اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار  (8)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جنوری 15, 2023 - افکار شاہ ولی اللہؒ
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار  (8)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :

(9۔ اللہ کے نام سے برکت حاصل کرنا)

’’مسنون اذکار میں سے (نوواں ذکر) اللہ تعالیٰ کے ناموں سے برکت حاصل کرنا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ ہر چیز کی تخلیق میں حق تبارک و تعالیٰ کی ایک تجلی کارفرما ہے۔ اُن تجلیات میں سے ایک تجلی (الفاظ کی ساخت کی دنیا میں) حروف کی پیدائش اور اُن کی شناخت کے حوالے سے جاری و ساری ہے، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ایسے اسمائے الٰہیہ پر مشتمل ہے، جو انبیا علیہم السلام کی زبان سے دنیا میں نازل ہوئے اور ملائِ اعلیٰ کے فرشتے اُن کی گردان کرتے ہیں۔ جب ایک بندہ اُن اسمائے الٰہیہ میں سے کسی ایک اسمِ الٰہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ کی رحمت اُس کے بہت قریب ہوجاتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جو انھیں پڑھے گا، جنت میں داخل ہوجائے گا‘‘۔ (متفق علیہ، مشکوٰۃ، حدیث: 2287)

میں کہتا ہوں کہ: اس فضیلت کے اسباب میں سے یہ ہے کہ: (1) یہ ننانوے نام ایسا مکمل نصاب ہے، جس سے حق تبارک و تعالیٰ کے لیے ثابت شدہ صفات اور منفی چیزوں سے اُس کی پاکیزگی کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ (2) اور یہ کہ اللہ کے ان ننانوے ناموں کو حظیرۃ القدس میں بڑی برکت اور بڑا رُسوخ حاصل ہے۔ (3) اور یہ کہ ان اَسمائے الٰہیہ کی صورت جب کسی انسان کے نامۂ اَعمال میں قرار پکڑ لیتی ہے تو ضرور وہ اُسے اللہ کی عظیم رحمت کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔

(اسمِ اعظم کی حقیقت؛ جامعیتِ تجلیات)

یہ بات جان لینی چاہیے کہ اللہ کے اسما میں سے وہ اسمِ اعظم کہ جس کے ذریعے سے اللہ سے سوال کیا جائے تو وہ عطا کرتا ہے اور جس کے ذریعے سے اللہ کو پکارا جائے تو وہ قبول کرتا ہے، وہ اسمِ جامع ہے کہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام تجلیات کو اپنے اندر جمع کیے ہوئے ہے۔ ایسے اسم کو ملائِ اعلیٰ کے فرشتے اکثر پڑھتے ہیں اور ہر زمانے میں ملائِ اعلیٰ کی ترجمانی کرنے والے (انبیا علیہم السلام) کی زبانوں سے بیان کیا جاتا رہا ہے۔

ہم یہ بات پہلے (ابواب الصلوٰۃ کے صلوٰۃ الوضو کے بیان میں) ذکر کر چکے ہیں کہ جب ہم یہ جملہ بولتے ہیں کہ ’’زید شاعر اور کاتب ہے‘‘ تو زید کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ شاعر ہے اور اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کاتب ہے۔ اسی طرح حق تبارک و تعالیٰ کی بھی عالم مثال کے موطن میں کئی تجلیات مختلف صورتوں کی شکل میں موجود ہیں۔ اور یہ بات (احادیثِ نبوؐیہ میں بیان کردہ) درجِ ذیل ان اذکارِ الٰہیہ پر صادق آتی ہے :

(الف) ’’أنتَ اللّٰہُ، لا إلٰہَ إلَّا أنْتَ الأحَدُ الصَّمَدُ، الّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ، وَ لَمْ یَکُن لَّہٗ کُفُوًا أحَد‘‘ (تُو اللہ ہے، تیرے سوا کوئی خدا نہیں، یکتا ہے،  بے نیاز ہے، وہ ذات جو کسی سے پیدا نہیں ہوا اور نہ اُس سے کوئی پیدا ہوا ہے، اور اُس کا کوئی ہم مثل بھی نہیں ہے)۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 2289)

(ب)       ’’لَکَ الْحَمْدُ، لا إلٰہ إلَّا أنْتَ الحَنَّانُ المَنَّانُ، بَدِیْعُ السَّمَاوَاتِ و الأرضِ، یَا ذَا الْجَلالِ و الإکْرَامِ، یَا حَیُّ یَا قَیُّوم‘‘(تیرے لیے ہی حمد و ثنا ہے، نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو ہی، بہت مہربان اور احسان کرنے والا، آسمانوں اور زمینوں کو شروع سے بنانے والا ہے۔ اے بڑے بزرگی والے اور عزت والے! اے ہمیشہ زندہ رہنے والے اور ہمیشہ قائم رہنے والے!)۔ (مشکوٰۃ: 2290)

اسی طرح کے بہت سے اسمائے الٰہیہ پر اللہ کی بہت سی مختلف تجلیات صادق آتی ہیں (مترجم عرض کرتا ہے کہ: ان کا تذکرہ احادیث میں ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اللہ تبارک و تعالیٰ کا اسمِ اعظم ان دو آیات میں بیان کیا گیا ہے:ـ

(الف)ﵟإِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهٞ وَٰحِدٞۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ ﵞ (-2 البقرہ: 163) (تمھارا خدا ایک خدا ہے، اُس کے علاوہ کوئی خدا نہیں۔ وہ انتہائی مہربان اور رحم کرنے والا ہے)۔

(ب) :اور سورتِ آلِ عمران کی ابتدائی آیت:ﵟالٓمٓ ١ ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلۡحَيُّ ٱلۡقَيُّومُ ٢ ﵞ (اللہ کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں، وہ زندہ اور قائم ہے) (مشکوٰۃ: 2291)

(10۔ نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا)

اذکار میں سے دسواں ذکر نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ہے۔

(1)         نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود و سلام بھیجا،      اللہ تعالیٰ اُس پر دس دفعہ رحمت نازل کرتا ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ، حدیث: 921)

(2)         آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ لوگ ہوں گے، جو مجھ پر کثرت سے درود و سلام بھیجیں گے‘‘۔ (مشکوٰۃ: 923)

میں کہتا ہوں کہ: اس کا راز یہ ہے کہ بے شک انسانی نفسوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے جاری (رحمت کی) ہواؤں کی طرف متوجہ ہوں اور ان کی طرف توجہ کرنے میں اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں کہ انسان تجلیاتِ الٰہیہ کے انوار اور اللہ کی زمین میں موجود شعائرِ الٰہیہ کی طرف متوجہ ہو، اُن کے سامنے ہاتھ پھیلائے، اُن میں گہرا غور و فکر کرے اور اُن کے سامنے جا کر کھڑا ہو۔ خاص طور پر اللہ کے مقربینِ بارگاہِ الٰہیہ کی روحوں کے سامنے جو دراصل ملائِ اعلیٰ کے افضل لوگوں میں سے ہیں اور زمین پر اللہ کی سخاوت نازل ہونے کے واسطوں میں سے ایک واسطہ ہیں۔ (یہ سب) اُس طریقۂ کار کے مطابق جس کا ذکر پیچھے (تعظیم شعائر اللہ کے باب میں) بیان کیا جاچکا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کا ذکر عظمت کے ساتھ کرنا اور اللہ تعالیٰ سے اُن کے لیے خیر طلب کرنا‘ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا بڑا بہترین طریقہ ہے۔ نیز اس طرح اُن کے لیے اللہ سے خیر طلب کرنے سے تحریف کے دروازے کو بھی بند کر دیا گیا ہے، کہ آپ ﷺ کا ذکر اللہ سے طلبِ رحمت کے لیے ہو (یعنی آپؐ کی اُلوہیت کے طور پر ذکر نہ ہو، جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیاؑ کے حوالے سے کیا تھا)۔                         

 (کاملین کی ارواح سے فیض حاصل کرنے کا طریقہ)

(یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ) کامل انسانوں کی روحیں جب اپنے جسموں سے جدا ہوتی ہیں تو وہ ایک ’’الموج المکفوف‘‘ (بند موج) کی طرح ہوجاتی ہیں، اُن کو کوئی بدلتا ہوا اِرادہ اور کوئی عارضی سبب اور داعیہ حرکت نہیں دے سکتا (جیسا کہ دنیا میں ہوتا تھا)۔ اور وہ نفوس جو اُن سے کم درجے میں ہوتے ہیں، وہ کاملین کی روحوں کے ساتھ اپنے عزم و ہمت سے جڑتے ہیں اور اُن روحوں سے نور کھینچتے ہیں۔ اور ایسی ہیئت و صورت جو اُن کاملین کی روحوں سے مناسبت رکھتی ہے، حاصل کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کے اس ارشادِ گرامی کا یہی مطلب اور مراد ہے کہ: ’’کوئی آدمی ایسا نہیں، جو مجھ پر درود و سلام بھیجے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اُسے میری روح کی طرف لوٹا دیتا ہے، یہاں تک کہ میں اُس کا جواب دیتا ہوں‘‘۔ (رواہ ابودؤد، مشکوٰۃ: 925) میں نے اس طرح آپؐ کے جوابی سلام کا بے شمار دفعہ مشاہدہ کیا ہے۔ جب میں مدینہ منورہ میں۱۱۴۴ھ میں روضۂ رسولؐ پر حاضر تھا۔

نیز نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’میری قبر کی زیارت کو عید مت بنا لینا‘‘۔ (رواہ ابودؤد، مشکوٰۃ: 926) میں کہتا ہوں کہ: یہ دین میں تحریف کی دخل اندازی کا دروازہ روکنے کی طرف اشارہ ہے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیاؑ کی قبروں کے حوالے سے کیا تھا کہ انھوں نے اپنے انبیاؑ کی قبروں کو عید اور حج کی طرح کا ایک موسم بنا لیا تھا‘‘۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

فطری ترقی کے حِجَابات کو دور کرنے کا طریقہ  (1)

(گزشتہ باب میں انسانوں کی فطری ترقی کے لیے اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے راستے کے تین حجابات اور رُکاوٹوں کا تذکرہ تھا۔ اس باب میں ان حجابات کو دور کرنے کے علمی اور عملی طریقے ب…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 17, 2021

کائنات میں موجود کثرتِ اشیا کی حقیقت!

رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور 15؍ جنوری 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 17, 2021

فطری ترقی کے حِجَابات کو دور کرنے کا طریقہ(2)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (حجاب سوء المعرفہ دور کرنے کا طریقہ) ’’حجاب سوء المعرفہ (بدفہمی کے حج…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 14, 2021

اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے راستے کی رُکاوٹیں

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ (اَخلاقِ اربعہ کو حاصل کرنے میں) تین بڑے حِجابات ہیں: …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جنوری 09, 2021