وَإِذ قالَ موسىٰ لِقَومِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تَذبَحوا بَقَرَةً ۖ قالوا أَتَتَّخِذُنا هُزُوًا ۖ قالَ أَعوذُ بِاللَّهِ أَن أَكونَ مِنَ الجاهِلينَ
قالُوا ادعُ لَنا رَبَّكَ يُبَيِّن لَنا ما هِيَ ۚ قالَ إِنَّهُ يَقولُ إِنَّها بَقَرَةٌ لا فارِضٌ وَلا بِكرٌ عَوانٌ بَينَ ذٰلِكَ ۖ فَافعَلوا ما تُؤمَرونَ
(اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کو: ذبح کرو ایک گائے۔ وہ بولے: کیا تُو ہم سے ہنسی کرتا ہے؟ کہا: پناہ خدا کی کہ ہُوں مَیں جاہلوں میں۔ بولے کہ: دعا کر ہمارے واسطے اپنے ربّ سے کہ بتا دے ہم کو کہ وہ گائے کیسی ہے؟ کہا: وہ فرماتا ہے کہ: وہ گائے ہے، نہ بوڑھی اور نہ بِن بیاہی، درمیان میں ہے بڑھاپے اور جوانی کے۔ اب کر ڈالو جو تم کو حکم ملا ہے۔) (-2 البقرہ: 67-68)
گزشتہ آیات میں بتلایا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کی اجتماعی زندگی کی ترقی کے لیے ہفتے کا دن اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دینِ حق کی اجتماعیت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ اس قانون کی پابندی سے اُن کی ترقی کا راستہ کھلتا تھا۔ انھوں نے اس کی خلاف ورزی کی۔ اس قانون شکنی کی سزا کے طور پر انھیں انسانیت سے نچلے درجے میں بندر بنا دیا گیا۔
ان آیاتِ مبارکہ (67 تا 73) میں گائے کے ذبح کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے ضمن میں بنی اسرائیل کی تعلیم و تربیت اور قومی ترقی کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعام کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے ذریعے سے ان کے دلوں میں تعلق مع اللہ، اس کے احکامات کی پابندی اور انسانی حقوق کی پاسداری کی حقیقت واضح کی جا رہی ہے۔
وَإِذ قالَ موسىٰ لِقَومِهِ: تمام انبیا علیہم السلام اپنی قوم کی تعلیم و تربیت اور قومی ترقی کے لیے دنیا میں مبعوث کیے گئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی قومی ترقی اور روحانی سربلندی کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذریعے سے اس قوم پر انعامات کی بڑی بارش کی۔ انھوں نے ہر اہم مرحلے پر اُن کی قومی اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لیے کردار ادا کیا۔ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ساس بنی اسرائیل سیاسۃً حسنۃً‘‘ (تاویل الاحادیث) (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی سیاست بہت عمدہ طریقے سے کی)۔ سیاست کا بنیادی ہدف کسی قوم کی اجتماعی شیرازہ بندی کو مضبوط بنانا اور مجموعی طور پر انھیں ترقی دینا ہوتا ہے۔ ایسی شیرازہ بندی‘ قوانین کی پابندی کے بغیر نہیں ہوسکتی اور قوانین کا بنیادی مقصد مالی بدعنوانیوں اور جسمانی ظلم و ستم سے سوسائٹی کو پاک کرنا ہوتا ہے۔ انبیا علیہم السلام اسی کے ساتھ ساتھ اللہ سے سچے تعلق اور اُس کی تجلیات کے نظام کے ساتھ انسانیت کو مربوط بنانے کے لیے آتے ہیں۔ اس تناظر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے کہا کہ:
إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تَذبَحوا بَقَرَةً ۖ : اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم گائے ذبح کرو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی خرابیوں کو سمجھا۔ اُن میں سے ایک بڑی خرابی جو فرعون کے زیر اثر قبطیوں اور مصریوں کے ذریعے سے اُن میں دَر آئی تھی، وہ گائے اور بچھڑے کی پرستش کا عقیدہ تھا، جیسا کہ ہندوؤں میں گائے کی پوجا کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ اس واقعے کے ذریعے سے ان میں گائے کی تقدیس کا جو تصور پایا جاتا تھا، اُس کا رد کرنا اور انھیں تجلی الٰہی کے ساتھ جوڑنا مقصود تھا۔ پھر مال کے لالچ میں ایک آدمی کو اُس کے چچازاد بھائیوں نے قتل کردیا تھا۔ اس طرح انھوں نے اجتماعی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مال اور جان کی حرمت کی پامالی کی تھی۔ اس آیت میں اس پر تنبیہ ہے۔
قالوا أَتَتَّخِذُنا هُزُوًا ۖ : صدیوں سے قبطیوں اور مصریوں کی صحبت میں رہنے کے نتیجے میں بنی اسرائیلیوں کو اپنے فرسودہ خیال کے مطابق ’’مقدس گائے‘‘ ذبح کرنے کا حکم بڑا عجیب لگا۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ گائے کی تقدیس کا عقیدہ ذہن میں رکھتے ہوئے اُسے ذبح بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ سمجھا کہ شاید وہ ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ اور کہا کہ کیا آپ گائے کے ذبح کا حکم دے کر ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہیں؟
قالَ أَعوذُ بِاللَّهِ أَن أَكونَ مِنَ الجاهِلينَ : حضرت موسیٰ علیہ السلام نے واضح کیا کہ اوّل تو میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ نبی کبھی ایسا کام نہیں کرتے، جو اللہ کے حکم کے بغیر ہو۔ دوسرے یہ کہ مذاق اور ٹھٹھا کرنا جاہلوںکا کام ہوتا ہے۔ جو لوگ علم اور دانش نہیں رکھتے، وہ فضول کاموں، ٹھٹھا اور مذاق میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ فرماتے ہیں: ’’ٹھٹھا کرنا احمق جاہل کا کام ہے اور وہ بھی احکامِ شرعیہ میں۔ پیغمبر سے یہ ہرگز ممکن نہیں‘‘۔ اس پر انھیں تنبیہ ہوئی کہ یہ مذاق نہیںہے، بلکہ واقعی اللہ کا حکم ہے کہ گائے ذبح کی جائے۔ اس سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں۔
قالُوا ادعُ لَنا رَبَّكَ يُبَيِّن لَنا ما هِيَ ۚ : ایک جاہل اور غلط تصورات کے اسیر افراد کا حال ایسا ہی ہوتا ہے کہ کوئی حکم سمجھ میں نہ آئے تو سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل نے اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چند سوالات کیے۔ شاید کہ اس حکم سے جان چھوٹ جائے۔ اس لیے انھوں نے پہلا سوال کیا کہ ہمارے سامنے گائے کی حالت واضح کی جائے ، یا ہمیں سمجھایا جائے، تا کہ قانون کی سمجھ اور فہم پیدا ہوجائے۔
قالَ إِنَّهُ يَقولُ إِنَّها بَقَرَةٌ لا فارِضٌ وَلا بِكرٌ عَوانٌ بَينَ ذٰلِكَ ۖ : حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں کہ: انھوں نے پہلا سوال کیا ’’یعنی اس (گائے) کی عمر کتنی ہے؟ اس کے حالات کیا ہیں؟ نوعمر ہے یا بوڑھی؟‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ وہ نہ بوڑھی ہو اور نہ ہی جوان۔ درمیانی عمر کی ہو۔ یعنی عمر اور حالت سے زیادہ اس چیز پر توجہ دو کہ اللہ کی طرف سے جو تمھیں حکم دیا گیا ہے، اس کو کرگزرو۔
فَافعَلوا ما تُؤمَرونَ: اس پہلے سوال کے جواب میں انھیں گائے کے ذبح کرنے کا دوبارہ تاکیدی حکم دیا گیا۔ اس جواب سے اُن کا ’’حجابِ طبعی‘‘ توڑا گیا کہ گائے کے ذبح کرنے کے حوالے سے اُن کی طبیعت پر جو پردے چڑھے ہوئے ہیں، وہ ختم ہوں، اور حکم دیا گیا کہ فرمانِ الٰہی کو دل و جان سے پورا کیا جائے۔
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
تعلیماتِ انبیاؑ قوموں کو زندہ اور عقل مند بنا دیتی ہیں
وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا فَادّارَأتُم فيها ۖ وَاللَّهُ مُخرِجٌ ما كُنتُم تَكتُمونَ. فَقُلنَا اضرِبوهُ بِبَعضِها ۚ كَذٰلِكَ يُحيِي اللَّهُ المَوتىٰ وَيُريكُم آياتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ (-2 البقرہ: 73-72) (اور جب مار ڈالا تھا…