برِعظیم پاک و ہند کی تحریکِ آزادی میں دار العلوم دیوبند کا قیام ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اس ادارے کی بنیاد رکھی تھی۔ ان حضرات کے رُفقائے کار میں ایک اہم نام مولانا فضل الرحمن عثمانیؒ کا بھی ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ انھیں کے فرزند ہیں۔
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ۱۰؍ محرم الحرام۱۳۰۵ھ / 1885ء کو ’یو۔پی‘ کے شہر بجنور میں پیدا ہوئے۔اصل نام ’’فضل اللہ‘‘ تھا لیکن ’’شبیر احمد‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ شجرۂ نسب حضرت عثمان غنیؓ سے ملنے کی وجہ سے ’’عثمانی‘‘ کہلاتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1901ء میں مزید تعلیم کے حصول کے لیے دیوبند تشریف لے گئے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ مولانا عثمانیؒ کے اساتذہ میں سے تھے۔ تعلیم میں ذہین طلبا میں شمار کیے جاتے تھے۔ فراغت کے بعد دیوبند ہی میں مدرّس کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ 1909ء تا 1911ء مدرسہ فتح پوری دہلی میں بھی صدر مدرّس کے طور پر فرائض سر انجام دیے۔ 1911ء میں جب دیوبند میں جلسہ دستار بندی ہوا تو واپس تشریف لے آئے اور حضرت شیخ الہندؒ کی سرپرستی میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ’’جمعیت الانصار‘‘ کے نظامِ تعلیم اور نصاب سے متعلق جو خاص مجلس قائم ہوئی، اس میں مولانا موصوفؒ نے ممبر اور معتمدکے طور پر بھر پور کردار ادا کیا۔ مرادآباد میں ہونے والے ’’جمعیت الانصار‘‘ کے اجلاس میں ’’ اسلام‘‘ کے عنوان سے آپؒ نے ایک اہم خطبہ بھی ارشاد فرمایا، جس کی تفصیلات امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے رپورٹ میں درج کی ہیں۔ مرادآباد کی طرح ’’جمعیت الانصار‘‘ کے میرٹھ اور شملہ میں ہونے والے اجلاسات میں بھی آپؒ نے مقالات پیش کیے۔ الغرض! آپؒ نے حضرت شیخ الہندؒ ہی کی سرپرستی میں علمی اور عملی سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ ملکی علمی اور سیاسی میدان میں مولانا موصوف کو ملنے والی پذیرائی دراصل حضرت شیخ الہندؒ کی رہنمائی اور جمعیت الانصار میں علمی کردار کے مرہونِ منت ہے۔ جنگِ بلقان کے دنوں میں ہلالِ احمر میں کی گئی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سلسلے میں ملک کے مختلف شہروں میں دورہ جات کیے اور تُرکوں کی حمایت میں عوام کے شعور کو بیدار کیا۔
1919ء میں مسمانانِ ہند کی متفقہ جماعت ’’جمعیت علمائے ہند‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مولانا عثمانیؒ اس جماعت کی مجلسِ عاملہ کے اہم رُکن تھے۔ 1919ء تا 1945ء آپؒ اس کے سرگرم رکن رہے۔ جمعیت کے اہم اجلاسات کے ساتھ ساتھ خلافت کمیٹیوں اور ’’ترکِ موالات‘‘ کے جلسوں میں بھی بھرپور شرکت کی۔ 1920ء میں جب حضرت شیخ الہندؒ اسارتِ مالٹا کے بعد ہندوستان تشریف لائے تو اس وقت ترکِ موالات کی تحریک کے حوالے سے سوال کیا گیا تو حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ:’’ اس سلسلے میں جوابات حضرت مولانا حسین احمد مدنی، مولانا مفتی کفات اللہ دہلوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی تحریر کریں گے‘‘۔ سب کے جوابات پڑھ کر حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ:’’ اگر میں اس کا جواب لکھتا تو اس کے قریب تر ہوتا جو مولانا شبیر احمد نے لکھا ہے‘‘۔ مولانا موصوفؒ نے ترکِ موالات کی تحریک میں بھی دیگر رہنمائوں کے ہمراہ قائدانہ کردار ادا کیا۔
تحریکِ ترکِ موالات اور تحریکِ خلافت کے دور میں مسلمانانِ ہند‘ خاص طور پر حریت پسند رہنمائوں کی کوشش تھی کہ ایک آزاد یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے علی گڑھ میں حضرت شیخ الہندؒ کو مدعو کیا گیا، تاکہ وہ نوجوانوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار فرما سکیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاح کے سلسلے میں علی گڑھ میں 29؍ اکتوبر 1920ء کو ہونے والے اس جلسے میں حضرت شیخ الہندؒ کا خطبۂ صدارت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے ہی پڑھ کر سنایا تھا۔ اس کے بعد 19، 20، 21؍ نومبر 1920ء کو جمعیت علمائے ہند کے ہونے والے ایک اہم اجلاس میں حضرت شیخ الہندؒ کی جانب سے تقریر بھی مولانا موصوفؒ نے پڑھ کر سنائی، جو کہ ترکِ موالات کے موضوع پر تھی۔
1922ء میں جب ’’انجمن خدام الدین لاہور‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تو مولانا احمد علی لاہوریؒ کی حمایت کے لیے آپؒ لاہور تشریف لائے اور ان کے کیے ہوئے کاموں کو سراہا۔ 1927ء میں جمعیت علمائے ہندکی جانب سے مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا سیّد سلیمان ندویؒ کے ہمراہ نمائندے کی حیثیت سے شاہِ حجاز کی دعوت پر حرمین شریفین تشریف لے گئے تھے۔
حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے ترجمۂ قرآنِ حکیم ’’موضح فرقان‘‘ کی تکمیل کے بعد اس پر فوائد بھی تحریر فرمائے، جو ’’سورت النساء‘‘ تک ہی مکمل ہوسکے۔ اس کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے فوائد کی تحریر کا کام مکمل کیا اور ’’ فوائدِ تفسیریہ‘‘ کے ساتھ حضرت شیخ الہندؒ کے ترجمۂ قرآن کا پہلا ایڈیشن اگست 1936ء میں شائع ہوا۔ حضرت شیخ الہندؒ کا ترجمۂ قرآن اور یہ تفسیری فوائد آج ’’تفسیرِ عثمانی‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔
جون 1945ء میں جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی گئی تو مولانا عثمانیؒ نے اس کی صدارت کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ آپؒ 6؍ اگست 1947ء کو کراچی تشریف لے آئے اور پھر یہیں قیام کیا۔ یقینا تحریکِ پاکستان میں بھی آپؒ کا کردار بہت اہم ہے، جو کہ مستقبل میں کسی بہتری کہ اُمید پر ہی تھا، لیکن آپؒ کو یہاں جب سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور آلۂ کار برسرِ اقتدار طبقات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو آپؒ اس قیادت سے بہت مایوس ہوئے۔ان کا مؤقف یہی تھا کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے تو یہاں اسلام کے قوانین رائج ہونے چاہئیں، جب کہ ایسا نہیں ہورہا۔ آپؒ اپنی زندگی کے آخری ایام تک اسی میں متفکر رہتے تھے، یہاں تک کہ اسی سلسلے میں انھوں نے پیرانہ سالی کے باوجود بہاولپور کا سفر کیا، جہاں اسی سلسلے میں علمائے کرام کو جمع کیا گیا تھا۔ بہاولپور کے قیام کے دوران سینے میں تکلیف کی وجہ سے علیل ہوئے اور 13؍ دسمبر 1949ء /۲۱؍ صفر المظفر۱۳۶۹ھ کو بہاولپور میں ہی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپؒ کی تدفین اسلامیہ کالج کے عقب میں کراچی میں کی گئی۔
ٹیگز
وسیم اعجاز
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
امینُ المِلّت سردار محمد امین خان کھوسو ؒ
حریت و آزادی کی تحریکات میں وادیٔ مہران کسی طور بھی وطنِ عزیز کے کسی بھی حصے سے پیچھے نہیں رہی۔ اس نے ہمیشہ ہراوَل دستے کا کام سر انجام دیا ہے۔ سندھ دھرتی کے حریت پسندوں می…
حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوبندیؒ
ولی اللّٰہی تحریک میں ایک اور اہم نام حضرت مولانا ذوالفقارعلی دیوبندیؒ کا ہے۔ آپؒ۱۲۲۸ھ / 1813ء کو دیوبند میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد گرامی کا نام شیخ فتح علی تھا۔ وہ اپنے علاق…
ڈاکٹر سیف الدین کچلوؒ
تحریکِ ریشمی رومال کے دوران کابل میں امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کی قائم کی گئی حکومتِ موقتۂ ہند کی موجودگی اور پنجاب اور بنگال میں جاری تحریکوں کی وجہ سے بر…
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ - صحابہؓ کا ایمان افروز کردار
صحابہؓ کا ایمان افروز کردار حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ غزوۂ خیبر کے سال (۷ھ / 628ء) مسلمان ہوئے…