پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ کر صرف 2 فی صد پیدا کرنے والا ملک بنا دیا‘‘ (سوال جواب سیشن، 3 تا 5 بجے دوپہر، بروز اتوار یکم اگست 2021 ریڈیو، ٹیلی ویژن، ایف ایم چینلز)۔ یعنی استعمار کی تاریخ ما سوائے دنیا کی تباہی کے کچھ نہیں ہے۔ اس نے قوموں کے سماجی ڈھانچوں کو برباد کرنے کے علاوہ کچھ رقم نہیں کیا۔ اپنے چہرے کو اس کالک سے بچانے کے لیے دہشت گردتنظیمیں کھڑی کردیں۔ پھر اپنے آپ کو ان کے مد ِمقابل بنا کر پیش کیا۔ فرانسیسی ویت نام میں 13؍ مارچ تا 7؍ مئی 1954ء تک کیمونسٹ انقلاب کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ ان کی ذلت امیز شکست کے بعد امریکا اس جنگ میں کود پڑا۔ ویت نام کا یہ بحران دو دہائیوں تک جاری رہنے کے بعد 1975ء میں امریکا کی ذلت امیز شکست کے نتیجے میں اختتام پذیر ہوا اور ساتھ ہی خطے میں امن قائم ہوگیا۔ پھر اس نے اسی انقلاب کو روکنے کے لیے 1980ء میں دوسرا محاذ افغانستان میں کھول دیا۔ جنگ میں اُلجھنے کے نتیجے میں معاشی وسائل بھی ضائع ہوگئے۔ معاشی طور پر کمزور ہونے سے تحقیق اور ترقی کا عمل رُک گیا۔ دریں اثنا ایشیائی طاقتیں ٹیکنالوجی میں سبقت لے گئیں۔
افغانستان کا قضیہ آج ایک طرف بیٹھنے جارہا ہے۔ امریکی حکمران اس جنگ کو ناکامی سے تعبیر کررہے ہیں، جب کہ اس کا پروردہ صحافتی طبقہ اسے امریکی منصوبہ بندی کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔ اسٹینڈ رڈ فورڈ یونیورسٹی امریکا کے ڈاکٹر اسفندیار میر نے جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’امریکا افغانستان سے عجلت میں نہیں نکلا ہے۔ امریکا گزشتہ چند برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پیچھے ہٹنا چا ہ رہا تھا ‘‘۔ جب کہ افغان صدر اشرف غنی کے بہ قول: ’’جلدبازی میں انخلا سے سیکورٹی صورتِ حال بدتر ہوئی، ذمہ دار امریکا ‘‘۔ (اے ایف پی 2اگست 2021ء)
امریکا نے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے بھی یہ تبدیلی کی ہے۔ امریکا اور چین کا مقابلہ جنوبی ایشیا یا وسطی ایشیا میں نہیں، بلکہ ایسٹ ایشیا پیسفک اوشین ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ: ’’امریکا کو انڈیا کی صورت میں چین کی مخالف ایک بڑی طاقت مل گئی ہے۔ امریکا چین سے مقابلے کے لیے ملٹری ماڈرنائیزیشن کی طرف بھی جا رہا ہے‘‘۔ نیوزی لینڈ کے اخبار انڈیپنڈنٹ کی 15؍ نومبر 2020ء کی اشاعت کے مطابق 15؍ ایشیائی ممالک کے مابین دنیا کا سب سے بڑا آزادانہ تجارت کا معاہدہ وجود میں آگیا ہے، جس میں آسیان کے 10 ممالک بھی شامل ہیں، جب کہ پانچ بڑے ممالک؛ چین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی شمولیت سے دنیا کا سب سے بڑا تجارتی معاہدہ بن گیا ہے: ریجنل کمپری ہینسو اِکنامک پارٹنر شپ (آر سی ای پی)۔ اس کے بعد امریکا نے کوشش کی کہ اس معاہدے کی اہمیت کو پسِ پشت ڈالنے کے لیے 2007ء میں قائم ہونے والے ’’کوائڈ‘‘ (QUAD)کو نمایاں کرے۔ اس چار ملکی اتحاد میں آسٹریلیا، انڈیا، جاپان اور امریکا شامل ہیں۔ جس کا مقصد انڈو پیسیفک ریجن میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رُسوخ کو کنٹرول کرنا تھا۔ دوسری طرف این این آئی نیوز ایجنسی کے حوالے سے روزنامہ جنگ نے اپنی 3؍ اگست 2021ء کی اشاعت میں چینی صدر کا ایک بیان نشر کیا ہے کہ: ’’فوجی صلاحیتیں مزید نکھاریں گے۔ دھونس جمانے والوں کا منہ توڑ دیا جائے گا۔ غیر ملکی طاقتوں کو دبانے یا غلام بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایسی طاقتوں کو چینیوں کی آ ہنی دیوار پاش پاش کردے گی‘‘۔ اس پسِ منظر میں 11؍ اگست 2021ء کو قطر کے دارلحکومت دوحہ میں چار ملکی روس، چین، امریکا اور پاکستان، افغانستان کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات کیے ہیں۔
افغان طالبان نے مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطے شروع کر رکھے ہیں۔ ان رابطوں میں انھوں نے حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے خطے کو کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ شیخ شہاب الدین دِلاور کی قیادت میں ایک وفد 9؍ جولائی کو ماسکو پہنچ تھا۔ دو روزہ مذاکرات کے لیے ضمیر کابلوف سے ملاقات کی اور یقین دہانی کروائی کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیںہونے دی جائے گی۔ 28؍ جولائی 2021ء کو طالبان کا 9 رُکنی وفد ملا عبدالغنی کی قیادت میں چین پہنچا تھا، جس نے چینی وزیرِ خارجہ کے ساتھ افغانستان کے حوالے سے ملاقات کی، جس میں انھوں نے افغان سرزمین کو چین کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی۔ اسی طرح کا ایک وفد دو روزہ دورے پر 3؍ اور 4؍ اگست کو ایران پہنچا۔ اسی دوران ہندوستانی وزیرِخارجہ جے ایس شنکر بھی ایران پہنچے۔ جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے، چوں کہ وہ کسی قسم کے ڈائیلاگ کا حصہ نہیں ہے، حال آںکہ اس نے بھی افغانستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے، اس حوالے سے دہلی نے بھی اپنے تحفظات کا اظہا ر کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انتھونی بلنکن دو روزہ دورے پر 30؍ اور 31؍ جولائی کو دہلی پہنچا۔ اس نے وہیں سے اشرف غنی کو فون کال کے ذریعے امریکی حما یت کا یقین دلایا ہے۔
افغانستان کا مسئلہ سلگ رہا ہے۔ ایشیا کی اُبھرتی ہوئی طاقتوں کو خطے کا سنگم حاصل ہے۔ ایک طرف روس ہے تو دوسری طرف چین کی سرحدیں ملتی ہیں، جب کہ پاکستان اور ایران اس کے قدرتی ہمسائے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے امریکی حمایت یافتہ حکومت مسلط ہے۔ اسے دبائو میں رکھنے کے لیے طالبان اور دیگر پریشر گروپ پروان چڑھا ئے گئے۔ ان کے علاوہ دہشت گرد تنظیمیں القاعدہ اور داعش جیسی عفریتیں پھیلائی گئیں۔
ساری حکمتِ عملی ایک دور کی تھی۔ جب امریکا دنیا کی یونی پولر پاور سمجھا جاتا تھا اور اس کی اس حیثیت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ تھا۔ آج دنیا کے حالات بدل چکے ہیں۔ ایشیائی طاقتیں عالمی اُفق پر اُبھرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ امریکا جنگ و جدل کا اسیر ہوکر شکست خوردہ ہوچکا ہے۔ اس کے منصوبے کاغذی نوعیت کے اور معاہدے ماضی کے قصے کہانیاں ہیں۔ کیوں کہ کوائڈ کا معاہدہ 2007ء کا ہے، جس کے اہم ارکان جاپان اور آسٹریلیا آج ’’آر سی ای پی‘‘ (Regional Comprehensive Economic Partnership)کے رُکن بن چکے ہیں۔ ہندوستان 2015ء میں(BRICS)برکس کا رُکن بن کر(New Development Bank)نیا ترقیاتی بینک کا چیئرمین بن گیا اور 2017میں ایس سی او(SCO)میں شمولیت اختیار کرلی۔
ٹیگز
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
ایشیا سے امریکی اِنخلا کا آغاز؛ افغانستان
عالمی اَخبارات کی فراہم کردہ خبریں دنیا میں خبر کا معیار سمجھی جاتی ہیں۔ خطے میں تربیت یافتہ صحافی اور اَخبارات اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ امریکا کی کسی بھی ناکامی کو کامیاب…
اقوامِ عالم کی ترقی کے لیے دو قرآنی اُصول
20؍ اگست 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز دوس…
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …
نیٹو مظالم سے بچانے کی رُوسی حکمت ِعملی (3)
( مسئلہ یو کرین کا پس منظر) ملک میں ایمر جنسی نافذ کردی جاتی ہے۔ فوجیں ماسکو میں پہنچنا شروع ہوجاتی ہیں۔ وہاں ان فوجوں کا سامنا انسانی ہاتھوں سے بنی ہوئی زنجیر وں سے …