تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق بن زیاد (م 720ئ) جن کا بربر نسل سے تعلق تھا، موسیٰ بن نُصَیر نے ان کی ذہانت اور جرأت کے پیش نظر ان کی سرپرستی اور تربیت کی۔ وہ پیدائشی جرنیل تھے۔ سپہ گری اُن کے خون میں شامل تھی۔ وہ بلاکے ذہین تھے۔ جوان ہوئے تو اُن کو موسیٰ بن نُصَیر نے طنجہ کا گورنر بنا دیا۔ یہ شہر آج کل مراکش کا حصہ ہے۔ طنجہ سے سپین کا فاصلہ صرف چودہ کلومیٹر ہے۔ طارق نے موسیٰ بن نُصَیر کے حکم سے 711ء میں سپین کے مظلوموں کی داد رسی کرتے ہوئے حملہ کیا اور سپین کے تمام چھوٹے بڑے شہر فتح کرلیے۔
اس طرح خلافت ِبنواُمیہ نے خلافت ِراشدہ کی فتوحات کو آگے بڑھایا اور مشرق و مغرب میں دور دور تک پھیلایا؛ مشرق میں چین اور مغرب میں بحرِ ظلمات تک۔ گویا اپنے زمانے کی تمام متمدن دنیا کو فتح کرڈالا۔ دورِ بنواُمیہ میں ہی سمندروں کے دور دراز جزیروں، براعظم افریقا کے ریگستانوں اور ہندوستان کے میدانوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی۔ دورِ بنواُمیہ میں عربوں کی حیثیت ایک فاتح قوم کی رہی۔ عربی اَخلاق، عربی زبان، عربی تمدن، عربی مراسم سب پر غالب رہے۔ چناںچہ ولید بن عبدالملک کے دور میں اندلس (سپین) خلافت ِاُمویہ کا ایک صوبہ تھا۔ 756ء میں قرطبہ کی امارت کے قیام پر عبدالرحمن الداخل یہاں کے امیر بنے۔ اس طرح خلافت کے دو مرکز وجود میں آئے؛ ایک بغداد اور دوسرا اندلس (سپین)۔
929ء میں عبدالرحمن الناصر جب خلیفہ بنے تو اُن کے دور میں سائنسی و دینی علوم کی وسیع پیمانے پر ترقی ہوئی۔ عبدالرحمن الناصر کی خلافت سے پہلے اندلس (سپین) کی خلافت کے ابتدائی دو سو سالہ دور میں مختلف حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانے میں علمی و فکری مجالس منعقد کیں۔ تمام علوم و فنون کی کتابیں دنیا بھر سے جمع کرنے کے کام کا آغاز ہوا۔ تاہم عبدالرحمن الناصر کا دور جہاں تمدنی حوالے سے قابل تعریف ہے، وہاں سیاسی استحکام کی بدولت علوم و فنون کی ترقی و ترویج میں بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ دور ہے، جس میں مسلمانوں نے علومِ عقلیہ پر تجربات کیے۔ اندلس (سپین) کے سائنس دانوں نے سائنسی طریقۂ کار کو فروغ دیا اور علمِ ہیئت، علمِ ریاضی، علمِ کیمیا، علمِ طب، علمِ نجوم، علمِ نباتات اور علمِ جغرافیا اور دیگر بے شمار صنعتی علوم و فنون کو اندلس (سپین) کی روزمرہ زندگی کا حصہ بنایا۔ تعلیم اس قدر عام ہوئی کہ شرح خواندگی سو فی صد تک جا پہنچی، جب کہ براعظم یورپ کے دیگر تمام صلیبی ممالک جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
طارق بن زیاد ؛ فاتح اندلس
طارق بن زیاد خلافت ِبنی اُمیہ کے مسلم جرنیل تھے۔ وادیٔ تافنہ الجزائر میں ۵۰ھ / 670ء میں پیدا ہوئے اور دمشق میں 720ء میں تقریباً پچاس سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا افریقا ک…
عبدالرحمن الداخل (2)
یورپ میں آزاد اُمَوی ریاست کے بانی عبدالرحمن الداخل ۱۳۸ھ/ 756ء سے ۱۷۲ھ / 788ء تک اندلس کے حکمراں رہے۔ وہ 731ء میں دمشق میں پیدا ہوئے اور 30؍ ستمبر 788ء میں ان کا انتقال…
سیّدنا عبدالملک بن مروانؒ
پچھلے دنوں ایک دعائیہ تقریب میں ایک ’’عالمی مبلغ‘‘ نے جھوٹی اور موضوع روایات کا سہارا لے کر خلفائے بنواُمیہ کی کردار کشی کی اور ایسے جھوٹے واقعات …
اندلُس کے علما و سائنس دان
اَندلُس میں مسلمانوں کی عادلانہ حکومت کا آغاز ۹۲ھ / 711ء میں ہوا۔ علم و ادب کی ترقی و ترویج اگرچہ قدرے تاخیر سے ہوئی، لیکن حکمرانوں کی ذاتی دلچسپی اور سرپرستی کی وجہ سے اَن…