد، مشکوٰۃ: 2407)
(اے اللہ! صبح کے وقت جو بھی مجھے نعمت ملی، یا تیری مخلوق میں سے کسی ایک کو بھی ملی، پس وہ تیری واحد ذات کی طرف سے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ پس تیرے لیے حمد اور تعریف ہے اور تیرا ہی شکر ادا کرتا ہوں۔)
(1) سیّدُ الاسْتِغْفَار پڑھنا (یہ استغفار پیچھے آٹھویں ذکر میں گزر چکا ہے):
’’اللّٰہُمّ ! أنتَ رَبِّی، لا إلٰہ إلَّا أنتَ، خَلَقْتَنِیْ و أنا عَبْدُکَ، و أنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ، و أَبُوْئُ بِذَنْبِیْ، فَاغْفِرْ لِیْ، فَإنّہ‘ لا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إلَّا أنْتَ‘‘۔ (اے اللہ! تُو میرا ربّ ہے۔ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ تُو نے مجھے پیدا فرمایا۔ میں تیرا بندہ ہوں۔ میں اپنی استطاعت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔ میں نے جو کچھ کیا، اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ آپ کے جو انعامات مجھ پر ہیں، میں ان کا اقرار کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں کا بھی اقرار کرتا ہوں۔ مجھے بخش دے، کیوں کہ صرف تُو ہی گناہ معاف کر سکتا ہے۔) (رواہ البخاری: 2306، مشکوٰۃ: 2335)
(سونے کے وقت کے ذکر اذکار)
جب آدمی سونے کے وقت اپنے بستر پر آئے تو یہ اذکار پڑھے:
(1) ’’بِاسْمِکَ رَبِّی وَضَعْتُ جَنْبِی، وَ بِکَ أَرْفَعُہُ، إِنْ أَمْسَکْتَ نَفْسِی فَارْحَمْہَا، وَ إِنْ أَرْسَلْتَہَا فَاحْفِظْہَا، بِمَا تَحْفَظُ بِہِ عِبَادَکَ الصَّالِحِینَ‘‘۔ (متّفق علیہ، مشکوٰۃ: 2384)
(اے میرے پروردگار! تیرے نام کے ساتھ ہی میں اپنے پہلو کو بستر پر رکھتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ ہی اسے اُٹھاؤں گا۔ اگر تُو میری روح اپنے پاس روک لے تو اُس پر رحم کرنا اور اگر تُو اُسے واپس لوٹا دے تو اس کی اُن تمام چیزوں سے حفاظت کرنا کہ جن سے تُو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔)
(2) ’’اللّٰہُمَّ ! أَسْلَمْتُ نَفْسِی إِلَیْکَ، وَ وَجَّہْتُ وَجْہِی إِلَیْکَ، وَ فَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ، وَ أَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ، رَغْبَۃً وَ رَہْبَۃً إِلَیْکَ، لَا مَلْجَأَ وَ لَا مَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ، آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ‘‘۔ (متّفق علیہ، مشکوٰۃ: 2385)
(اے اللہ! میں اپنی روح کو تیرے سپرد کرتا ہوں اور اپنے چہرے کو تیری طرف متوجہ کرتا ہوں۔ میں اپنے معاملات تیرے سپرد کرتا ہوں۔ میں اپنی پُشت کو تیری پناہ میں دیتا ہوں‘ تیری طرف رغبت رکھتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے۔ تیرے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور نہ کوئی نجات کی جگہ ہے۔ میں ایمان لایا تیری اُس کتاب پر جو تُو نے نازل کی ہے اور تیرے اُس نبی پر جنھیں تُو نے بھیجا ہے۔)
(3) ’’الحَمْدُ لِلّٰہِ الّذی أَطْعَمَنَا، وَ سَقَانَا، وَ کَفَانَا، وَ آوَانَا، فَکَمْ مِمَّنْ لا کَافِیَ لہ، وَلَا مُؤْوِیَ‘‘۔ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ: 2386)
(سب تعریفیں اُسی اللہ تعالیٰ کی ہیں، جس نے ہمیں کھانا کھلایا، اور پانی پلایا، اور ہمارے لیے کفایت کی، اور ہمیں ٹھکانہ دیا۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے لیے کوئی کفایت کرنے والا نہیں ہے اور کوئی ٹھکانہ دینے والا نہیں ہے۔)
(4) سونے سے پہلے ’’سُبْحَانَ اللّٰہ‘‘ تینتیس (33) مرتبہ، ’’الْحمدُ اللّٰہ‘‘ تینتیس (33) مرتبہ اور ’’اللّٰہُ أکْبَر‘‘ چونتیس (34) مرتبہ پڑھے۔ (مشکوٰۃ: 2387)
(5) سونے سے پہلے تین دفعہ یہ دعا پڑھے: ’’اللّٰہُمَّ ! قِنِی عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عبادَکَ‘‘۔ (مشکوٰۃ:2400)(اے اللہ! مجھے اپنے اُس دن کے عذاب سے بچا، جس دن تُو اپنے بندوں کو اُٹھائے گا۔) (باب الأذکار و ما یتعلّقُ بہا)
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار (6)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قضائے خداوندی نہیں ٹلتی، مگ…
تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…
چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…