فطری ترقی کے حِجَابات کو دور کرنے کا طریقہ  (1)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
فروری 17, 2021 - افکار شاہ ولی اللہؒ
فطری ترقی کے حِجَابات کو دور کرنے کا طریقہ  (1)

(گزشتہ باب میں انسانوں کی فطری ترقی کے لیے اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے راستے کے تین حجابات اور رُکاوٹوں کا تذکرہ تھا۔ اس باب میں ان حجابات کو دور کرنے کے علمی اور عملی طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ مترجم) 
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
(حجابِ طبع دور کرنے کے دو طریقے)
’’جاننا چاہیے کہ حجابِ طبع کو دور کرنے کی تدبیر اور طریقہ دو چیزوں پر مشتمل ہے: 
(1)     ایک یہ کہ انسان کو اپنی طبیعت اور بہیمیت کے حجاب کو دور کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ایسے کاموں کا حکم دیا جائے اور اُن پر اُبھارا جائے، جن سے طبیعت کا حجاب دور ہوتا ہے۔ 
(2)    دوسرے یہ کہ جب انسان پر طبعی اور بہیمی حجاب غالب آئے اور اس کے تحت کوئی کام کرے تو اُسے سزا دی جائے۔ وہ چاہے یا نہ چاہے، اس کا مواخذہ کیا جائے۔ 
(پہلے طریقۂ کار سے متعلق احکام)
اسے ایسی ریاضتوں اور مشقتوں کا حکم دیا جائے جو اس کی بہیمیت اور طبیعت کے زور کو توڑ دے اور بہیمی تقاضوں کو کمزور کردے۔ مثلاً: 
(i)  روزہ رکھنے کا حکم 
(ii)  رات کو جاگ کر تہجد وغیرہ عبادات کرنے کا حکم
اس طریقۂ کار کے حوالے سے بعض لوگ سختی اور تشدد اختیار کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے پیدا کیے ہوئے اعضا اور اُس کی تخلیق میں تغیر و تبدل کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً: 
(i)  اپنی شہوتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے آلاتِ تناسل کا کاٹ لینا 
(ii)  یا کسی عمدہ اور بہترین عضو مثلاً ہاتھ اور پاؤں کو باندھ کر خشک کرلینا 
ایسے لوگ بہت زیادہ جاہل عبادت گزار ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام کاموں میں درمیانہ راستہ اختیار کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ روزہ اور رات کو جاگنا زہر بھرا علاج ہے۔ اس لیے اُسے صرف ضرورت کے بہ قدر استعمال کرنا واجب ہے۔ 
(دوسرے طریقۂ کار سے متعلق احکام)
جو آدمی اپنی طبعی خواہشات کی اتباع کرتا ہے، اس کی حوصلہ شکنی کرنا اور اس کے حیوانی رویوں کا ہر طرح سے انکار کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ وہ سنتِ راشدہ یعنی سیدھے طریقے کا مخالف ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اُس کے سامنے ہر طرح کے طبعی اور بہیمی خواہشات کے غلبے سے دور رہنے کا طریقہ بیان کیا جائے۔ اس سلسلے میں لوگوں پر بہت زیادہ تنگی کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ 
اسی طرح تمام انسانوں کے لیے صرف زبانی مذمت اور انکار ہی کافی نہیں ہوتا، بلکہ بعض لوگ اس وقت تک درست نہیں ہوتے، جب تک کہ اُن کو جسمانی طور پر کوئی سزا نہ دی جائے۔ اور اسی طرح بعض کاموں میں اُن پر کوئی مالی تاوان نہ لگایا جائے۔ اور ایسی سزا صرف اُن لوگوں کی بڑھی ہوئی خواہشات کو پورا کرنے پر دی جائے، جن کی وجہ سے لوگوں کے اجتماعی تقاضوں کا نقصان ہو رہا ہو، مثلاً زنا اور قتل وغیرہ پر سخت سزا کا نفاذ۔ 
(حجابِ رسم کو دور کرنے کے دو طریقے)
حجابِ رسم کو دور کرنے کی تدبیر اور طریقے بھی دو ہیں: 
(1)     ایک یہ کہ انسانی سوسائٹی میں ہر سطح کے سیاسی اور معاشی ارتفاقات سرانجام دیتے ہوئے اللہ کے احکامات کو پیش نظر رکھنا لازمی قرار دیا جائے۔ چناںچہ: 
    (i)  بعض اجتماعی کاموں کا آغاز بسم اللہ پڑھ کر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
    (ii)  بعض اجتماعی کاموں اور ارتفاقات کی ایسی حدود و قیود مقرر کردی گئی ہیں، جنھیں 
        کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پوری رعایت رکھنا ضروری ہے(جیسا 
         کہ خرید و فروخت، لین دین اور قرض سے متعلق شرعی احکامات ہیں)۔ 
(2)    اجتماعی کاموں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے تمام احکامات کا عملی رسم اور نظام بنایا جائے۔ پھر اسے انسانی سوسائٹی میں خوب فروغ دیا جائے: 
    (i)  اس نظام اور اس کے قوانین کی پابندی کو ہر حال میں لازمی قرار دیا جائے، خواہ 
         لوگ چاہیں یا نہ چاہیں۔ 
    (ii)  جو لوگ اس نظامِ عدل کی خلاف ورزی کریں، ان کی برائی اور خرابی لوگوں کے 
         سامنے بیان کی جائے۔ 
    (iii)  انھیں ملکی اقتدار اور جاہ پرستی پر مبنی مرغوب ماحول سے دور رکھا جائے۔ ملکی رسوم 
          و رواج اور نظام سے انھیں روکا جائے۔ 
ان دو تدبیروں اور طریقۂ کار سے اجتماعی نظام میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور فرسودہ رسومات کی آفتوں سے بچا جاسکتا ہے۔ اس طرح قائم شدہ نظامِ عدل اللہ کی عبادت کرنے والوں کے لیے ممد و معاون ہوتا ہے۔ اور اس طرح حق کی طرف دعوت دینے والی انسانی جماعتیں وجود میں آتی ہیں‘‘۔  (جاری ہے)  (باب طریق رفع ہٰذہ الحُجب)
 

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 20, 2023

اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار  (6)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قضائے خداوندی نہیں ٹلتی، مگ…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اکتوبر 10, 2022

تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 10, 2021

چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نومبر 12, 2023