سورت البقرہ کی گزشتہ آیت (87) میں یہ حقیقت واضح کی گئی تھی کہ جب بنی اسرائیل میں سوسائٹی کی جامع دینی تعلیمات کے حوالے سے تقسیم و تفریق کا رویہ پیدا ہوا اور وہ صرف رسمی عبادات میں مشغول رہے اور دینی سیاسی شعور، عملی تقاضوں سے روگردانی کرتے ہوئے وہ اپنی خواہشات اور طبقاتی مفادات کے مطابق نظامِ سیاست قائم کرتے رہے تو انھوں نے اپنے سچے رہنماؤں کو جھٹلایا، یہاں تک کہ بعض کو قتل تک کردیا۔
ان آیاتِ مبارکہ (89-88) میں یہودیو ں کی اس دینی سیاسی بے شعوری کی اصل وجہ اور نوعیت واضح کی جا رہی ہے اور آج بھی اس کے بُرے اثرات و نتائج یہ ہیں کہ وہ نبی آخر الزمان ﷺ اور کتابِ مقدس قرآن حکیم کی جامع تعلیمات کو سمجھنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔ اور سختی کے ساتھ اپنے دلوں پر تنگ نظری کا غلاف چڑھائے ہوئے ہیں۔
وَقالوا قُلوبُنا غُلفٌ ۚ (اور کہتے ہیں: ہمارے دلوں پر غلاف ہے): بنی اسرائیل کے یہودیوں نے مسلسل اپنے انبیا علیہم السلام کو جھٹلایا اور بعض انبیاؑ کو انھوں نے قتل کیا، اس کے اثرات اور نتائج یہ ہوئے کہ وہ آج نبی اکرم ﷺ ایسے سچے رہنما کی بات بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور اس انکار کا خود ساختہ سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ لکھتے ہیں: ’’یہود اپنی تعریف میں کہتے تھے کہ ’’ ہمارے دل غلاف کے اندر محفوظ ہیں، بجز اپنے دین کے کسی کی بات ہم کو (ہم پر) اثر نہیں کرتی۔ ہم کسی کی چاپلوسی، سحر بیانی، یا کرشمے اور دھوکے کی وجہ سے ہرگز اس کی متابعت نہیں کرسکتے‘‘۔ ایک تو سچے رہنماؤں کی رہنمائی سے محروم ہیں اور پھر اس محرومی کو اپنی بڑی سمجھ داری کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے انبیا علیہم السلام اور سچے رہنماؤں کے ترقی یافتہ قومی سیاسی نظریات کا انکار کرتی ہے اور اپنی ذاتی خواہشات اور طبقاتی مفادات کے تحت عملی کردار ادا کرتی ہے تو اُن میں ایسے رسمی اور عملی طور پر محال رویے اور نظریات پیدا ہوجاتے ہیں، جن کا انسانی معاشرے کے جاری ماحول کے تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں وہ ایسے رومانوی اور افسانوی نظریات کی اسیر ہوجاتی ہے، جو عملی زندگی میں کسی طور پر بھی روبہ عمل نہیں آسکتے۔ گویا کہ اُن کے دلوں پر ذاتی مفادات اور لوٹ مار کے ایسے غلاف چڑھ جاتے ہیں کہ اُن کی عقلیں اپنے دور کے سیاسی حقائق کو سمجھنے سے عاری ہیں۔ اور وہ تخیلاتی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
بَل لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفرِهِم فَقَليلًا ما يُؤمِنونَ (بلکہ لعنت کی ہے اللہ نے ان کے کفر کے سبب، سو بہت کم ایمان لاتے ہیں): حضرت شیخ الہندؒ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’حق تعالیٰ نے فرمایا: وہ بالکل جھوٹے ہیں، بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان کو ملعون اور اپنی رحمت سے دور کردیا ہے۔ اس لیے کسی طرح دین حق کو نہیں مانتے اور بہت کم دولتِ ایمان سے مشرف ہوتے ہیں ‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے انبیا علیہم السلام کی جامع تعلیمات کے اقترابی اور اجتماعی پہلوؤں میں تفریق پیدا کرکے جو کفر کیا ہے، اُس کے نتائج یہ ہیں کہ اُن کی سیاسی عقل و شعور ماؤف ہوگئی ہے۔ اور وہ انسانی معاشرے کی اجتماعی طاقت اور قوت کو درست خطوط پر قائم کرنے کی اہلیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس کفر کی حقیقت خود اللہ پاک نے بیان فرمائی ہے: ’’تو کیا مانتے ہو بعض کتاب کو اور نہیں مانتے بعض کو‘‘ (البقرہ: 85)۔ یعنی کتاب اللہ کی جامع تعلیمات کے عبادات پر مشتمل کچھ حصے پر ایمان رکھنا اور اُس کی اجتماعی اور سیاسی تعلیمات کا انکار کردینا‘ یہ وہ کفر ہے، جس کے نتیجے میں اُن کے دل و دماغ اللہ کی لعنت کے زیراثر ہیں۔
وَلَمّا جاءَهُم كِتابٌ مِن عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِما مَعَهُم (اور جب پہنچی ان کے پاس کتاب اللہ کی طرف سے، جو سچا بتاتی ہے اس کتاب کو جو اُن کے پاس ہے ): یہودیوں نے نہ صرف بنی اسرائیل کے تقریباً چار ہزار انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں تفریق پیدا کرکے کفر کا ارتکاب کیا اور ملعون بنے، بلکہ آج ایسی کتابِ مقدس قرآن حکیم نازل ہوئی ہے کہ جو اُن کے پاس موجود کتاب تورات و انجیل وغیرہ کی تصدیق کرتی ہے اور دین کی کامل، جامع اور مکمل تعلیمات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اپنے دینی سیاسی ذوق کی خرابی کے نتیجے میں اس کتابِ مقدس کا بھی یہ لوگ انکار کرتے ہیں۔
وَكانوا مِن قَبلُ يَستَفتِحونَ عَلَى الَّذينَ كَفَروا (اور پہلے سے فتح مانگتے تھے کافروں پر ): حال آں کہ اس سے پہلے کافروں اور مشرکوں کے مقابلے میں آخری نبی ﷺ اور کتابِ مقدس کا حوالہ دے کر اپنے دور کے کافروں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے فتح مانگا کرتے تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن کے اُترنے سے پہلے جب یہودی‘ کافروں سے مغلوب ہوتے تو خدا سے دعا مانگتے کہ ’’ہم کو نبی آخرالزماںؐ اور جو کتاب ان پر نازل ہوگی، ان کے طفیل سے کافروں پر غلبہ عطا فرما‘‘۔
فَلَمّا جاءَهُم ما عَرَفوا كَفَروا بِهِ ۚ (پھر جب پہنچا ان کو، جس کو پہچان رکھا تھا، تو اس سے منکر ہوگئے ): اس لیے کہ ان کے سیاسی او رمالی مفادات ان پر غالب ہیں اور غلط سیاسی نظریات اور افکار کے غلاف ان کے دل و دماغ پر چڑھے ہوئے ہیں۔ یہ قرآن کے انقلابی پیغام کو پہچاننے سے انکار کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی سرمایہ پرستی اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف قرآن جو تعلیمات دیتا ہے، یہ اُس کا انکار کرتے ہیں۔
فَلَعنَةُ اللَّهِ عَلَى الكافِرينَ (سو لعنت ہے اللہ کی منکروں پر): یہودیوں نے مسلسل انبیا علیہم السلام کی سچی تعلیمات کو جھٹلایا، یہاں تک کہ نبی آخر الزمان ﷺ کے سچے پیغام اور قرآن حکیم کی جامع تعلیمات کا انکار کیا۔ اس سبب سے وہ اللہ کی لعنت میں مبتلا ہو کر دنیا میں ذلیل اور رُسوا اور آخرت میں بڑے عذاب کے مستحق ٹھہرے۔
کسی قوم میں اپنے سچے رہنماؤں کی تعلیمات کی اساس پر قومی، دینی، سیاسی تقاضوں کو پورا کرنے کا جامع فکر و عمل باقی نہ رہے تو وہ دنیا میں سیاسی طور پر غلام، معاشی طور پر مفلس اور سماجی طور پر فکری انتشار کا شکار ہو کر غلامی اور ذلت کی زندگی بسر کرتی ہے۔ یہی وہ لعنتِ خداوندی ہے جو دنیا اور آخرت میں اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت
۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…