اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار  (7)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
نومبر 14, 2022 - افکار شاہ ولی اللہؒ
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار  (7)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :

(نبی اکرمؐ کی مخصوص دعاؤں سے متعلق احادیثِ نبویہؐ کی تشریح)

(1) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر ایک نبی کو ایک مقبول دعا عطا کی گئی تھی، جو انھوں نے اس دنیا میں ہی مانگ لی (اور قبول ہوگئی)۔ میں نے اپنی دعا اپنی اُمت کی سفارش کے لیے قیامت کے دن کے لیے محفوظ کرکے رکھ لی ہے۔ اور وہ ان شاء اللہ میری اُمت میں سے ہر اُس اُمتی کو ضرور حاصل ہوگی، جسے اس حال میں موت آئی کہ اُس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو‘‘۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 2223)

(تشریح:) مَیں کہتا ہوں کہ: انبیا علیہم السلام کی بہت سی دعائیں قبول کی گئی ہیں۔ اور ایسے ہی ہمارے نبی اکرمؐ کی بھی بہت سے مواقع پر دعائیں قبول کی گئی ہیں، لیکن ہر نبیؑ کو ایک ایسی خاص دعا عطا کی گئی ہے، جو اللہ کی اُس رحمت سے پھوٹتی ہے، جو اُس نبیؑ کی نبوت کی بنیاد اور اُس کا مبدأ ہے کہ (الف) اگر لوگ اُس پر ایمان لائیں تو اُس رحمت کے سبب سے اُن پر برکات نازل ہوتی ہیں اور نبیؐ کے قلب سے اُن کے فائدے کے لیے دعا پھوٹتی ہے۔ (ب) اور اگر وہ اُس نبی کی تعلیمات سے روگردانی کریں تو اُس کے سبب اُن پر ذلت کا عذاب مسلط ہوتا ہے اور نبی کے دل میں اُن کے لیے بددعا پھوٹتی ہے۔

ہمارے نبی اکرمؐ نے یہ بات شعوری طور پر جان لی کہ آپؐ کی بعثت کے عظیم مقاصد میں سے یہ ہے کہ: (الف) آپؐ کل انسانوں کی سفارش کرنے کے لیے (اس لیے کہ ارشادِ خداوندی ہے: ’’اے محمدؐ! آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم تمام کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ -7 الاعراف: 158) (ب) اور آپؐ حشر کے دن میں اللہ کی خاص رحمت کے نزول کے لیے واسطہ بنیں گے۔ چناں چہ آپؐ نے وہ دعا محفوظ کرلی، جو حشر کے دن آپؐ کی نبوت کے اصل مبدأ سے پھوٹنے والی عظیم ترین دعا تھی۔

(مترجم عرض کرتا ہے کہ: امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ’’فیوض الحرمین‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’میں کہتا ہوں کہ: یہ دعا اُن دعاؤں میں سے نہیں ہے، جو کسی طالب کی کسی چیز میں خاص رغبت سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ وہ دعا ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربانی اور اُن پر رحمت کرتے ہوئے کسی رسول کو بھیجتا ہے تو بندوں کی حالت دو پہلوؤں سے خالی نہیں ہوتی۔ اگر وہ اُس نبی کی اطاعت کریں تو اللہ کی یہ رحمت اُن کے حق میں برکات کے نزول کا سبب بنتی ہے اور اگر وہ نافرمانی کریں تو اللہ کی یہ رحمت ناراضگی میں بدل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن پر سخت ناراض اور غضب ناک ہوتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں اُس قوم کے نبی پر الہام کیا جاتا ہے کہ وہ (فرماں برداروں کے لیے) دعا کریں اور (نافرمانوں کے لیے) بددعا کریں۔ ایسی دعا ہر نبیؑ کو صرف ایک ہی دی جاتی ہے، جو دراصل اللہ کے اُس لطف و مہربانی سے پیدا ہوتی ہے، جو اُس نبیؑ کی بعثت کا سبب ہوتا ہے۔ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے اپنے نفسِ قدسیہ سے یہ پہچان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی بعثت کا یہ مقصد قرار نہیں دیا کہ آپ انسانوں پر صرف دنیا میں مہربان ہوں، بلکہ آپؐ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ آپؐ قیامت کے دن اللہ کی عمومی رحمت کا سبب بھی بنیں۔ اور یہ بات ہمیں بتائی جاچکی ہے کہ: ’’نبی اکرمؐ آخرت میں تمام انبیا علیہم السلام کی اُمتوں پر گواہ ہوں گے‘‘۔ (بخاری، حدیث: 4487) اور تمام اُمتوں پر گواہی دینا آپؐ کی خصوصیات میں سے ہے۔ چناں چہ آپؐ کے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آپؐ اُس دعا کو _ جو آپؐ کے منشائِ نبوت سے پیدا ہوئی ہے _ قیامت کے دن کے لیے محفوظ رکھ لیں۔ اس راز کو پورے تدبر کے ساتھ محفوظ رکھیے‘‘۔ فُیوضُ الحَرَمَین، مَشْہَد: 40)

(2) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! میں نے آپ سے ایک عہد لیا ہے۔ بے شک آپ اُس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ میں ایک انسان ہوں، پس اگر مسلمانوں میں سے کسی کو میں نے کوئی تکلیف دی ہو، اُس کو بُرا بھلا کہا ہو، اُس پر لعنت بھیجی ہو، اس کی پٹائی کی ہو تو میرے ان اعمال کو اُس بندۂ مؤمن کے لیے رحمت اور پاکیزگی اور ایسی قربت کا باعث بنا، جس کی وجہ سے تُو اسے اپنا مقرب بنا لے‘‘۔ ( مشکوٰۃ: 2224)

(تشریح:) میں کہتا ہوں کہـ: نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اپنی اُمت پر رحمت اور اُن پر شفقت کا تقاضا ہوا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے سامنے پہلے سے ایک عہد و پیمان بھیجیں اور اس طرح آپؐ کی ’’ہمت‘‘ ’’حظیرۃ القدس‘‘ میں ایک مثالی وجود اختیار کرلے کہ جس سے مسلسل احکامات صادر ہوتے رہیں۔ یہ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپؐ کی قوم کے لیے آپؐ کی دلی طلب اور تمنا سے پھوٹنے والی پوشیدہ ہمت کا اعتبار کرتے ہیں، نہ کہ اُس ظاہری ہمت کا، جس کا تعلق گفتگو یا عمل سے ہے۔

(مترجم عرض کرتا ہے کہ: امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’القول الجمیل‘‘ میں ’’ہمت‘‘ کی تعریف یوں کی ہے: ’’ہمت‘‘ نام ہے انسانی خیالات کا ایک مقصد کے لیے ایک جگہ جمع ہوجانا اور تمنا اور طلب کی صورت میں عزم کا کچھ اس طرح سے پختہ ہوجانا کہ اس مقصد کے علاوہ کسی اَور چیز کا خیال بھی دل میں باقی نہ رہے۔ جیسا کہ ایک شدید پیاسے آدمی کا پانی طلب کرنا‘‘۔ القول الجمیل، فصل: 6)

یہ اس لیے کہ نبی اکرمؐ کا اپنے قول یا فعل سے کسی مسلمان کو کوئی سزا دینے کا ارادہ کرنا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ انسانوں کے فائدے کے لیے اللہ کے پسندیدہ دین کا عملی نظام قائم کریں، لوگ بالکل سیدھے ہوجائیں، اُن کی کجی اور کمزوری دور ہوجائے۔

آپؐ کا کافروں کو سخت سزا دینے کا ارادہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ انھوں نے کفر اختیار کیا اور اُن پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔ اس طرح آپؐ نے اللہ کے حکم کی موافقت کی۔ اس لیے مسلمانوں اور کافروں کو دی جانے والی سزاؤں کی وجوہات الگ الگ اُمور ہیں، اگرچہ ظاہری شکل و صورت میں یہ ایک جیسی ہی کیوں نہ نظر آتی ہوں‘‘۔ (باب الاذکارِ وما یتعلّق بھا)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

فطری ترقی کے حِجَابات کو دور کرنے کا طریقہ  (1)

(گزشتہ باب میں انسانوں کی فطری ترقی کے لیے اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے راستے کے تین حجابات اور رُکاوٹوں کا تذکرہ تھا۔ اس باب میں ان حجابات کو دور کرنے کے علمی اور عملی طریقے ب…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 17, 2021

کائنات میں موجود کثرتِ اشیا کی حقیقت!

رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور 15؍ جنوری 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری فروری 17, 2021

فطری ترقی کے حِجَابات کو دور کرنے کا طریقہ(2)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (حجاب سوء المعرفہ دور کرنے کا طریقہ) ’’حجاب سوء المعرفہ (بدفہمی کے حج…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مارچ 14, 2021

اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے راستے کی رُکاوٹیں

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ (اَخلاقِ اربعہ کو حاصل کرنے میں) تین بڑے حِجابات ہیں: …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جنوری 09, 2021