

مکہ مکرمہ اور بیت اللہ الحرام ؛ انسانیت کا ماڈل شہری نظام
گزشتہ آیت (-2 البقرہ: 125) میں امامِ انسانیت حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی طرف سے ’’ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ‘‘ کی تعلیم و تربیت اور اُس کی نشر و اِشاعت کے لیے انسانیت کی ترقی کے مرکز ’’بیت اللہ الحرام‘‘ کا مقصد بیان کیا تھا۔
ان آیت (-2 البقرہ: 127-126) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُن دعاؤں کا ذکر ہے جو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اس مرکزِ انسانیت کی سرزمین ’’مکہ مکرمہ‘‘ کے ماڈل شہری نظام اور ’’بیت اللہ الحرام‘‘ کی تعمیر و ترقی اور اس کی قبولیت کے لیے کی تھیں ۔
﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا ﴾ ( اور جب کہا ابراہیم نے: اے میرے ربّ! بنا اس کو شہر اَمن کا): حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سرزمین میں ایک ایسے شہری نظام کی دعا فرمائی کہ جس میں انسانیت کے لیے اَمن و اَمان قائم ہوا۔ اس دعا کی معنویت یہ ہے کہ ایک تو اس سرزمین کو ’’بلدًا‘‘ ایک شہری تمدن کی صورت بنا دیا جائے، جہاں ’’مثابۃ للناس‘‘دور دور سے لوگ آئیں اور اَمن و اَمان کے ساتھ اسے اپنا ٹھکانہ بنائیں ۔ اور دوسرے یہ کہ یہ شہری نظام ’’آمِنًا‘‘ ہر قسم کی بداَمنی اور خوف و دہشت سے پاک اور اَمن و اَمان کا حامِل ہو۔ یہ واقعی حقیقت ہے کہ شہری تمدن افراد کی قومی تہذیب و تشکیل سے وجود میں آتا ہے، اور ’’ارتفاقِ ثالث‘‘ سے متعلق تمام سیاسی، معاشی اور سماجی ضروریات انسانی رفاقت اور امن و امان کے ساتھ سرانجام پائیں ۔ دنیا بھر میں سیاسی نظام‘ اَمن و اَمان کے قانونی نظام ’’لاء اینڈ آرڈر‘‘ کے نفاذ سے قائم ہوتے ہیں ۔ گویا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے توحیدِ الٰہی پر مبنی دینِ حنیفی کی اَساس پر انسانیت کی ترقی کا ایک ماڈل شہری نظام وجود میں لانے کی دعا کی ہے۔
﴿وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ﴾ ( اور روزی دے اس کے رہنے والوں کو میوے، جو کوئی ان میں سے ایمان لاوے اللہ پر اور قیامت کے دن پر): حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا دوسرا جز یہ ہے کہ اس شہری نظام میں اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو وافر مقدار میں رزق فراہم کر۔ کسی شہری نظام میں جہاں انسانیت کی جان، مال، عزت وآبرو کے تحفظ پر مبنی امن واَمان کا نظام قائم کرنا ضروری ہوتا ہے، وہیں اُس شہر میں بسنے والی آبادی کے لیے معاشی وسائل کی وافر فراہمی بھی ضروری ہوتی ہے۔ کوئی شہری تمدن انسانی معاشی احتیاجات اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وافر رزق کی فراہمی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔
﴿قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴾ (فرمایا: اور جو کفر کریں ، اس کو بھی نفع پہنچاؤں گا تھوڑے دنوں ، پھر اس کو جبراً بلاؤں گا دوزخ کے عذاب میں ، اور وہ بُری جگہ ہے رہنے کی): حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا کے دوسرے جز میں کافروں کو شامل نہیں کیا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو ’’ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ‘‘ کو نہیں بھی مانتے اور اُس کے منکِر ہیں ، انھیں بھی دنیا میں تو زندہ رہنے کے لیے رزق کی فراہمی جاری رہے گی، تاکہ دعوتِ دینِ حنیفی کا سلسلہ جاری رہے۔ اور جو عقل مند اِنسان‘ اَمن واَمان اور معاشی خوش حالی پر مشتمل اس شہری تمدن اور اس دین کی انسان دوست تعلیمات کا مشاہدہ کریں تو وہ بت پرستی پر مبنی گمراہ ملتوں سے نجات حاصل کرکے ’’ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ‘‘ کے حلقہ بگوش ہوجائیں اور دُنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کریں ۔ البتہ وہ لوگ جو اِن تمام تر باتوں کو سمجھنے کے باوجود کفر پر اڑے رہے اور ظلم و زیادتی کے ماحول اور نظامِ زندگی کو قائم رکھا، انھیں ضرور جہنم میں گھسیٹ کر ڈال دیا جائے گا اور وہ جہنم بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ گویا کہ دنیا میں معاشی وسائل کی فراہمی بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب ہونا ضروری ہے۔
﴿وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ﴾ (اور یاد کر جب اُٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل ): حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ مکرمہ میں اَمن و اَمان اور معاشی خوش حالی پر مبنی ترقی یافتہ شہری تمدن کی دعا اور اُس کے پختہ عزم اور ارادے کے ساتھ اس شہر کی پہلی عمارت ’’بیت اللہ الحرام‘‘ کی صورت میں تعمیر کی۔
تمام انسانیت کو بتلایا جا رہا ہے کہ وہ منظر یاد کرو جب امامِ انسانیت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر بیت اللہ الحرام کی بنیادیں اُٹھائی تھیں اور اس شہری نظام کو قائم کرنے کے لیے اس مرکز کی تعمیر و تشکیل کی تھی۔ اس پس منظر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تمام اولاد؛ اسرائیلی اور اسماعیلی شاخوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تمھارے آباؤ اجداد کا اصل مرکز یہ ’’بیت اللہ الحرام‘‘ ہے۔
’’ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ‘‘ کی تمام تر ترقیات اور کامیابیاں اسی مرکز کی مرہونِ منت ہیں ۔ اور نہ صرف اس ملت کے، بلکہ تمام الٰہی تعلیمات کے حامِل انبیا علیہم السلام اور اُن کے حواری اور الہاماتِ الٰہیہ کے حامل افراد یہیں سے رہنمائی لیتے رہے ہیں اور دنیا بھر میں دینِ حنیفی کے پھیلاؤ کے لیے کام کرتے رہے ہیں ۔ اور جب بھی طبیعاتی تجربات اور علمِ نجوم پر مشتمل ملتِ صابئین کے حامل انسانیت دشمن لوگوں نے اُن کی بات ماننے سے انکار کردیا اور انھیں ایذائیں پہنچائیں تو زمانۂ قدیم سے ہی وہ انبیا علیہم السلام اسی سرزمین میں آکر یکسوئی سے اللہ کی عبادت کرتے رہے، حتیٰ کہ انھوں نے یہیں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کی۔ یہ جگہ ہزاروں انبیاؑ کا مدفن رہی ہے۔ یوں اُن اولوالعزم انبیاؑ کی عقلی اور قلبی ہمتوں کا یہاں اجتماع رہا ہے اور عرشِ الٰہی کے نیچے فرشتوں کے مرکز ’’حظیرۃ القدس‘‘ کی توجہات بھی یہاں بغیر کسی اِنقطاع کے جاری رہی ہیں ۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ (اور دعا کرتے تھے: اے پروردگار ہمارے! قبول کر ہم سے، بے شک تو ہی ہے سننے والا، جاننے والا): مکہ مکرمہ کے پُرامن شہری نظام اور خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس کام کی قبولیت کی اُس ذاتِ الٰہی سے دعا کی، جو بہت زیادہ توجہ سے دعاؤں کو سننے والا اور اپنے دین کے پھیلاؤ کی قلبی عزم اور بلند نیتوں کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
تعلیماتِ انبیاؑ قوموں کو زندہ اور عقل مند بنا دیتی ہیں
وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72) (اور جب مار ڈالا تھا…