

رمضان المبارک کیسے گزاریں؟
۲۶؍ شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ/ 8؍ مارچ 2024ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہورمیں خطبہ جمعتہ المبارک دیتے ہوئے فرمایا:
’’معزز دوستو ! رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ یہ ماہِ مبارک ہم مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ نے انسانیت کو دنیا اور آخرت میں کامیاب بنانے کے لیے جن اُمور کا پابند بنایا ہے، اُن میں ایک‘ اس خاص ماہِ رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے۔ اس پورے مہینے میں ہم اللہ کی طرف متوجہ ہوکر، اس کے حکم کے مطابق دن میں روزے رکھیں اور رات میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر قرآن حکیم کی تلاوت میں مشغول رہیں۔ یہ ہماری تربیت و تزکیے اور ہمیں مہذب بنانے کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مبارک میں نہ صرف ہماری روح کو پاکیزہ بنانے کا عمل کیا جاتا ہے، بلکہ اس رمضان المبارک کے بابرکت ایام اور بابرکت راتوں کے ذریعے سے ہمارے اجتماع اور سوسائٹی کی تہذیب و تشکیل بھی کی جاتی ہے۔ انسان چوں کہ ایک اجتماع میں رہتا ہے، جب تک کوئی اجتماع درست نہ ہو، مسلمان درست نہیں ہوتے۔ مسلمان جہاں تک اس کی اپنی ذات کا معاملہ ہے، وہاں بھی اُسے مہذب بننا ہے، جہاں تک اُس کے خاندان کا معاملہ ہے، خاندانی اجتماعیت میں بھی ایک تہذیب یافتہ فیملی سسٹم میں رہنا ہے۔ کسی شہر کا یا ملک کا قومی سطح کا کوئی نظام وجود میں آنا ہے تو وہ بھی اُس قوم کے تمام افراد کی تہذیب سے عبارت ہے کہ وہ مہذب بنیں۔ اور اسی طرح وہ مسلمان جو بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک اور علاقوں اور اقوام میں رہتے ہیں تو انسانیت کا بین الاقوامی نظام بھی مہذب ہو۔ گویا تہذیبِ انسانیت میں رمضان المبارک کا بڑا بنیادی کردار ہے۔
تہذیب اس لیے ضرور ہے کہ انسان میں اگر تہذیب نہ ہو تو وہ درندہ بن جاتا ہے۔ غیرمہذب انسان‘ حیوانیت کی سطح پر اُتر آتا ہے۔ انسانیت کا مقام نہیں پاتا، اُس سے اُنس و محبت ختم ہوجاتی ہے۔ جانوروں کی طرح سفاکیت اور ظلم، بے انصافی اور انسان دشمنی اُس میں پائی جاتی ہے۔ جب کہ ایک انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ اُس میں اُنس ہو۔ ایک دوسرے سے محبت اور یگانگت ہو۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا جذبہ ہو۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے خالق و مالک ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے، اُس کے انعامات کا شکر ادا کرنے اور اُس کی پیدا کی ہوئی مخلوق کے ساتھ عدل و انصاف کا تعلق قائم کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔ انسانیت نام ہی اس ذہنی شعور، قلبی جذبے اور نفسی تقاضے کا ہے۔ غیرمہذب انسان‘ انسانی معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں رہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ معاشرہ غیرمہذب ہوتا ہے کہ جس میں باقی انسانوں کے لیے عدل، امن اور معاشی خوش حالی نہ ہو۔ اُن کی سیاسی، معاشی اور سماجی ضروریات پوری نہ ہوں۔ انسان دوستی کا جذبہ نہ ہو‘‘۔
رمضان المبارک اور معاشرتی تقاضے
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’انسانیت میں حیوانیت تب پیدا ہوتی ہے، جب وہ ایک لمبی مدت تک صرف کھانے پینے اور شہوتیں پورا کرنے میں مگن رہے۔ اُس پر کوئی روک ٹوک نہ ہو اور وہ کسی ڈسپلن کا پابند نہ ہو۔ انسانیت کو ڈسپلن سکھانے کے لیے سال بھر میں ایک ماہ کے روزے رکھے گئے ہیں، جب کہ باقی مختلف اوقات میں نفلی روزے رکھے جاسکتے ہیں، لیکن کم از کم ایک انسان سال بھر میں ایک ماہ اس حوالے سے مخصوص کرلے کہ اُس نے اپنی خواہشات کو کنٹرول کرنا ہے۔ اپنے کھانے پینے کو ایک ڈسپلن میں لانا ہے۔ دوسرے انسانوں کی بھوک محسوس کرنی ہے۔ دوسرے انسانوں کے کام آنا ہے۔ اُن کے ساتھ مواسات اور خیرخواہی کرنی ہے۔ اور اُسے اپنی جنسی خواہشات کو کنٹرول کرنا ہے، تاکہ وہ صرف جانور بن کر ہی نہ رہ جائے، بلکہ وہ مہذب سوسائٹی کا ایک فرد بنے۔
تہذیب کے لیے سب سے پہلی بات یہ ضروری ہے کہ کوئی نظریہ اور فکر موجود ہو، جس پر فرد، گھر، قبیلے، قوم، ملک اور بین الاقوامی معاشرے کی شیرازہ بندی کی جائے۔ کسی نظریے کا انسان خود پابند ہو۔ اپنے ہی طے کیے ہوئے ضابطے اور قوانین اور اجتماع سے متعلق اُمور کا اپنے آپ کو پابند بنائے۔ یہ تہذیب ہے۔ ایک خاندان، ایک نظم و ضبط کے تحت وجود میں آئے، اُسی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اُسی کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق ادا کرے۔ ماں باپ اولاد کے، اور اولاد ماں باپ کے، عزیز و اقارِب اور رشتہ داروں کے۔ ایک محلے کے رہنے والے مہذب تبھی ہوں گے کہ جب وہ ایک ڈسپلن میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہوں گے۔ ہر آدمی اپنی مرضی سے کام نہیں کرے گا، ورنہ بغیر کسی ڈسپلن کے تو وہ محلہ، شہر، یا ملک بدصورت ہوگا۔
دوسرے یہ کہ انسان نے انسانیت دوستی اور انسانیت کی ترقی کا جو نظریہ متعین کیا ہے، اُس کو عمل میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا سسٹم قائم کیا جائے، ایسا آئین، قانون اور نظام عملاً وجود میں لایا جائے جو عدل اور انصاف کی بنیاد پر ہو۔ جب تک کسی اجتماع کے تمام فریق‘ حقوق حاصل کرنے کے حوالے سے مساوی اور عادلانہ نسبت نہیں رکھتے تو وہ غیرمہذب ہیں۔ اُن اقدار اور اُن ویلیوز پر جو کسی اجتماع نے اپنے لیے طے کیے ہوئے ہوں، ایک آئینی فریم ورک اور ایک قانون کے تحت ایک معاشرہ کام کرے۔ انسانیت کی اَساس پر ایک منصفانہ نظام ہو، جو تمام انسانوں میں بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب عادلانہ مساوات کے تحت کام کرے۔
تیسری بات یہ ہے کہ تمام انسانوں کے امن و امان، جان مال اور عزت آبرو کے تحفظ کے سیاسی حقوق کی ادائیگی کا نظام موجود ہو۔ چوتھی بات یہ کہ اُن کے معاشی حقوق اطمینان بخش ہوں۔ تہذیب کے بنیادی اَہداف یہ چار اُمور ہیں اور ان کے متصادم جتنے بھی اُمور ہیں، ان سے غیر مہذب معاشرہ، غیرمہذب فرد، غیرمہذب خاندان، غیرمہذب قوم اور غیرمہذب بین الاقوامیت پیدا ہوتی ہے‘‘۔
رمضان المبارک اور تقویٰ کی حقیقت
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم پر بھی بالکل اُسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے جتنے انبیاؑ اور ان کے اُمتیوں اور متبعین پر روزے فرض کیے گئے تھے۔ (-2 البقرہ: 183) یعنی یہ انسانیت کے ضمیر کی یکساں آواز ہے کہ روزوں کے ذریعے انسانیت میں تہذیب پیدا کی جائے۔ اور یہ انسان پر اس لیے فرض کیے ہیں تاکہ اس میں تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ کی حقیقت میں یہ بات داخل ہے کہ اپنے نظریات، اپنا آئین وقانون، اپنی سیاست، اپنی معیشت‘ ان چاروں دائروں کا جائزہ لیا جائے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ صحیح کیا ہے، غلط کیا ہے؟ نظریہ آزادی کا ہے یا غلامی کا؟ آئین اور قانون عادلانہ ہے یا ظالمانہ؟ کون سا سیاسی نظام صحیح ہے؟ امن والا یا خوف دینے والا ہے؟ کون سا معاشی نظام درست ہے؟ انسانیت کو اطمینان بخش وسائل فراہم کرنے والا یا اُسے بھوکا رکھنے والا؟ پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: تقویٰ یہ ہے کہ حق اور باطل میں، صحیح اور غلط میں، عدل اور ظلم میں، نیکی اور بدی میں فرق پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ معاشرہ اس کے بغیر مہذب نہیں ہوتا۔
ایک مہذب معاشرے کے لیے نظریۂ آزادی ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ جس معاشرے میں نظریۂ غلامی رچ بس جائے، وہ کبھی مہذب نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ غیرمہذب رہتا ہے۔ غلام آدمی‘ غیرمہذب ہوتا ہے۔ ایسا غیرمہذب کہ جس کا نقشہ کھینچتے ہوئے قرآن پاک (-16 النحل: 75-76) نے کہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے کرنے کی کوئی قدرت اور صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ اپنے مولیٰ (آقا) پر بوجھ ہے۔ چاہے وہ مولیٰ کوئی انسان ہو، یا اپنا مولیٰ اللہ میاں کو بنائے، لیکن اُس کا کام نہ کرے، ہے غلام۔ وہ انسانیت پر بھی بوجھ ہے۔ وہ ایسا بدنصیب ہے کہ وہ جدھر بھی متوجہ ہوجائے، سیاست میں، معیشت میں، سماج میں، اپنے گھر کی تعمیر وتشکیل میں، اپنی ذات میں، خیر کی بات اُس سے نہیں نکلے گی۔ ہمیشہ شر ہی کی بات ہوگی۔ کیوں کہ وہ اپنے کام خود کرنہیں سکتا، وہ اپنے تمام کام اُس کے احکامات کے مطابق کرے گا، جس کا وہ عبد ِمملوک (ملکیتی غلام) اور کٹھ پتلی ہے۔ وہ جمہوریت کا ڈرامہ رچائے یا بادشاہت کا، وہ خلافت کا عنوان اختیار کرے یا اسلام کا، اگر ’’عبداً مملوکًا‘‘ (غلام) ہے تو اس کی کسی بات میں وزن نہیں ہوگا۔
اللہ نے فرمایا کہ: اس کے مقابلے میں دوسری طرف وہ انسان ہے، جو آزاد ہے، خود مختار ہے، اور عدل کی بنیاد پر اپنا آئین، اپنا قانون، اپنی سیاست اور معیشت بنائے ہوئے ہے، کیا یہ اور وہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کامن سینس کی بات ہے کہ نہیں! جو عدل پر اپنا معاشرہ اور اپنا نظام بنائے ہوئے ہے، وہ کبھی بھی اُس غلام کے برابر نہیں ہوسکتا جو جدھر بھی توجہ کرتا ہے، خیر سے محروم ہوجاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی بات ہے جو ماہِ رمضان المبارک‘ تقویٰ کے نتیجے میں ایک مسلمان میں پیدا کرنا چاہتا ہے‘‘۔
رمضان المبارک اور ملکی سلامتی کے تقاضے
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہماری یہ مملکتِ خداداد پاکستان رمضان المبارک میں بنی تھی۔ اس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی۔ اس لیے کہ رمضان میں بنا ہے۔ یہ آپ کا مقدمہ ہے، لیکن اگر خود پاکستانی بدنیتی پر مبنی کام کریں، اُسے پاک بنانے کے بجائے ناپاک کرنے کا ہر ممکن جتن کریں تو تمھاری بداَعمالی کی کوئی سزا نہیں ہے؟ جب کہ ایک تجربہ ہوچکا ہے کہ تم پاکستان کا آدھے سے زیادہ حصہ توڑ چکے ہو۔ رمضان میں بنا تھا تو پھر یہ 1970-71ء میں کیوں ٹوٹ گیا؟ وہاں برکت نہیں تھی رمضان کی؟ دو سو سال سے آپ کے مقدر میں غلامی ‘ عذاب کے طور پر اللہ نے تم پر مسلط کی ہوئی تھی، 1947ء میں اُس غلامی کا سودا ایک مالک سے دوسرے مالک کی طرف منتقل ہوگیا، بس! کیا فرق ہے؟ رمضان المبارک کے مہینے میں یہ شعور تو ہونا چاہیے تھا کہ یہ قبضہ ایک غلام کا، ایک مالک سے دوسرے مالک کی طرف جا رہا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پہلا مالک بھی اپنے تمام تر ملکیتی اثاثوں کے ساتھ دوسرے مالک کا یرغمال اور غلام بن گیا۔
کہنے کا مقصد یہ کہ رمضان المبارک جو شعور کا مہینہ تھا، جو حق و باطل میں تمیز کا مہینہ تھا، وہ حق و باطل کو گدلانے کا مہینہ بن گیا۔ متقی اور صحیح نیت والے لوگوں نے اس حقیقت کو واشگاف کیا تھا کہ یہ تمھارے ساتھ دھوکا ہوا ہے، تم ایک کی غلامی میں نکل کر دوسرے کی غلامی میں جا رہے ہو، نام اسلام کا استعمال کیا جا رہا ہے اور تمھاری آزادی سلب کی جارہی ہے۔ آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹک رہے ہو۔ غلامی، بداَمنی اور نہ ختم ہونے والی ایک معاشی استحصالی زندگی کی طرف تم جا رہے ہو۔ وہ جاگیردار، وہ وڈیرے، وہ مراعات یافتہ طبقات جو انگریز کے مفادات کے ٹوڈی تھے، وہ تم پر مسلط ہو رہے ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ فرق یہ ہے کہ گورے کے بجائے کالے انگریز مسلط ہوگئے۔
گزشتہ چھہتر سالوں میں جو بھی تمھارے لیے حکمران بن کر آئے ہیں، اُن کے ساتھ کرپشن، لوٹ مار، قومی وسائل کو تباہ و برباد کرنے، ریاست کو نقصان پہنچانے، اقوام کو نقصان پہنچانے کا بھیانک کردار چپکا ہوا ہے۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں کسی لیڈر پر کوئی اِلزام لگ جائے، چاہے وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو، وہ استعفیٰ دے دیتا ہے کہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میں پارلیمنٹ میں بیٹھوں، لیکن ہمارے ہاں چھہتر سالوں سے جتنے مرضی الزام لگ جائیں، پھر بھی وہ حکومت سنبھالنے کے لیے آگے آگے ہوتے ہیں۔
رمضان آرہا ہے، شعور کی آنکھیں کھولیں، حقائق کے تناظر میں اپنا جائزہ لیں۔ کھلی آنکھوں سے رمضان کے روزے رکھیں۔ حق اور باطل کی پہچان پیدا کریں۔ رمضان کا مہینہ نشے کا مہینہ نہیں ہے کہ خوب کھاؤ پیو، سوتے رہو اور غفلت کی حالت میں رہو۔ نہیں! بلکہ آنکھیں کھول کر شعور کی اَساس پر قرآن کا پیغام سمجھو۔ رمضان کا پیغام سمجھو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ (آمین)
ٹیگز

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…
رمضان المبارک کا روزہ چھوڑنے کا نقصان
عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ _ رضی اللّٰہ عنہٗ _ رَفَعَہٗ: ’’مَنْ أَفْطَرَ یَوْماً فِيْ رَمَضَانَ، مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ یَقْضِہِ صِیَامُ الدَّھْرِ، وَإِنْ صَامَہٗ‘‘۔ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ ت…
رمضان المبارک انسانی ہمدردی کا مہینہ ہے
۳؍ رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ / 16؍ اپریل 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: &rs…
رمضان المبارک میں حضورﷺ کے دو خصوصی معمولات
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: ’’کَانَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُونُ فِي رَمَضَانَ حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ، وَکَانَ یَلْقَاہُ فِي کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُەُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّہِﷺ أَ…