بارہویں صدی عیسوی کے عبقری انسان، عظیم فلسفی، مفکر، محقق، صوفی، علوم کا بحرِ ناپیدا کنار، روحانی و عرفانی نظامِ شمسی کے مدار، اسلامی تصوف میں ’’شیخِ اکبر‘‘کے خطاب سے جن کا تذکرہ کیا گیا ہے، جن کا لقب ’’محی الدین‘‘ ہے۔ واقعی جو روحانی اقدار کے لیے حیات آفرین ہیں۔ جی ہاں! یہ ہیں شیخ اکبر ابوبکر محمد بن علی بن محمد بن احمد ابنِ عربی الاندلُسی الحاتمی الطائی، جو عرب کے نام ور سخی حاتم طائی کے بھائی کی اولاد میں سے ہیں۔
آپؒ کے خاندان کا تعلق قبیلۂ ’’بنوطے‘‘ سے ہے، جو ہجرت کرکے اَندلُس میں آباد ہوگیا تھا۔ آپؒ اَندلُس کے شہر مرسیہ میں۲۷؍ رمضان المبارک۵۶۰ھ / 1165ء میں پیدا ہوئے۔ آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر ’’المُوَحِّدون‘‘ کہلانے والے فرقے کا قبضہ ہوگیا، جس کی وجہ سے آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ چناں چہ آپؒ کے خاندان نے ’’لِشبونہ‘‘ (پُرتگال کے دارالحکومت لزبن) میں پناہ لی، تاہم جلد ہی آپؒ کے والد کو اِشبیلیہ کے امیرابویعقوب یوسف کے دربار میں اہم عہدے کی پیش کش ہوئی۔ اس طرح آپؒ کا خاندان پھر سے اَندلُس کے مشہور شہر ’’اِشبیلیہ‘‘ منتقل ہوگیا۔
آپؒ کی ابتدائی تعلیم مرسیہ اور لِشبونہ (لزبن) میں ہوئی۔ تعلیم کے متوسط و اعلیٰ مدارج اِشبیلیہ میں ہی طے کیے۔ یہیں پر آپؒ کو علما و صوفیا کی مجالس میں استفادے کا موقع ملا، بلکہ آپؒ کا بیش تر وقت صوفیا کی مجالس میں گزرتا تھا۔ آپؒ کے ماموں ابومسلم خولانیؒ بھی اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور صوفی تھی۔ آپؒ نے حصولِ علم اور اصلاح و تزکیہ کی خاطر دور دراز کے سفر بھی کیے۔ خصوصاً شمالی افریقا کے ممالک کی طرف رُجحان زیادہ تھا۔ یہاں آپؒ کو ایسے اہل اللہ کی صحبت میسر ہوئی، جنھوں نے آپؒ کی روحانی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپؒ ایک واسطے سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ کے فیض یافتہ بھی ہیں۔
شیخ ابنِ عربیؒ اپنے خاص نظریے خصوصاً تصوف، فلسفہ اور کشف کے باعث ایک جداگانہ حیثیت کے مالک ہیں۔ ان کو محض صوفی یا فلسفی کہنا درست نہیں، بلکہ ان کا دائرۂ فکر اہم اسلامی و سماجی علوم، علمِ تفسیر و حدیث، اصولِ فقہ، الٰہیات، فلسفہ، تصوف، صرف و نحو، سیرت، وقائع نگاری، نفسیات، صوفیانہ شاعری، ما بعد الطّبیعات، اور فلسفۂ زمان و مکان کے پیچیدہ مسائل تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ کثیر الاجزا علوم کو باہم مربوط کرکے نتائج اخذ کرنے کی طرف مائل ہیں۔ ان کا نظامِ فکر کثرت میں وحدت کا نظارہ کرنے پر قادر ہے۔ ابنِ عربیؒ کی فکر کا نقطۂ ماسکہ ’’فلسفۂ وحدت الوجود‘‘ ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ تصوف میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کیا تھا۔ یہ فلسفہ ایسا عملی و انقلابی ہے، جو انسانوں کی حرکی قوتوں کو مہمیز عطا کرتا ہے۔ بہ قولِ غالب ؎
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جز میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
حضرت حسان بن ثابت خزرجی نجاری انصاری رضی اللہ عنہٗ (1)
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہٗ جلیل القدر صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ آپؓ کی کنیت ’’ابوالولید‘‘ اور آپؓ کا لقب ’’شاعر رسول اللہ‘&lsq…
فلسفۂ تاریخ و عمرانیات کا بانی؛ علامہ ابن خلدونؒ (1)
علامہ ابن خلدونؒ ہماری تاریخ کی اہم ترین شخصیت ہیں۔ آپؒ کا تعلق اگرچہ یمن کے علاقے ’حضرموت‘ سے تھا، ان کا سلسلۂ نسب بنی کندہ کے بادشاہوں سے ملتا ہے، جن کی عظمت…
خلافتِ بنو عباس؛ نظام و کارنامے
خلافتِ بنو عباس کا زمانہ بھی خلافتِ راشدہ اور خلافتِ بنواُمیہ کی طرح خیر و برکت کا زمانہ تھا۔ ابتدا میں اسلام اور عربی رنگ غالب تھا، لیکن فتنوں کے ظہور اور متوکل علی اللہ کے…
حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا
حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی دوسری صاحبزادی ہیں، جو۳۳ھ قبل نبوت میں پیدا ہوئیں۔ حضوؐر اکرمؐ کے زیرسایہ آپؓ کی تربیت اکسیرِ اعظم تھی، جو کمالاتِ حیات کا موجب بنی۔ پہ…