امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ہم نے (پہلی اور دوسری ’’مباحث‘‘ میں) سزا و جزا کے اسباب و علل بیان کیے ہیں۔ پھر ہم نے (تیسری ’’مبحث‘‘ میں ان چار) ارتفاقات کا ذکر کیا تھا، جن پر انسانی زندگی فطری طور پر پیدا کی گئی ہے۔ اور وہ ہمیشہ سے ان کی زندگی میں جاری ہیں۔ کبھی جدا نہیں ہوتے۔ پھر ہم نے (چوتھی ’’مبحث‘‘ میں) حقیقی ترقی اور کامیابی اور انھیں حاصل کرنے کا طریقۂ کار بیان کیا تھا۔
)نیکی اور بدی کی حقیقت(
اب ہم ’’البِرّ‘‘ (نیکی) اور ’’الإثم‘‘ (برائی) کے معنی کی حقیقت بیان کرنے میں مشغول ہوتے ہیں۔ نیکی کی حقیقت:
(1) ہر وہ عمل ہے، جسے انسان ملائِ اعلیٰ کی فرماں برداری حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے آنے والے الہام میں اپنی جان گھلا دیتا ہے۔ اور حق تبارک و تعالیٰ کی مراد میں اپنے آپ کو فنا کردیتا ہے۔
(2) ہر وہ عمل ہے، جس پر انسان کو دنیا یا آخرت میں اچھا بدلہ اور انعام ملے۔
(3) ہر وہ عمل ہے، جس کے ذریعے سے اُن ارتفاقات کو درست طور پر سرانجام دیا جائے، جن پر انسانی نظام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
(4) ہر وہ عمل ہے، جو اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی حالت (یعنی اَخلاقِ اربعہ: طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت) کے لیے مفید ہو اور حجابات (حجابِ طبعی، حجابِ رسمی، حجابِ سوئِ معرفت) کو دور اور دفع کرے۔
بدی کی حقیقت:
(1) ہر وہ عمل ہے، جسے انسان شیطان کی فرماں برداری کو پورا کرنے کے لیے کرتا ہے۔ اور شیطانی مقاصد اور مراد کو پورا کرنے میں فنا ہوجاتا ہے۔
(2) ہر وہ عمل ہے، جو دنیا یا آخرت میں برے بدلے اور سزا کا مستحق بناتا ہے۔
(3) ہر وہ عمل ہے، جو ارتفاقات کے نظام میں فساد پیدا کرتا ہے۔
(4) ہر وہ عمل ہے، جو اللہ کی فرماں برداری سے متضاد حالت کو پیدا کرنے کا باعث بنے اور تینوں حجابات کو مضبوط اور پکا کرتا ہے۔
)نیکی حاصل کرنے کا طریقۂ کار)
جیسا کہ ارتفاقات کے طور طریقوں کو سب سے پہلے فہم و بصیرت رکھنے والے باخبر لوگ سمجھتے اور سمجھاتے ہیں، پھر عام لوگ اپنے دلوں کی گواہی دے کر ان کی اتباع کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان پر تمام اہل زمین متفق ہوجاتے ہیں، یا کم از کم انسانوں کی اکثریت ارتفاقات کے ان جدید طریقوں پر عمل پیرا ہوجاتی ہے۔
اسی طرح نیکی حاصل کرنے کے بھی ایسے طریقے ہیں، جنھیں اللہ تبارک و تعالیٰ ایسے لوگوں (انبیا علیہم السلام) کے دلوں میں الہام کرتا ہے، جنھیں نورِ مَلَکی کی پوری تائید حاصل ہوتی ہے۔ ان پر فطرتِ انسانیت کا بنیادی خُلق غالب ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ شہد کی مکھیوں کے دلوں میں شہد بنانے سے متعلق اُمور اور اُسے جمع کرنے کا طریقۂ کار الہام کیا جاتا ہے۔ پھر وہ (انبیا علیہم السلام) ان طریقوں کو جاری کرتے ہیں۔ انھیں مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیتے ہیں۔ لوگوں کو اس کی ہدایت دیتے ہیں۔ انھیں اس پر اُبھارتے ہیں۔ پھر عام لوگ اُن کی پیروی کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ نیکی کے ان اصولوں پر زمین کے تمام علاقوں کی ملتیں اور اقوام متفق ہوجاتی ہیں۔ باوجود اس بات کے کہ اُن کے علاقے اور شہر ایک دوسرے سے بہت دور، اُن کے مذاہب اور ادیان میں بہت اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ پھر بھی فطری مناسبت اور نوعِ انسانی کے تقاضے سے وہ نیکی کے ان بنیادی اُصولوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔
ان اصولوں پر اتفاق کے بعد یہ بات کچھ نقصان دہ نہیں ہے کہ اُن پر عمل درآمد کرنے کی صورتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور نہ ہی پیدائشی طور پر ناقص اور ابنارمل انسانوں کی مخالفت سے اس اتفاق میں کوئی خلل واقع ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اگر صاحبِ بصیرت لوگ ان لوگوں کے بارے میں غور و فکر کریں تو انھیں اس بارے میں کوئی شک نہیں ہوتا کہ پیدائشی طور پر اُن کی ساخت میں انسانوں کی صورتِ نوعیہ کی اصل حقیقت نہیں پائی جاتی۔ اور نہ ہی اُن میں انسانیت کے تقاضے اور اُن کے احکامات پورے طور پر موجود ہیں۔ وہ انسانوں میں ایسی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے جسم میں کوئی زائد عضو ہوتا ہے (جیسا کہ کسی کے ہاتھ یا پاؤں کی چھ اُنگلیاں ہوں)۔ ایسے عضو کو جسم سے دور کرنا، اُس کو باقی رکھنے سے زیادہ خوب صورت ہوتا ہے۔
(نیکی کے اصول پھیلنے کے اسباب)
نیکی کے ان طریقوں کے پھیلاؤ کے بڑے اسباب ہوتے ہیں اور محکم تدبیرات اور طریقۂ کار اختیار کیے جاتے ہیں۔ ان اسباب اور تدبیرات کو وہ حضرات احکامات کی صورت میں متعین کرتے ہیں، جن کو وحی الٰہی کے ذریعے سے اللہ کی پوری تائید حاصل ہوتی ہے __ صلوات اللہ علیہم/اللہ اُن پر رحمت بھیجے__ ۔ یہ حضرات انبیا علیہم السلام انسانوں پر بہت بڑا احسانِ عظیم کرتے ہیں۔ ہمارا اِرادہ یہ ہے کہ:
(1) ہم ان طور طریقوں کے بنیادی اُصول سے تمھیں باخبر کریں۔ یہ اصول وہ ہیں، جن پر بڑی قوموں کے جمہور مہذب ممالک کا اتفاق ہے۔ ان اصولوں پر ہر ایک قوم __ خواہ عرب ہو، غیر عرب ہو، یہودی ہو، مجوسی ہو، ہندو ہو __ کے اللہ کو ماننے والے، بادشاہ اور درست رائے رکھنے والے حکما سبھی متفق ہیں۔
(2) ہم ان اصولوں پر عمل درآمد کے طریقوں کی تشریح بھی کریں گے کہ جس سے انسان کی قوتِ بہیمیہ، قوتِ ملکیہ کی فرماں بردار بن جائے۔
(3) ہم ان اصولوں کے کچھ فوائد بھی بیان کریں گے، جیسا کہ ہم نے ان اصولوں کا اپنے اوپر ایک سے زیادہ مرتبہ تجربہ کیا ہے اور اس کی طرف عقلِ سلیم رہنمائی دیتی ہے۔
(مبحث البرّ و الاثم:مقدمہ فی بیان حقیقۃ البرّو الاثم)
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار (6)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قضائے خداوندی نہیں ٹلتی، مگ…
تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…
چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…