غلامی کے بھی کئی ڈھنگ ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ کسی کو قید ہی کرلیا جائے تو وہ غلام قرار پائے گا۔ گزشتہ اڑھائی سو سال میں جہاں ہمارے آقاؤں نے اجارہ داری اور آدابِ حکمرانی سیکھے ہیں، وہاں ہم جیسی اقوام نے آدابِ غلامی میں ترقی کی ہے۔ پہلے براہِ راست حکمرانی اور وسائل پر قبضے کا دور تھا۔ پھر پوری دنیا میں آزادی کی تحریکات نے اس قسم کی حکمرانی کا ناطقہ بند کردیا۔ اس کے بعد سے بالواسطہ حکمرانی کا انداز پنپ رہا ہے۔ جدید دور میں تو غلام اقوام کو محدود ترقی اور کامرانی سے بھی ہم کنار کردیا گیا ہے۔ پاکستان کا انداز ِغلامی اب بدل کر نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ دنیا بڑی تیزی سے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت میں جا رہی ہے۔ ایسے میں پرانا طرز ِحکمرانی دراصل عالمی نظام کے لیے سوٹ ایبل نہیں رہا۔ وہ قومی نظام جو عالمی سامراجی نظام کے تقاضے پورا نہیں کرسکتا، اب زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ ہمارے جیسے ممالک میں تو صدر یا وزیر اعظم دراصل طاقت و قوت کا منبع تصور کیے جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے ہم آج تک نوابی دور سے نہیں نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی مرکزی حکومتوں پر ان گناہوں کا بار بھی ڈال دیتے ہیں، جو صوبائی حکومتوں نے کیے ہوتے ہیں، لیکن ترقی یافتہ دنیا میں نظام کو چلانے کا انداز ادارہ جاتی ہوچکا ہے۔ چناںچہ جس طریقے سے انسانی جسم کام کرتا ہے، جہاں کئی ضروری اُمور جسم کے اعضا خود کار طریقے پر بروئے کار لے آتے ہیں اور ان کے مخصوص کاموں میں انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، اسی طرح آج کے دور میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے تابع مملکت کے کچھ امور ایسے ہوتے ہیں، جن میں مقامی حکمرانوں کو کوئی دخل نہیں ہوتا اور ان ضروری حکومتی اُمور کو اپنے مفاد کی قانون سازی کے ذریعے مستقل بنیادوں پر کام جاری رکھنے کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے، تاکہ وسیع تر عالمی مفاد جیسے لین دین، تجارت، تعلیم و تربیت اور رابطہ وغیرہ جیسے اُمور کسی حکومت کے آنے اور جانے سے رُکنے نہ پائیں۔
آئی ایم ایف کے اکیس مالیاتی پروگراموں کے دوران ان عالمی اداروں نے تدریجاً یہی کیا ہے۔ چناں چہ ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، نادرا، ایف آئی اے، پاسپورٹ آفس وغیرہ کو ان عالمی مالیاتی اداروں کی معاونت سے تدریجاً جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے۔ یہ ایک نہ رُکنے والا سلسلہ ہے۔ کروڑوں ڈالر کی امداد برائے شعبہ جاتی درستگی اور پھرFATFکی تلوار سمیت یہ ادارے مل کر ہماری جدید غلامی کے راستے ہموار کر رہے ہیں۔ سیاسی حکومتیں اپنی لوٹ مار اور عوامی سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے عالمی اداروں سے بے پناہ قرض لیتی رہی ہیں۔ انھوں نے اس پر بھی بس نہیں کیا، بلکہ مقامی بینکوں، اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس سے بھی کام نہ چلا تو نوٹ چھاپ لینے کے عمل کی انتہا کردی گئی۔ اس کا نتیجہ مقامی سرمایہ دار اور مقامی منڈیوں پر براجمان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سیاسی صف بندی کا حصہ بن کر بھگتا۔ اب ان سرمایہ داروں کو مزیدبڑے کام کرنے ہیں اور انھیں مقامی نظام اور ذیلی صف بندیوں میں نہیں الجھنا۔
چناں چہ ان سرمایہ داروں کے لیے کھیل کے طریقے وضع کیے جارہے ہیں اور ان طریقوں کو قانونی تحفظ دینے کی تیاری ہے۔ ایک حوالے سے دیکھا جائے تو یہ درست بھی ہے۔ کیوںکہ سیاسی صف بندی کی قیمت بالآخر عوام سے ہی وصول کی جاتی ہے، جو آج کے دور میں چین اور دیگر قوتوں کے ساتھ مقابلے کے حوالے سے مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس لیےAutonomous(خود مختار) اور آزاد اِداروں کے دور کا آغاز کیا جاچکا ہے کہ تنازعے کی صورت میںجلد فیصلہ ہو، معاملہ آگے بڑھے اور حکومتیں عوامی مقبولیت حاصل کرنے یا اپنی کرپشن کی خاطر و سائل فراہم کرنے کے لیے نوٹ نہ چھاپیں، یا بے پناہ قرض نہ لیں، یا مخصوص صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ اور مراعات نہ دیں، بلکہ یہ سب کام برابری کی سطح پر ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت کو ٹاسک دیا تھا، جو اس نے بہترین انداز میں سرانجام دیا ہے۔ اس کے ثمرات کو دوام بخشنے کے لیے اور گزشتہ ادوار کے عاقبت نااندیش فیصلہ سازوں سے مستقبل میں بچے رہنے کے لیے اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے کے حوالے سے مہم کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ یہ عمل یقینا ہماری معاشی غلامی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا، لیکن پاکستان جس کی مقتدرہ ایک بازیچۂ اَطفال سے کم نہیں۔ اس کی معاشی بے راہ رویوں سے تنگ آکر ہمارے آقا نے یہی کرنا تھا۔ چناں چہ اب ہمارا مرکزی بینک ایک متوازی حکومت کے طور پر سامنے آئے گا، جس میں ملکی مانیٹری پالیسی اور شرح سود، کرنسی کی قدر، نوٹوں کی چھپائی، حکومت کو قرض وغیرہ اب ایک طے شدہ قاعدے سے ہوگا۔ اس کے بروئے کار آنے کا سراسر تعلق عالمی مالیاتی نظام سے جڑا ہوگا، جس میں مقامی سیاسی و معاشی پالیسی ثانوی حیثیت اختیار کرلے گی۔
ترقی یافتہ دنیا کے مرکزی بینک اپنے ملکوں کے فائدے کے لیے آزاد اور خود مختار ہیں۔ ان میں قابلِ ذکرامریکا، جرمنی، یورپی یونین، روس، بھارت، اسرائیل، اٹلی، یونان ترکی وغیرہ شامل ہیں۔ برطانوی مرکزی بینک مکمل آزاد ادارہ نہیں ہے، جہاں شرح سود کے تعین جیسا اہم فیصلہ یہ خود نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ چین اور ایران قابلِ ذکر ہیں، جن کے مرکزی بینک اپنے مقامی قوانین کے تابع ہیں۔ مرکزی بینک کی آزادی ایک ایسی بحث ہے، جو قریباً ڈیڑھ صدی سے جاری ہے۔ جہاں یہ بینک آزاد ہیں، وہاں حکومتیں اپنی مشکلات اور ناکامیوں کا بار ان پر ڈالتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جہاں یہ بینک مقامی پالیسی کے تابع ہیں، وہاں کرنسی کی مصنوعی قدر، افراطِ زر وغیرہ بروئے کار آتے ہیں۔ چوں کہ پاکستان ایسے بڑے فیصلے خود کرنے کا عادی نہیں، اس لیے طے یہ پایا ہے کہ ہمارا مرکزی بینک آزاد ہوگا اور ہماری مقتدرہ کو اسٹیبلشمنٹ، موسمی صورتِ حال اور قدرت کے علاوہ اسٹیٹ بینک بھی میسر ہوگا، جن پر وہ اپنی ناکامیوں کا بار ڈال سکیں گے۔ یاد رہے! یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ اسٹیٹ بینک کے ایکٹ میں ترمیم کی جارہی ہے۔ اس سے قبل چار دفعہ ایسا کیا جا چکا ہے، لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ ہمیں اپنی غلامی کا احساس ہوا ہے۔
ٹیگز
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
گھر بنانے کا خواب
پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ …
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…
عالمی مالیاتی بحران ابھی ٹلا نہیں
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ مشترکہ سرمائے کی طاقت سے ان کمپنیوں نے برصغیر، مشرقِ بعید اور چین میں سترہویں اور اٹھار…