اخلاص کی اہمیت اور رِیاکاری کی مذمت

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مئی 21, 2024 - افکار شاہ ولی اللہؒ
اخلاص کی اہمیت اور رِیاکاری کی مذمت

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’جاننا چاہیے کہ نیت روح ہے اور عبادت جسم ہے۔ جسم بغیر روح کے زندہ نہیں رہتا۔ بدن سے جدا ہونے کے بعد روح زندہ رہتی ہے، لیکن زندگی کے کامل آثار بغیر بدن کے ظاہر نہیں ہوتے۔ اسی لیے:

(1)         اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’اللہ کو نہیں پہنچتا اُن کا گوشت اور نہ اُن کا لہو، لیکن اس کو پہنچتا ہے تمھارے دل کا ادب‘‘۔ (-22 الحج: 37)

(2)         اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’إنّما الأعمالُ بالنِّیّات‘‘ (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے)۔ (متفق علیہ، مشکوٰۃ، حدیث: 1)

نبی اکرم ﷺ نے بہت سے مقامات پر بیان فرمایا کہ جس آدمی نے کوئی عمل کرنے کی نیت کی ہو اور کسی رُکاوٹ کی وجہ سے وہ عمل نہ کرسکا ہو، اُس آدمی سے تشبیہ دی ہے کہ جس آدمی نے واقعی وہ عمل کیا ہے۔ مثلاً:

(1)         کسی ایسے وِرد اور وظیفے کی پابندی کرنے والے مسافر اور مریض حالتِ سفر اور مرض میں اُس وِرد کی پابندی نہ کرسکے ہوں تو اُن کے نامۂ اَعمال میں وہ عمل لکھ دیا جاتا ہے۔

(2)         اسی طرح وہ آدمی کہ جو مال کے خرچ کرنے کا پختہ عزم رکھتا ہو، لیکن اپنی محتاجگی کی وجہ سے ایسا نہ کرسکا ہو تو اُس کے نامۂ اَعمال میں بھی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ گویا کہ اُس نے مال خرچ کیا۔

(نیت کی تعریف اور حقیقت)

نیت سے میری مراد یہ ہے کہ کسی عمل پر اُبھارنے والی وہ معنویت کہ جس میں:

(أ)           اُن باتوں کی تصدیق ہوتی ہو، جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبانی خبر دی ہے کہ فرماں بردار کو یہ ثواب ملے گا اورنافرمان کو یہ سزا ملے گی۔

(ب)        یا ایسی دلی محبت پیدا ہو کہ اللہ نے جن کاموں کے کرنے یا جن کاموں سے رُکنے کا حکم دیا ہے، انھیں دل وجان سے تسلیم کرے اور اُن کے مطابق عمل کرے۔

(احادیث میں ریاکاری کی مذمت)

یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا عمل کرنے سے منع فرمایا ہے، جو ریاکاری کے طور پر کسی کو دکھانے اور سنانے کے لیے کیا جائے۔ آپ ﷺ نے بڑی صراحت کے ساتھ ان دونوں کاموں کی بُرائی بیان کی ہے۔ اسی سلسلے میں درجِ ذیل احادیث ہیں:

(1)         آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن سب سے پہلے تین آدمیوں کا فیصلہ کیا جائے گا: (۱) وہ آدمی جو جہاد میں اس لیے قتل ہوا تاکہ اُس کے بارے میں لوگوں میں یہ بات کہی جائے کہ وہ بڑا بہادر آدمی تھا۔ (۲) وہ آدمی جس نے اس لیے علم حاصل کیا اور لوگوں کو تعلیم دی کہ یہ کہا جائے کہ وہ بڑا عالم ہے۔ (۳) وہ آدمی جس نے اس لیے لوگوں میں مال خرچ کیا، تاکہ لوگ کہیں کہ وہ بڑا سخی ہے۔ ان تینوں کو چہروں کے بَل گھسیٹ کر جہنم میں پھینکنے کا حکم دیا جائے گا‘‘۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 205)

(2)         رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں (دوسرے) تمام شریکوں کے مقابلے میں شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے جس میں وہ میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اَور کو بھی شریک کرے تو میں اس کو اس شریک کے حوالے کردیتا ہوں، جس کو اُس نے شریک ٹھہرایا‘‘۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 5315)

(اچھے اعمال پر لوگوں میں تعریف ہونے سے متعلق احادیث کا مطلب)

(1)         جہاں تک حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت کردہ اس حدیث کا تعلق ہے، جس میں آپؐ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! آپ کی اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے، جس نے خیر کے کاموں میں سے کوئی کام کیا ہو اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہوں؟ تو آپؐنے فرمایا: ’’یہ مسلمان کے لیے دنیا میں خوش خبری ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ، حدیث: 5317)

                اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب مؤمن کے عمل کرنے کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہو اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس عمل کو زمین میں قبولیت بخشی ہو اور اس وجہ سے لوگ اُس انسان سے محبت کرتے ہوں۔

(2)         اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اقدس ﷺ سے پوچھا: یارسول اللہ! میں اپنے گھر میں اپنے مصلے پر نماز پڑھ رہا تھا، اتنے میں ایک آدمی میرے گھر میں داخل ہوا، اُس نے مجھے نماز کی اس حالت میں دیکھا تو مجھے اچھا لگا۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’اے ابوہریرہ! اللہ آپ پر رحم کرے، آپ کو دو اَجر ملیں گے: ایک تو یہ کہ تم نے خفیہ طور پر تنہائی میں نماز پڑھی اور دوسرے یہ کہ تم نے نیکی کا ایک کام اعلانیہ طور پر کیا‘‘۔ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ، حدیث: 5322)

                اس حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ کا نماز کی اپنی اس حالت کو اچھا سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے عمل صرف اچھا سمجھنے کی نیت سے نہیں کیا، بلکہ یہ اچھا سمجھنا عمل پر غالب ہونے کے بجائے مغلوبیت کی صورت رکھتا ہے کہ ازخود ہوگیا۔

                جہاں تک آپؐ نے ’’اجر السِّرّ‘‘ (تنہائی کے عمل کا اجر) بیان کیا ہے تو اس سے مراد وہ اخلاص اور للہیت ہے، جو کسی کام کو چھپ کر کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور ’’اجر العَلانیّۃ‘‘ (اِعلانیہ اجر) کا مطلب یہ ہے کہ دین کو غالب کرنے اور سنتِ راشدہ کے پھیلاؤ اور فروغ کا اجر بھی ملے گا کہ دیکھنے والے لوگ اُس اچھے عمل کو دیکھ کر اُس پر عمل کریں گے‘‘۔

(أبواب الإحسان، باب: 3، بقیّۃُ مَباحث الإحسان)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

سماحت ِنفس: انسانیت کا تیسرا بنیادی خُلق

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) تیسرا اصول ’’سماحتِ نف…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اکتوبر 10, 2021

احسان و سلوک کی ضرورت اور اہمیت  (1)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ شریعت نے انسان کو سب سے پہلے حلال و حرام کے حوالے س…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 10, 2021

کائنات میں موجود کثرتِ اشیا کی حقیقت!

رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور 15؍ جنوری 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 17, 2021

شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری

رحیمیہ مطبوعات لاہور کی طرف سے شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری تصنیفاتِ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تحقیق و شرح کے ساتھ عمدہ اشاعت حضرت اقد…

ایڈمن اکتوبر 13, 2022