۵؍ ربیع الاوّل ۱۴۴۲ھ / 23؍ اکتوبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’معزز دوستو! دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ تمام مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، عظمت اور آپؐ کے ساتھ سچا تعلق قائم کریں۔ محبتِ رسولؐ اور آپؐ کا عشق انسانیت کی ترقی اور مسلمانوں کی کامیابی کے لیے ضروری اور ناگزیر ہے۔ خود نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی آدمی اُس وقت تک کامل مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اُس کے دل میں میری محبت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ نہ ہو۔ صحابہ کرامؓ نے حضوؐر کے ساتھ سچی محبت اور آپؐ کی عظمت دلوں میں پیدا کی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ دنیا اور آخرت میں ایک اعلیٰ درجے کے نمونے کی جماعت کی حیثیت اختیار کرگئے۔
محبت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان آپؐ کی اتباع کرے۔ جو آپؐ نے احکامات دیے ہیں، ان کے مطابق زندگی بسر کرے۔ یہاں رسمی محبت مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ محبت جو انسان میں یہ جذبہ پیدا کردے کہ جو محبوب کے اعمال ہیں، جو اُن کی صفات ہیں، جو اُن کی سیرت ہے، اُس سیرت کو اپنے دل و دماغ میں اُتارے اور اس کے مطابق جدوجہد اور کوشش کرے۔
نبی اکرمؐ کی محبت تبھی پوری ہوتی ہے کہ آپؐ کی سیرت کے جملہ پہلو ہمارے سامنے ہوں۔ ربیع الاوّل کا یہ مبارک مہینہ کہ جس میں نبی اکرمؐ دنیا میں تشریف لائے اور اسی مہینے میں دنیا سے تشریف لے گئے، اس مہینے کو آپؐ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔ اس نسبت کا بڑا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ نبی اکرمؐ کی سیرت کے اُن تمام پہلوؤں کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے، جو انسانیت کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ خاص طور پر آج کے اس پُرفتن ماحول میں کہ جہاں آج مسلمان بہت سی مصیبتوں میں مبتلا ہے، پریشانیوں کی حالت میں ہے، اُس کے گرد و پیش کا ماحول اُس کے لیے پریشانیاں اور مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ دو ڈھائی سو سال سے مسلمان مغلوب ہیں۔ سامراجی طاغوتی قوتوں نے مسلمانوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جیسے نبی اکرمؐ کے زمانے میں انسانیت دو بڑی ظالم طاقتوں کے زیراثر تھی، قیصر و کسریٰ اور جزیرۃ العرب میں ابوجہل اور عتبہ شیبہ ان ظالموں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھی، انسانیت مصیبت زدہ تھی، مسائل لاینحل تھے، سوسائٹی غلامی اور پستی کی حالت میں تھی۔ ایسے ماحول میں حضور اقدسؐ دنیا میں تشریف لائے ہیں اور آپؐ نے انسانی سماج میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ انقلاب برپا کیا ہے۔ نبی اکرمؐ کی سیرت کے اس انقلابی پہلو کا پورے طور پر فہم و بصیرت کے ساتھ تحلیل و تجزیہ کیا جانا بہت ضروری ہے‘‘۔
نبی اکرم ﷺ کی پانچ منفرد خصوصیات
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی خصوصیات دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ صحیح بخاری (حدیث438) میں آپؐ کی ان خصوصیات کا تذکرہ ہے کہ:
(1) ’’نُصِرتُ بالرُّعبِ مَسِیرۃَ شَہْرٍ‘‘: نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ رعب کے ذریعے سے مجھے مدد دی گئی ہے۔ میرا رعب دشمنوں پر ایک مہینے کی مسافت کے فاصلے تک اثرانداز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفر و شرک میں مبتلا لوگوں پر میرا رعب پیدا کردیا ہے کہ ایک مہینے کی مسافت تک میری ذات کا اثر ہوتا ہے۔ مکہ اور مدینہ سے ایک مہینے کی مسافت تقریباً قیصر و کسریٰ کے مراکز تک جاتی ہے۔
(2) ’’جُعِلَت لِيَ الأرضُ مسجِداً و طُہُورًا‘‘: میرے لیے پوری زمین کو مسجد بنا دیا گیا۔ پہلی قوموں میں جو انبیا علیہم السلام آئے، تو چوں کہ وہ صرف اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث کیے گئے تھے، اس لیے اُن پر لازمی تھا کہ اللہ کی عبادت کرنی ہے تو صرف عبادت خانے میں کریں گے۔ اس سے باہر کسی اَور جگہ پر نماز نہیں پڑھی جاسکتی تھی، لیکن حضوؐر پر چوں کہ یہ ذمہ داری عائد ہوئی کہ دنیا بھر میں انسانیت کی رہنمائی کے لیے کام کرنا ہے، امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں، اُس کی ضرورت یہی ہے کہ جہاد میں یا اسفار میں جہاں بھی نماز کا وقت ہوجائے تو وہیں پر اذان دیں اور صحرا اور جنگل میں جہاں بھی ہیں، کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیں۔
اسی طرح زمین بھی طہور اور پاک بنا دی گئی کہ اگر کہیں پانی دستیاب نہیں ہے، تو اُمت کو اس بات کا حکم دے دیا گیا کہ وہ تیمم کرلے تو وہ پاک ہوگیا، اور نماز پڑھ لے۔
(3) ’’اُحِلّتْ لِيَ الغَنَائِم‘‘: میرے لیے مالِ غنیمت حلال قرار دیا گیا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس کی وضاحت میں بیان فرماتے ہیں کہ چوں کہ رسول اللہؐ کو دنیا کے تمام انسانوں تک اپنی دعوت پھیلانی ہے، تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ جو لوگ دور دراز کے علاقوں میں تعلیم و تربیت، جہاد اور جدوجہد کے لیے طویل اسفار اختیار کریں، تو اُن کے اخراجات ریاست اُٹھائے۔ وہ مالِ غنیمت بیت المال میں جمع ہو اور اُس کے ذریعے سے اُن کام کرنے والے لوگوں کی تنخواہیں اور وظائف دیے جائیں۔ اسی لیے مالِ غنیمت آپؐ اور آپؐ کی اُمت کے لیے حلال قرار دے دیا۔
(4) ’’بُعِثْتُ إلی النّاسِ کافّۃً‘‘: نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میری بعثت کل انسانیت کے لیے ہوئی ہے۔ پوری انسانیت کو درست کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد کی گئی ہے۔
(5) ’’اُعْطِیَتِ الشَّفَاعَۃ‘‘: مجھے تمام انسانیت کی شفاعت کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
ان پانچ چیزوں کا صحیح فہم اور شعور حاصل کرلیا جائے تو نبی اکرمؐ کی بعثت کا بنیادی مقصد اور ہدف سمجھ میں آجائے گا۔ بالخصوص آج کے اس دور میں حضور اقدسؐ کی ذاتِ گرامی سے وابستہ مسلمان ان اُمور کو سامنے رکھ لے تو مغلوبیت اور پستی کی اس حالت سے نکل کر ترقی اور کامیابی کے راستے پر داخل ہوجائے گا‘‘۔
جماعت ِصحابہ کرامؓ کی اجتماعی اور تاریخ حیثیت
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’نبی اکرمؐ نے دنیا میں بین الاقوامی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم تیار کی۔ اس جماعت کو تربیت دی۔ اس طرح صحابہ کرامؓ کی بھی بعثت ہوئی تھی۔ یہی حقیقت سمجھنے کی ہے۔ ہمارے ہاں ربیع الاوّل کے مہینے میں صرف ذاتِ قدسی صفات حضور اقدسؐ کی ذاتِ گرامی پر تو بڑی بات ہوتی ہے، لیکن آپؐ کی جماعتِ صحابہؓ پر گفتگو نہیں ہوتی، حال آںکہ جماعتِ صحابہؓ آپؐ کی نائب بن کر آپؐ کے مشن کو بین الاقوامی سطح پر غالب کرنے کے لیے مبعوث ہوئی ہے۔ یہ ’’بعثت‘‘ کا لفظ خود نبی اکرمؐ نے صحابہؓ کے لیے استعمال کیا ہے۔ حضوؐر نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو جب گورنر بنا کر یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: ’’إنَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ وَ لَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِین‘‘۔ تمھاری بعثت آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہوئی ہے، تمھاری بعثت اس لیے نہیں ہوئی کہ تم لوگوں کے لیے مشکلات کھڑی کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: 6128)
آج جو سب سے بڑے فتنے پیدا ہو رہے ہیں، وہ جماعتِ صحابہؓ کی اجتماعیت اور اُن کی جماعتی حیثیت کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے ہیں۔ حضوؐر کی محبت اور آپؐ کی شان میں مناقب کے تو بہت زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں، لیکن آپؐ کی جماعت کا تذکرہ ہی گول کردیا جاتا ہے۔ صحابہؓ کی عظمت دلوں سے نکال دی گئی۔ صحابہؓ کی اجتماعی طاقت اور قوت کو نظرانداز کردیا۔ بھئی! وہ صحابہؓ جو نبی اکرمؐ کے مشن کے آلہ کار بن کر آپؐ کی طرف سے مبعوث ہوئے اور آپؐ کی طرف سے پیغامبر بن کر بعثت کی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے جنھوں نے حضوؐر کے بعد بالخصوص قیصر و کسریٰ کو شکست دی اور دنیا کے چپے چپے پر پھیل کر دین کے غلبے کے لیے کردار ادا کیا، اُن صحابہؓ کا تذکرہ ہی غائب ہے۔ صحابہؓ کے تذکرے کے بغیر حضوؐر کی سیرت کیسے مکمل ہوسکتی ہے؟
صحابہ کرامؓؓ کے پاس بس منصبِ نبوت نہیں تھا، لیکن تمام وہ اُمور جو نبی اکرمؐ کی ذمہ داری پر تھے، آپؐ کے نائب اور خلفا بن کر انھوں نے انھیں دنیا میں غالب کرنے کے لیے کردار ادا کیا۔ اسی بنیاد پر ہی تو نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ’’عُلماء اُمّتي کأنبیاء بني إسرائیل‘‘کہ میری اُمت کے علما اور علما میں سب سے اونچے درجے کے اہلِ علم ابوبکر صدیق ہیں، عمر فاروق ہیں، عثمان غنی ہیں، علی المرتضیٰ، امیرمعاویہ ہیں اور عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ وہ فقیہ، سمجھ دار اور اولوالعزم لوگ ہیں، جنھوں نے دنیا بھر میں دین کے غلبے کے عملی نظام کے لیے سیاسی، معاشی، سماجی، علمی اور فکری حوالے سے انقلابی کردار ادا کیا۔ سیرتِ نبویؐ میں صحابہؓ کی اجتماعیت کو سمجھنا تبھی ممکن ہے کہ جب نبی اکرمؐ کی بین الاقوامی بعثت سمجھی جائے، اور اُس کے ذیل میں صحابہؓ کی بعثت سمجھی جائے۔ اگر صحابہؓ کی جدوجہد کا انکار کردیا جائے یا ایک صحابیؓ کی بات تو مانی جائے اور باقی صحابہؓ کی جماعت کی جدوجہد کو نظرانداز کردیا جائے تویہ سیرت نہیں ہے۔ یہ تو من پسند خواہشات کی بات ہے‘‘۔
حقیقی انقلاب اور رسول اللہ ﷺ کی انقلابی کاوشیں
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’حضرت امیرمعاویہؓ نے نبی اکرمؐ کی یہ حدیث نقل فرمائی ہے کہ’’الاسلام یعلو و لا یُعلیٰ علیہ‘‘(سنن دار قطنی، حدیث: 253) خبردار لوگو! رسول اللہؐ نے فرمایا: اسلام غالب ہوتا ہے، اسلام مغلوبیت کو قبول نہیں کرتا۔ آج مغلوبیت ہماری سوسائٹی پر مسلط ہے اور ہم نے اس مغلوبیت کو دین سمجھ کر قبول کر رکھا ہے۔ یہ کیسا دین ہوا؟ اگر ہم نبی اکرمؐ کی سیرت کو انقلابی نقطہ نظر سے نہیں سمجھتے تو پھر سیرت کا مکمل مفہوم بھی سامنے نہیں آتا۔ یہ بڑی بنیادی سی بات ہے۔
آج کل ایک بڑا فضول سا سوال کیا جاتا ہے کہ جی سارے مسلمان ہی تو ہیں، تو مسلمان معاشروں میں انقلاب لانے کا کیا مطلب ہے؟ کیا ان کو اسلام سے اٹھا کر کسی اَور طرف لانا ہے؟ عام طور پر جب بھی ’’انقلاب‘‘ کا لفظ بولا جائے تو لوگوں کے دماغ میں ایک ہی بات آتی ہے کہ جو انقلاب کی بات کر رہا ہوگا، وہ روسی ہوگا یا چینی ہوگا، کیوں کہ انقلاب روسیوں نے برپا کیا یا چینیوں نے۔ کیا روسیوں اور چینیوں نے ٹھیکہ اُٹھایا ہوا ہے کہ انقلاب صرف وہی لائے ہیں؟ انقلاب کہتے کسے ہیں؟ انقلاب نام ہے تبدیلی کا۔ کفر و شرک سے نکل کر توحید کی طرف آنے کا۔ انقلاب نام ہے ظلم سے نکل کر عدل کی طرف آنے کا۔ انقلاب نام ہے غلامی سے نکل کر آزادی اور حریت کی طرف آنے کا۔ انقلاب نام ہے بھوک اور غربت کو ختم کرکے معاشی خوش حالی پیدا کرنے کا۔ انقلاب نام ہے ظلم کی جھوٹی حکومت ختم کرکے عدل و انصاف کی سچی حکمرانی قائم کرنے کا۔ کیا یہ انقلاب رسول اللہؐ نے برپا نہیں کیا؟ آپؐ نے تو تئیس سال کی مدت میں اُس جزیرۃ العرب کی سیاست بدل دی، معیشت بدل دی، تہذیب بدل دی، ثقافت بدل دی، حکومت بدل دی، نظام بدل دیا۔ حضوؐر پر وحی آئی تو ابوجہل کی جہالت اور ظلم پر مبنی حکومت تھی۔ اور حضوؐر دنیا سے گئے تو حضرت ابوبکرؓ کی عدل و انصاف اور امن و امان اور توحید اور ایمان کی حکومت قائم ہوگئی۔ یہ انقلاب نہیں تو اَور کیا ہے؟ اَور انقلاب کس کو کہتے ہیں؟
کیا ظلم کی سیاہ رات مسلط رہنی چاہیے؟ کیا اس وقت دنیا میں عالمِ اسلام کے مسلمان ممالک کی کوئی سیاسی یا معاشی حیثیت ہے ؟ عالمی طاغوتی قوتوں نے افغانستان تباہ کردیا، کشمیر تباہ کردیا، بوسنیا تباہ کردیا، صومالیہ تباہ کردیا، افریقا میں مسلمانوں کی تباہی برپا کردی اور ابھی کہتے ہیں کہ جی مسلمانوں کو انقلاب کی ضرورت نہیں ہے۔ اصلاح کرتے ہوئے تو ڈھائی سو سال ہوگئے تمھیں۔ کوئی اصلاح ہوئی؟ کوئی تبدیلی آئی؟
دین انقلابی ہے اور نبی اکرمؐ کی سیرت بھی انقلابی ہے اور یہ انقلاب جماعتِ صحابہؓ کو مانے بغیر نہیں آسکتا۔ نبی اکرمؐ کی انقلابی جدوجہد اور سیرت کو اس تناظر میں سمجھنا مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ غفلت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ سیرت کے حوالے سے نبی اکرمؐ اور اُن کی جماعت کا انقلابی کردار سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت کے جامع پہلوؤں کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)‘‘۔
رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ
حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ کی کنیت ’’ابو خالد مکی‘‘ ہے۔ فاختہ بنت زہیر آپؓ کی والدہ اور اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپؓ کی پ…
حضرت فاطمۃ الزہرا
خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ آپؓ اعلانِ نبوت سے پہلے پیدا ہوئیں۔ آپؓ نے آغوشِ نبوت می…
غلبۂ دین کی نبوی حکمت عملی اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں
خطاب حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ (کہروڑ پکا میں بخاری چوک میں واقع جامع مسجد تالاب والی میں 14فروری 2009ء بروز ہفتہ کو عشاء کی نماز کے بعد سیرت النبی ﷺ…
حضرت جعفر بن ابو طالب عبد ِمناف قریشی ہاشمی رضی اللہ عنہٗ
آپؓ کا نام: جعفر، کنیت: ابوعبداللہ، والد کا نام: عبدِ مناف (ابوطالب) اور والدہ کا نام: فاطمہ تھا۔ آپؓ کا شجرۂ نسب یہ ہے: جعفر بن ابو طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدِ مناف ب…