رمضان المبارک انسانی ہمدردی کا مہینہ ہے

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اپریل 13, 2022 - خطباتِ جمعتہ المبارک
رمضان المبارک انسانی ہمدردی کا مہینہ ہے

۳؍ رمضان المبارک۱۴۴۲ھ / 16؍ اپریل 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’معزز دوستو!  رمضان المبارک کی بابرکت ساعات شروع ہوچکی ہیں۔ برکت والا یہ مہینہ ہم پر سایہ فگن ہوچکا ہے۔ اس مہینے کی عظمت خود نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ سال کے اندر کچھ مہینے اور کچھ دن ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے انوارات و تجلیات انسانیت کی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔ ماہِ رمضان المبارک میں عالم ملکوت سے دنیا کی طرف ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ گویا کہ ملائِ اعلیٰ کی طاقتیں اور قوتیں انسانی دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مسلمان جب صدقِ دل کے ساتھ اس مہینے کی عظمت اپنے دل میں پیدا کرتا ہے تو اسے اس کی برکات حاصل ہوتی ہیں۔ اس مہینے کے دن اور رات لوگوں کو اللہ کے ساتھ سچا تعلق قائم کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس طرح عالم ملکوت کا وہ دروازہ انسانی دلوں کو اپنی طرف ضرور کھینچتا ہے۔

یوں تو انسانیت کی ارواح ذاتِ باری تعالیٰ اور ’’حضرتِ الٰہیہ‘‘ کی طرف کھنچتی ہیں، لیکن روح پر جو گناہوں کی وجہ سے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور زنگ چڑھ جاتا ہے، اس کے نتیجے میں وہ کشش کم ہوجاتی ہے۔ کسی دل پر اگر زنگ چڑھ جائے تو اس میں اللہ کی طرف متوجہ ہونے کی صلاحیت اور استعداد میں کمی آجاتی ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اس زنگ کو دور کرنے کے لیے ہے۔ آپؐ نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات ارشاد فرمائی کہ: اس ماہِ مبارک میں چار چیزوں کی کثرت کرو: (1) اللہ کا ذکر، (2) اللہ سے اپنے گناہوں کا استغفار، (3) جہنم سے پناہ مانگنا اور (3) جنت الفردوس کی طلب کرنا۔

نبی اکرم ﷺ اس مہینے کے بارے میں یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ رمضان المبارک ’’شہر المواساۃ‘‘ یعنی انسانی ہمدردی کا مہینہ ہے۔ ہر انسان چاہے وہ کسی فرقے اور کسی نسل کا ہو، اس کے ساتھ خیرخواہی کی جائے۔ ایک ہے ’’موالات‘‘، جو صرف مسلمان جماعت کے ساتھ ہو اور ایک ہے ’’مواسات‘‘، ہمدردی اور خیرخواہی، جس میں دنیا کا ہر انسان شامل ہے۔ اگر وہ مظلوم ہے تو ظالم کا ہاتھ روک کر، اُس کو ظلم سے باز رکھ کر اُس مظلوم کے ساتھ ہمدردی کرنی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ظالم ہو یا مظلوم، اپنے بھائی کی مدد کرو‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد تو سمجھ آتی ہے، ظالم کی مدد کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: ظالم کی مدد اُس کو ظلم سے روکنا ہے۔ طاقت اور قوت کے ساتھ ظلم کے خلاف مزاحمت کرنا ہے۔ گویا انسانیت پر ہونے والے مظالم، انسانیت میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے کی فکر کرنا بھی اس مہینے کا بنیادی پیغام ہے‘‘۔

رمضان المبارک رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’نبی اکرم ﷺ نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ ماہِ رمضان المبارک کا پہلا حصہ رحمت، درمیانہ حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے نجات کا ہے۔ جو لوگ صدقِ دل کے ساتھ اللہ کے احکامات کے مطابق فرائض اور نوافل ادا کرتے ہیں، اور اس کے مطابق جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، اُن کے لیے یہ مہینہ اللہ کی رحمتوں کے نزول کا باعث بنتا ہے۔ رحمتوں کا نزول یہ ہے کہ اللہ کے انوارات و تجلیات کے دروازے کھلے ہوئے ہیں گویا کہ رحمتوں کا موسم اپنے جوبن پر ہے۔ اس موسم میں جتنے اچھے طریقے سے ہم اپنے نیک اعمال کی فصل کاشت کریں گے، اُتنا ہی وہ پھلے پھولے گی اور آگے بڑھے گی۔ اس کی مثال گندم کی فصل کی طرح ہے۔ یوں تو سال بھر میں کبھی بھی گندم زمین میں کاشت کرلیں، تو کچھ نہ کچھ اُگ آتی ہے، لیکن جو گندم کی بجائی اور اُس کی نشو و ارتقا کا اصل موسم ہے، اس میں جب بیج صحیح طریقے سے ڈالا جائے، تو فصل بہت عمدہ طریقے سے تیار ہوتی ہے۔ ایسے ہی دلوں کی کھیتیوں کو آباد کرنے کا مہینہ اور موسم رمضان المبارک ہے۔ اس ماہِ مبارک میں دلوں کے اندر اللہ کے ساتھ سچے تعلق کا بیج ڈال دیا جائے تو وہ برگ و بار لاتا ہے۔ دل اللہ کی طرف کھنچ رہے ہوتے ہیں۔ آسمان سے انواراتِ الٰہیہ کی بارش ہو رہی ہوتی ہے اور ہم اپنے دلوں کی سیپیوں کے منہ کھولیں تو ضرور کوئی نہ کوئی قطرہ ہمارے دل کے اندر داخل ہو کر ہیرا اور موتی بن سکتا ہے۔ وہ ایک جگمگاتا ہوا روشن ایسا نور ہے کہ جس کی روشنی میں ایک مسلمان نہ صرف اس دنیا میں انسان حق و باطل کی تمیز پیدا کرسکتا ہے، بلکہ وہ موتی، وہ نور، وہ روشنی آخرت میں بھی پل صراط پر گزرنے کے لیے معاون ثابت ہوگی۔ اب کون ہے، جس کے دل کی سیپی کھلی ہوئی ہے۔ کون ہے، جو اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرے۔ کون ہے جو اس دعا کو باربار پڑھے کہ: ’’اللّٰہمّ افتح مَسامِعَ قَلبِی لِذِکرِک‘‘ (اے اللہ! میرے دل کے کانوں کو اپنے ذکر کے لیے کھول دے۔) اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے کان کھولے، دل کی آنکھیں کھولے، دل کی عقل اور شعور کو کھولے ، ہمت اور ارادہ مضبوط بنائے۔ انسان کثرت سے وہ اعمال کرے، جس کے ذریعے سے وہ رحمت جو برس رہی ہے، بارش کے وہ قطرات جو ہمارے دلوں پر پڑ رہے ہیں، وہ برگ و بار لائیں۔ وہ ترقی کریں۔

اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے ایک اَور اہم بات فرمائی کہ اس ماہ مبارک میں جب انسان کوئی نفلی کام کرتا ہے تو یہ ایسے ہی ہے، جس آدمی نے باقی دنوں میں فریضہ ادا کیا ہو۔ اس مہینے میں نفلی عبادت کا اجر و ثواب اور اس کی اہمیت اور عظمت ایسے ہی ہے، جیسے ایک انسان غیررمضان میں فریضہ ادا کر رہا ہے۔ اور اس ماہِ مبارک میں فریضے کی ادائیگی کے بارے میں فرمایا کہ جس نے اس مہینے میں فریضہ ادا کیا، رمضان کا فرض روزہ رکھا، فرض نمازیں پڑھیں، باقی فرائض اُس نے ادا کیے، تو اس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے کسی آدمی نے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کیے۔ یہ بہت اہم بات ہے‘‘۔

اس مبارک مہینے میں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’ذرا ہم لوگ اپنے گزرے ہوئے رمضان کے مہینوں کا جائزہ لیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلے 70، 75 سالوں کے رمضانوں میں کیے گئے فیصلے دیکھ لیں۔ بہ طورِ قوم ہمارے فیصلے کیا رہے؟ ہم نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ 1947ء کے رمضان سے لے کر آج تک کے رمضانوں تک ہمارے اجتماعی ’’سیاسۃ الاُمّہ‘‘ سے متعلق فیصلوں کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ انسانی ہمدردی لیے ہوئے تھے؟ یا انسانوں کی قتل و غارت گری اپنے فیصلوں کے اندر چھپائے ہوئے تھے؟ ہمیشہ ایسے فیصلے کرتے رہے ہیں کہ جو سیاستِ اُمت کا نظم و نسق پیدا کرنے کے بجائے بدنظمی، بداَمنی، قتل و غارت گری، کوئی نہ کوئی جھگڑا، کوئی لڑائی، کوئی فتنہ، کوئی فساد پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ مہینہ ’’شہر المواساۃ‘‘ کا تھا، جس میں قتل و غارت گری اور خون کی ندیاں بہیں، انسانیت خوف زدہ ہوئی۔ اس کے بجائے انسانی ہمدردی کانظام ہونا چاہیے تھا۔

نبی اکرم ﷺ تو رمضان المبارک میں مکہ سے مدینہ منورہ جا کر یہودیوں، مشرکوں، اوس اور خزرج اور تمام قبائل کا ایک اجتماعی معاہدہ کرکے بلاتفریق رنگ نسل، مذہب امن و امان کا سسٹم بناتے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان مواسات اور باہمی خیرخواہی پیدا کرتے ہیں۔ صبر و استقامت اور حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔ لین دین اور معاملات میں عدل و انصاف کا سسٹم بناتے ہیں۔ اور رمضان المبارک میں ہی مکہ مکرمہ کے ظلم کے نظام کو توڑ کر تمام ظالموں کو معاف کرتے ہیں کہ ’’لا تثریب علیکم الیوم‘‘۔ (-12 یوسف: 92) آج تم پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں ہے۔ میںتمھیں اُف بھی نہیں کہتا۔ جاؤ میں تمھیں معاف کرتا ہوں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہر رمضان المبارک میں ہمارا کردار کیا رہا ہے؟ اس کا احتساب کون کرے گا؟

نبی اکرم ﷺ عدمِ تشدد کے اُصول پر امن و امان کا ایسا منصفانہ نظام بناتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر وہی سردار جو کل تک کفر میں ڈوبے ہوئے تھے، کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمان کرلیں۔ آپؐ ان سے پوچھتے ہیں کہ پہلے دن مسلمان کیوں نہیں ہوئے؟ انھوں نے کہا: ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ آپ نے جو مکہ فتح کیا ہے تو آپ کے ساتھی انسانیت کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ ہم نے دیکھا کہ آپ تو ہمارے لیے فرشتہ بن کر آئے ہیں۔ حال آں کہ ہم نے تئیس سال آپ کی مخالفت کی، آپ کو اذیتیں دیں، تکلیفیں دیں، اس کے باوجود آپ نے ہمیں معاف کردیا۔ صحابہؓ تو کہہ رہے تھے کہ ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘ آج گوشت کے کٹنے کا دن ہے، لیکن حضور ْﷺ نے فرمایا: نہیں! ’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘۔ یہ تو رحمت کا دن ہے۔ رمضان کا مبارک مہینہ ہے۔ یہ پہلا عشرہ ہے رمضان کا اور آپ ﷺ رحمت کا اثر ظاہر کر رہے ہیں کہ انسانیت کے لیے شفقت اور رحمت ہی رحمت ہے‘‘۔

اس مہینے میں معافی کے ساتھ تجدید ِعہد کی ضرورت ہے

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی روزہ رکھتا ہے اور روزہ رکھ کر جھوٹ بولنے اور جھوٹی بات پر عمل کرنے سے باز نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ کو ایسے روزے کی کوئی ضرورت نہیں۔ گویا کہ اُس نے صرف بھوک اور پیاس برداشت کی ہے۔ بس وہ بھوکا رہا ہے۔ اب بھوکا رکھنے کا تو ایک مقصد تھا کہ جس بھوکا رہنے سے جھوٹ بولنا رُک جائے، جھوٹ کے نظام کا ساتھ دینا چھوڑ دے، اس پر عمل کرنا چھوڑ دے۔ اگر ایسا نہیں کیا تو پھر اُس نے روزے سے کیا اثر لیا۔ اور اگر صبح سے شام تک بھوک پیاس برداشت کی، لیکن نہ جھوٹ کے نظام کا ساتھ چھوڑا، نہ غلط ماحول کا اثر چھوڑا، نہ باقی خرابیاں چھوڑیں تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو اس کے روزے کی ضرورت نہیں کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے۔ ایک ہی بات ہے۔ کیوں کہ اُس نے بڑی زیادتی کی ہے کہ روزے کا جو اصل مقصد تھا، وہ فوت کردیا۔

اسی طرح ایک آدمی نے رات کو جاگ کر عبادت کی، لیکن اُس نے فسق و فجور اور خرابیاں نہیں چھوڑیں، غلط فیصلے نہیں چھوڑے، وہ سیاستِ اُمت سے متعلق ہوں، یا تہذیبِ شخص اور تہذیبِ نفس سے متعلق ہوں، وہ نہیں چھوڑے تو اس کے رات کو جاگنے کا کیا فائدہ؟ جاگنا تبھی فائدہ مند ہے، جب اس کے نتیجے میں سوسائٹی کی ذمہ داریوں سے متعلق بہتر اثر ہو۔ ایک نتیجہ ظاہر ہونا چاہیے۔ ایک تبدیلی آنی چاہیے۔ کھرے کھوٹے میں تمیز پیدا ہوجائے۔ جھوٹ اور سچ میں تمیز پیدا ہوجائے اور جھوٹ، بددیانتی، حسد، کینہ، بغض، عداوت، انسان دشمنی کے اُمور سے انسان معافی مانگے۔ معافی یہ ہے کہ یہ لغزش یا غلطی یا اجتماعی جھوٹ اور اجتماعی نظام کا ہم حصہ دار رہے تو اس سے مغفرت مانگتے ہیں۔ آئندہ کبھی کسی جھوٹے نظام کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کسی جھوٹی پارٹی میں نہیں جائیں گے۔ کسی جھوٹے نظام کے آلہ کار نہیں بنیں گے۔ کسی جھوٹے فیصلے میں استعمال نہیںہوں گے۔ ہماری رائے کسی جھوٹ کے نظام کا حصہ دار نہیں بنے گی۔ پھر تو معافی ہے، اس استغفار کا ایک اثر اور نتیجہ ہوگا، لیکن اُسی سسٹم کے آلہ کار رہیں، اُسی سسٹم میں جھوٹ کا ساتھ دیتے رہیں، اُسی ظلم اور زیادتی کے نظام میں حصہ دار رہیں، اور روزے بھی رکھیں، تراویح بھی پڑھیں اور عبادات بھی کریں، اور بہ ظاہر تسبیحات بھی گھمائیں، استغفار بھی پڑھیں تو ایسے استغفار اور ایسے رمضان کے روزے کا کیا اثر ہوگا؟ رمضان المبارک کی عبادات اس عزم اور ارادے سے ہم ادا کریں کہ وہ باتیں جو نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کے متعلق ہمیں بتلائی ہیں؛ اعلیٰ اَخلاق، کردار، سیرت، نظریے کی بلندی، صبر و استقامت، مواسات، انسانی ہمدردی، خیرخواہی وغیرہ وغیرہ، یہ بھی ہم اس کے ذریعے سے پیدا کریں گے تو یقینا نبی اکرم ﷺ نے اس مہینے کی عظمت اور برکت کے حوالے سے جو بشارات بیان فرمائی ہیں، وہ ضرور حاصل ہوں گی‘‘۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش

عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز اپریل 10, 2022

رمضان المبارک کا روزہ چھوڑنے کا نقصان

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ _ رضی اللّٰہ عنہٗ _ رَفَعَہٗ: ’’مَنْ أَفْطَرَ یَوْماً فِيْ رَمَضَانَ، مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ یَقْضِہِ صِیَامُ الدَّھْرِ، وَإِنْ صَامَہٗ‘‘۔ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ ت…

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز مارچ 13, 2024

رمضان المبارک میں حضورﷺ کے دو خصوصی معمولات

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: ’’کَانَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُونُ فِي رَمَضَانَ حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ، وَکَانَ یَلْقَاہُ فِي کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُەُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّہِﷺ أَ…

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز مئی 11, 2021

احکام و مسائل رمضان المبارک

۱۔ ہر مسلمان مرد وعورت، عاقل، بالغ پر رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض ہے۔ ۲۔ شریعت میں روزے کا مطلب ہے کہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 15, 2024