اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار  (6)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اکتوبر 10, 2022 - افکار شاہ ولی اللہؒ
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار  (6)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

(5)    نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قضائے خداوندی نہیں ٹلتی، مگر یہ کہ دعا مانگی جائے‘‘۔ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2233)

          (تشریح) میں کہتا ہوں کہ: یہاں ’’قضا‘‘ سے مراد کسی کام کی وہ صورت ہے، جو عالمِ مثال میں پیدا کی گئی ہے، جو کہ کائنات میں کسی وقوعے کا سبب بنتی ہے۔ اور وہ وقوع پذیر ہونے والی مخلوقات کی طرح ہے، جسے ختم کرنا اور باقی رکھنا ممکن ہوتا ہے۔

          (یعنی اس حدیث میں قضا سے مراد تقدیر نہیں ہے، بلکہ عالَمِ مثال میں اسباب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سزا یا جزا کی شکل و صورت ہے، جو دعا سے مٹ جاتی ہے۔مترجم(

(6)    نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بے شک دعا ہر صورت میں نفع دیتی ہے، خواہ اُس کا تعلق نازل ہوچکی مصیبت سے ہو، یا ایسی مصیبت سے جو ابھی نازل نہیں ہوئی۔ پس اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ دعا مانگا کرو‘‘۔ (مشکوٰۃ : 234)

          (تشریح) میں کہتا ہوں کہ: دعا جب مستقبل میں کسی آنے والی مصیبت کا علاج کرتی ہے تو اُسے کمزور بنا دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ سبب نہیں پیدا ہوتا، جو زمین میں کسی واقعے کے وجود کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ جب دعا نازل ہوچکی مصیبت کا علاج کرتی ہے تو اللہ کی رحمت اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے کہ اُس کی تکلیف میں کمی ہوجاتی ہے۔ اور اُس کی وحشت سے انسان مانوس ہوجاتا ہے۔

(7)    نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ سختیوں اور مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ اُس کی دعائیں قبول کرے تو اُسے چاہیے کہ آسانی اور خوش حالی میں بھی اللہ سے کثرت سے دُعا مانگے‘‘۔ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ، حدیث: 2240)

          (تشریح)میں کہتا ہوں کہ: آپؐ نے یہ اس لیے فرمایا کہ دعا اُس وقت تک قبول نہیں ہوتی، جب تک کہ کوئی آدمی پوری رغبت کے ساتھ دُعا مانگنے میں قوت ظاہر نہ کرے اور اپنے ارادے کی پختگی کو ظاہر نہ کرے۔ اس لیے انسان کو مصیبت آنے سے پہلے اپنے ارادوں کی پختگی اور رغبت کے ساتھ دعا کی خوب مشق کرنی چاہیے۔

(8)    نبی اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپؐ دعا مانگتے تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے۔ اور دُعا کے بعد دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 2255)

          (تشریح) میں کہتا ہوں کہ: دعا مانگتے ہوئے دونوں ہاتھ اُٹھانا اور پھر انھیں اپنے چہرے پر پھیرنا دعا میں انسان کی رغبت کی عملی تصویر ہے۔ بدن کی یہ عملی تصویر اُس کی دل کی کیفیت کا عملی مظاہرہ ہے۔ اس طرح ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنا دل کو متنبہ کرنا ہے۔

(9)    نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس آدمی کے لیے دعا مانگنے کا دروازہ کھول دیا گیا تو اُس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے‘‘۔ (مشکوٰۃ: 2239)

          (تشریح) میں کہتا ہوں کہ: جس آدمی نے یہ جان لیا کہ دل کی گہرائی سے اُبھرنے والی رغبت کے ساتھ اللہ سے دعا مانگنے کی کیفیت اور لذت کیا ہوتی ہے؟ اور یہ جان لیا کہ اللہ کی طرف سے دعا کی قبولیت کس صورت میں ظاہر ہوتی ہے؟ اور اس طرح اُسے اللہ کے سامنے حضوری کی صفت کی مشق ہوگئی تو اُس کے لیے دنیا میں رحمت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور پھر ہر مصیبت میں اُس کی مدد کی جاتی ہے۔

          ایسا آدمی جب مرتا ہے اور اُس کو اُس کے گناہ گھیر لیتے ہیں اور دنیاوی حالات اور معاملات کے پردے اُسے ڈھانپ لیتے ہیں تو اس وقت یہ آدمی دنیا میں دعا مانگنے کی مشق کے مطابق اللہ کی طرف پوری توجہ سے متوجہ ہوتا ہے۔ تو آخرت میں بھی اُس کی دعا قبول کی جائے گی۔ اور وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو کر نکل جائے گا، جیسے آٹے میں سے بال نکال لیا جاتا ہے۔

)دعائیں قبول کرنے کے مواقع اور مقامات(

جان لینا چاہیے کہ دعاؤں کی سب سے زیادہ قبولیت اُس وقت ہوتی ہے، جب ایسی حالت میں مانگی جائیں کہ جب رحمت کے نازل ہونے کا موقع ہو۔ یہ مواقع درجِ ذیل ہیں:

(1)    انسان میں کسی نیک عمل کے نتیجے میں کوئی کمال پیدا ہو، مثلاً نمازوں کی ادائیگی کے بعد دعا مانگنا، اور روزے دار کی ایسی دعا جو وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے۔

(2)    جب اللہ کی رحمت کے نزول کے اسباب موجود ہوں، جیسا کہ عرفات کے میدان کی دعا۔

(3)    جب کوئی ایسا سبب جو کائنات کا نظام چلانے والی اللہ کی عنایات سے موافقت رکھتا ہو، جیسا کہ مظلوم انسان کی دعا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عنایات میں سے یہ ہے کہ ظالم آدمی سے انتقام لیا جائے۔ مظلوم کی دعا اللہ کی اس عنایت اور مہربانی سے موافقت رکھتی ہے۔ چناں چہ اس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ: ’’مظلوم کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ اور حجاب حائل نہیں ہوتا‘‘۔ (رواہ الترمذی، حدیث: 2014)

(4)    ایسا سبب کہ جس کی وجہ سے دنیا کی راحت سے انسان دور ہوجائے تو اللہ کی رحمت اُس کے حق میں کسی دوسری صورت میں متوجہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ کسی مریض کی دعا، یا کسی پریشانی میں مبتلا آدمی کی دعا قبول ہوتی ہے۔

(5)    ایسا سبب کہ جس کی وجہ سے دعا میں اخلاص پیدا ہوجائے۔ جیسا کہ کسی آدمی کی نظروں سے غائب بھائی کے لیے دعا کرنا، یا والد کا اپنی اولاد کے لیے دعا مانگنا۔

(6)    ایسے وقت میں دعا مانگی جائے کہ جس میں اللہ کی روحانیت فضا میں پھیلی ہوئی ہو اور اللہ کی رحمت نازل ہو رہی ہو۔ جیسا کہ شب ِقدر کی دعا اور جمعہ کے دن کی دعا۔

(7)    ایسی جگہ جہاں فرشتے ہر وقت حاضر رہتے ہوں، جیسے مکہ مکرمہ کے مقدس مقامات ۔

(8)    یا انسان ایسے مقامات پر حاضر ہو کہ جہاں اُس کے نفس میں اللہ کے سامنے حضور و خشوع کی حالت پیدا ہوتی ہو۔ جیساکہ انبیا علیہم السلام سے نسبت رکھنے والے مقامات (مثلاً طور پہاڑ، مقامِ ابراہیم، مسجد ِحرام، مسجد ِنبویؐ اور بیت المقدس وغیرہ)۔

جو کچھ ہم نے پیچھے دعا سے متعلق اُمور بیان کیے ہیں، ان پر قیاس کرنے سے نبی اکرمؐ کے اس قول کا راز بھی معلوم کیا جاسکتا ہے، جس میں آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بندے کی دعا ہمیشہ اُس وقت تک قبول کی جاتی ہے، جب کہ وہ گناہ کرنے کی دعا نہ مانگے، رشتے کو کاٹنے کی دعا نہ مانگے اور جب تک وہ جلد بازی نہ دکھائے‘‘۔ آپؐ سے پوچھا گیا کہ: جلد بازی کا کیا مطلب ہے؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بندہ یہ کہے کہ میں نے دعا مانگی، اور پھر میں نے دعا مانگی، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی اور نااُمید ہو کر دعا کرنا چھوڑ دے‘‘۔ (رواہ مسلم، حدیث: 6936)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

فطری ترقی کے حِجَابات کو دور کرنے کا طریقہ  (1)

(گزشتہ باب میں انسانوں کی فطری ترقی کے لیے اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے راستے کے تین حجابات اور رُکاوٹوں کا تذکرہ تھا۔ اس باب میں ان حجابات کو دور کرنے کے علمی اور عملی طریقے ب…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 17, 2021

کائنات میں موجود کثرتِ اشیا کی حقیقت!

رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور 15؍ جنوری 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 17, 2021

فطری ترقی کے حِجَابات کو دور کرنے کا طریقہ(2)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (حجاب سوء المعرفہ دور کرنے کا طریقہ) ’’حجاب سوء المعرفہ (بدفہمی کے حج…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 14, 2021

اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے راستے کی رُکاوٹیں

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ (اَخلاقِ اربعہ کو حاصل کرنے میں) تین بڑے حِجابات ہیں: …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جنوری 09, 2021