ولی اللّٰہی تحریک میں ایک اور اہم نام حضرت مولانا ذوالفقارعلی دیوبندیؒ کا ہے۔ آپؒ۱۲۲۸ھ / 1813ء کو دیوبند میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد گرامی کا نام شیخ فتح علی تھا۔ وہ اپنے علاقے کی معروف شخصیت تھے۔ آپؒ کا سلسلۂ نسب حضرت عثمان غنیؓ سے ملتا ہے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی میں حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کے نام ور شاگرد صدر الصدور مفتی صدر الدین آزُردہؒ سے تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں تعلیمی حوالے سے مدرسہ غازی الدین حیدر _ جسے 1825ء میں دہلی کالج کا درجہ دیا گیا _ بہت زیادہ معروف تھا۔ مولانا موصوفؒ دہلی کالج میںتعلیم کے حصول کے لیے داخل ہوئے اور مولانا مملوک علی دہلویؒ سے تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد بریلی کالج میں استاذ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ تعلیمی قابلیت اور اعلیٰ انتظامی صلاحیت کی بنا پر ڈپٹی انسپکٹر مدارس و تعلیم کے طور پر تقرر ہوا۔
محکمہ تعلیم سے فراغت کے بعد دیوبند میں اعزازی مجسٹریٹ کے طور پر فائز ہوئے۔ آپؒ کو اُردو، فارسی اور خاص طور پر عربی زبان و ادب پر زبردست دسترس حاصل تھی۔ موصوفؒ کی اس صلاحیت کی بنیاد پر عربی ادب کا خاصا حصہ سہل اورآسان ہوگیا۔ دارالعلوم دیوبند میں تعلیمی حوالے سے یہ مسئلہ بھی درپیش تھا کہ کس طرح سے دینِ اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اس سے متعلقہ کتب کو طلبا کے لیے آسان انداز میں پیش کیا جائے۔ اس مسئلے کے حل میں مولانا موصوفؒ نے اہم کردار ادا کیا۔
عربی زبان وادب میں آپؒ کے مقام کا تعارف کراتے ہوئے ’’تاریخ دارالعلوم دیوبند‘‘ میں لکھا گیا ہے: ’’عربی زبان وادب پر بڑی دسترس تھی، (بیش تر عربی کتابیں ترجمہ کرکے) اُردو میں تحریر فرمائیں۔ ۔۔۔ عربی کے غریب اور مشکل الفاظ اور محاورات کا ایسا سلیس و بامحاورہ ترجمہ اور ایسی د ل نشیں تشریح کی ہے،جس کی بہ دولت عربی ادبیات کی یہ سنگلاخ کتابیں طلبا کے لیے نہایت سہل اور آسان ہو گئی ہیں۔ معانی وبیان میں تذکرۃ البلاغت اور ریاضی میں تسہیل الحساب ان کی یاد گارہیں‘‘۔ (ج: 1، ص: 421)
میاں سیّداصغر حسینؒ مولانا ممدوح کی علمی قابلیت اور ذہانت پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ’’حیاتِ شیخ الہند‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں: ’’اور فنِ معانی وبیان کو نہایت خوبی سے اُردو زبان میں دکھلا کر کمال کیا ہے؛ بلکہ زبانِ اُردو میں سب سے پہلے مولانا ممدوح نے اس فن کو جاری کرکے دکھلایا ہے۔ ایسے باکمال حضرات اب کہاں پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب ایک تعلیمی و تربیتی ادارے کے قیام کا فیصلہ ہوا تو اس ادارے کے بانیان میں دیگر اکابرین کے ساتھ ساتھ مولانا ذوالفقار علی دیوبندیؒ اور ان کے بڑے بھائی مولانا مہتاب علی دیوبندیؒ بھی شامل تھے۔ ان دونوں بھائیوں کا شمار دارالعلوم دیوبند کے انتظام و انصرام اور اس کی ترقی میں مولانا سیّد عابد حسینؒ کے مشیروں کے طور پر ہوتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کو اپنے ابتدائی دنوں میں بہت مشکل حالات کا سامنا تھا۔ خاص طور پر مالی مسائل بہت زیادہ تھے۔ ان حالات میں آپؒ نے نہ صرف یہ کہ علمی و تربیتی خدمات پیش کیں، بلکہ مالی حوالے سے بھی اس ولی اللّٰہی مرکز کے ساتھ تعاون فرمایا۔
مولانا موصوفؒ کے صاحب زادگان میں مولانا محمود حسن (حضرت شیخ الہندؒ)، مولانا حامد حسنؒ، حکیم محمد حسنؒ اور حافظ محمد محسنؒ تھے۔ یوں تو تمام بیٹے علم و دانش میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں، لیکن آپؒ کے سب سے بڑے صاحب زادے حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ نے فکرو عمل میں بے مثال مقام حاصل کیا۔ مولانا موصوفؒ کے علم و ادب کے ساتھ شغف کا ہی یہ اثر تھا کہ وہ حضرت شیخ الہندؒ کی تربیت کا بھی حصہ بنا۔ حضرت شیخ الہندؒ کا تعلیم و تربیت کے حوالے سے کردار اور علم و ادب پر دسترس میں بنیادی کردار حضرتؒ کے والد گرامی مولانا موصوفؒ کا ہی تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ حضرت شیخ الہندؒ کا عملی میدان میں حریت و آزادی کے افکار و نظریات کا نمایاں ہونا بھی مولانا موصوفؒ کی تربیت کا ہی خاصہ ہے۔ مولانا موصوفؒ نے ترکی کے سلطان عبدالحمید خان کے لیے جو قصائدتحریر فرمائے، ان کو پڑھنے سے آپؒ کی علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ حالات پر گہری نظر کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ نے تحریکِ ریشمی رومال کا جو خاکہ ترتیب دیا تھا، اس کا ابتدائی نقشہ بھی ان قصائد میں ملتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نقشہ ومنصوبہ انھیں اکابرؒ سے حضرت شیخ الہندؒ تک منتقل ہوا، جسے انھوں نے عملی جامہ پہنانے کی اپنی پوری سعی کی۔ اس قصیدے میں آپؒ انگریزوں کو خطاب کرتے ہوئے سلطان ترکی سے امداد وتعاون اور بیرونی یلغارکا پُر شوکت انداز اختیار کرتے ہیں۔ (ماہنامہ دارالعلوم)مولانا ممدوح نے دارالعلوم دیوبند میں آنے کے بعد اپنی پوری زندگی طلبا کی رہنمائی میں بسر فرمائی۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی تمام مساعی کا دارومدار بھی انھیں کی تربیت اور تعلیم کا نتیجہ ہے۔۱۳۲۲ھ / 1904ء میں آپؒ کا دیوبند میں وصال ہوا۔ آپؒ کی تدفین قبرستانِ قاسمی دیوبند میں حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے مزار کی مشرق سمت میں کی گئی۔
ٹیگز
وسیم اعجاز
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
ڈاکٹر سیف الدین کچلوؒ
تحریکِ ریشمی رومال کے دوران کابل میں امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کی قائم کی گئی حکومتِ موقتۂ ہند کی موجودگی اور پنجاب اور بنگال میں جاری تحریکوں کی وجہ سے بر…
امینُ المِلّت سردار محمد امین خان کھوسو ؒ
حریت و آزادی کی تحریکات میں وادیٔ مہران کسی طور بھی وطنِ عزیز کے کسی بھی حصے سے پیچھے نہیں رہی۔ اس نے ہمیشہ ہراوَل دستے کا کام سر انجام دیا ہے۔ سندھ دھرتی کے حریت پسندوں می…
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ
برِعظیم پاک و ہند کی تحریکِ آزادی میں دار العلوم دیوبند کا قیام ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احم…
فلسفۂ تاریخ و عمرانیات کا بانی؛ علامہ ابن خلدونؒ (1)
علامہ ابن خلدونؒ ہماری تاریخ کی اہم ترین شخصیت ہیں۔ آپؒ کا تعلق اگرچہ یمن کے علاقے ’حضرموت‘ سے تھا، ان کا سلسلۂ نسب بنی کندہ کے بادشاہوں سے ملتا ہے، جن کی عظمت…