حریت و آزادی کی تحریکات میں وادیٔ مہران کسی طور بھی وطنِ عزیز کے کسی بھی حصے سے پیچھے نہیں رہی۔ اس نے ہمیشہ ہراوَل دستے کا کام سر انجام دیا ہے۔ سندھ دھرتی کے حریت پسندوں میں ایک اہم نام سر دار محمد امین خان کھوسو ہیں۔ وہ حاجی عبد العزیز خان کھوسو کے ہاں 11؍ دسمبر 1910ء میں جیکب آباد (سندھ) کے ایک قصبے عزیز آباد میں پیدا ہوئے۔ آپؒ ایک بلوچ زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
1934 ء میں علی گڑھ سے بی۔ اے پاس کیا اور پھر ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ وہیں سٹوڈنٹس یونین میں عہدے پر بھی رہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں انھیں کافی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی میں انھیں امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ سے تعارف ہوچکا تھا۔ وہ حضرت سندھیؒ کے سیاسی فکر و عمل کے دل و جان سے معترف تھے۔ اسی واسطے سے ہی وہ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار و نظریات سے متعارف ہوئے۔ انھیں امامِ انقلابؒ کے ساتھ عشق کی حد تک لگائو تھا۔ یہ محبت یک طرفہ نہ تھی، بلکہ مولانا سندھیؒ کو بھی ان سے اسی قدر تعلقِ خاطر تھا۔ مولاناؒ ان پر بہت اعتماد فرماتے تھے۔ انھیں اپنا کہتے تھے۔ فرماتے تھے کہ: ’’خان میرا ہے، میرا خان مجھے جانتا ہے‘‘۔ جو کوئی بھی امامِ انقلابؒ پر تنقید کرتا تو وہ اس کا مدلل ردّ پیش کرتے تھے۔ امامِ انقلابؒ کے بارے میں موصوفؒ کی رائے یہ تھی کہ: ’’جب تک مولانا (سندھیؒ) سے ملاقات نہ ہوئی تھی تو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ اسلام کیا ہے؟ اس کی تعلیمات کیا ہیں؟ اسلام کا مطالبہ کیا ہے؟ ہم چند رسومات و روایات کو ہی اسلام سمجھے ہوئے تھے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ زمانے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اسلام ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟ مولانا سندھیؒ سے ملے تو ہمیں پتہ چلا کہ اسلام در حقیقت ہے کیا؟‘‘
آپؒ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نظریۂ ’’فک کل نظام‘‘ سے متأثر تھے اور وطنِ عزیز سے انگریز سامراج کو نکالنے میں پیش پیش رہے۔ آپؒ نے اپنی تحریروں اور خاص طور پر تقاریر کے ذریعے ہر خاص و عام تک مولانا سندھیؒ کا پیغام پہنچایا۔
علی گڑھ سے واپسی پر جیکب آباد میں تشریف لائے۔ 1937ء میں کاشت کاروں اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود اور اُن کی مشکلات کو حل کر نے کے لیے بنائی گئی ’ہاری کمیٹی‘ کے صدر منتخب ہوئے۔ 1938ء میں سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان کی تقریباً تمام بڑی جماعتیں امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو اپنے وطن ہندوستان واپس لانے کے لیے تحریکات چلا رہی تھیں۔ انھیں کاوشوں میں ایک نمایاں نام سردار محمد امین خان کھوسو کا بھی تھا۔ انھوں نے اپنے قریبی دوست اور اس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ شہید‘ اللہ بخش سومرو کے ساتھ مل کر یہ ضمانت دلوائی کہ مولانا واپسی پر عدم تشدد کے پابند ہو کر سیاسی کام کریں گے۔ تب کہیں جا کر مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو وطن واپسی کی اجازت ملی۔ موصوفؒ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو وطن واپس بلانے میں جو کوششیں میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کی ہیں، وہ بارآور ہوئیں تو یہ میرے لیے بہت بڑی خوشی کی بات ہے‘‘۔
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ سردار موصوفؒ کی کاوشوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’جب مجھے معلوم ہوا کہ حکومتِ سندھ میری جلا وطنی کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہی ہے تو میں سوچتا تھا کہ اس معاملے میں حکومت کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ اس نظام اور مشینری کے پیچھے کوئی شخص ہے جو اسے حرکت دے رہا ہے۔ حجاز میں اس بات کا پتہ لگانا میرے لیے ممکن نہیں تھا، لیکن وطن واپس آکر پتہ چلا کہ وہ ’میرا خان ہے‘۔‘‘
سردار موصوفؒ کا ایک اور اہم کام یہ بھی تھا کہ انھوں نے سندھ میں موجود ان تمام اکابرین کے درمیان رابطوں کا کام بھی کیا، جنھوں نے حریت و آزادی کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان حضرات میں مولانا محمد صادق کراچویؒ، مولانا دین محمد وفائیؒ اور حکیم فتح محمد سہوانیؒ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
1941ء میں برٹش حکومت کی جانب سے بغاوت کے الزام میں ان پر مقدمہ چلایا گیا، جو تقریباً ایک سال تک جاری رہا۔ 1946ء میں سندھ مسلم لیگ کا جوائنٹ سیکرٹری بنایا گیا، لیکن ان سے رہنمائی لینے کے بجائے مسلم لیگی قیادت کی جانب سے ان پر حملہ کرایا گیا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے بعد ان کو اپنے ہی گھر میں نظر بند کردیاگیا۔ یہ سلسلہ تقریباً دو سال تک چلتا رہا۔ انھی الم ناک واقعات کے بعد 1950ء تا 1970ء انھوں نے یکسو ہوکر زندگی گزاری۔ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہ لیا۔ زیادہ تر وقت مطالعے میں گزرتا تھا۔ اگست 1969ء میں لاہور میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ پر ہونے والے سیمینار میں آپؒ نے امامِ انقلابؒ کو جن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا اور جو اپنی یاد داشتیں بیان کی ہیں، وہ قابلِ مطالعہ اور تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔
وہ سندھی ادب کے بہترین ادیب اور مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے خطیب بھی تھے۔ تحریکِ پاکستان کے بعد جب انھوں نے ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو برسرِ اقتدار دیکھا، جن کے خلاف ان کی تمام تر جدوجہد رہی تو بہت زیادہ تکلیف محسوس کی۔ انھوں نے پاکستان کے مستقبل کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا، جو کہے تو گئے تھے طنزیہ طور پر، لیکن آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ آپؒ نے لکھا ہے: ’’سربراہِ مملکت کاقصر عالی شان‘ سو ایکڑ زمین میں فنِ تعمیر کا شاہکار ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر عوام کے غم میں گھلا جارہا ہوگا اور اسلامی خدمت کے جذبے سے نرم و گداز بستروں پر بے چینی کی کروٹیں لے رہا ہوگا۔ اور اس کے قصرِ عالی شان کی طرف جانے والے تمام راستے عوام کے لیے بند ہوں گے‘‘۔
سردار محمد امین خان کھوسوؒکا انتقال 5؍ دسمبر 1973ء کو کراچی میں ہوا۔ تدفین ان کے آبائی گائوں عزیزآباد، ضلع جیکب آباد میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اکابرین کے فکر و عمل کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین!)
ٹیگز
وسیم اعجاز
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
ڈاکٹر سیف الدین کچلوؒ
تحریکِ ریشمی رومال کے دوران کابل میں امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کی قائم کی گئی حکومتِ موقتۂ ہند کی موجودگی اور پنجاب اور بنگال میں جاری تحریکوں کی وجہ سے بر…
حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوبندیؒ
ولی اللّٰہی تحریک میں ایک اور اہم نام حضرت مولانا ذوالفقارعلی دیوبندیؒ کا ہے۔ آپؒ۱۲۲۸ھ / 1813ء کو دیوبند میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد گرامی کا نام شیخ فتح علی تھا۔ وہ اپنے علاق…
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ
برِعظیم پاک و ہند کی تحریکِ آزادی میں دار العلوم دیوبند کا قیام ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احم…
فلسفۂ تاریخ و عمرانیات کا بانی؛ علامہ ابن خلدونؒ (1)
علامہ ابن خلدونؒ ہماری تاریخ کی اہم ترین شخصیت ہیں۔ آپؒ کا تعلق اگرچہ یمن کے علاقے ’حضرموت‘ سے تھا، ان کا سلسلۂ نسب بنی کندہ کے بادشاہوں سے ملتا ہے، جن کی عظمت…