درس قرآن 18
سورة البقرة
آیت: 50 تا 59
مُدرِّس:
شیخ التفسیر حضرت مولانا شاہ مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری
مسند نشین خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور
ناظم اعلی ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور
بمقام: ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور
*۔ ۔ ۔ ۔ درس کے چند بُنیادی نِکات ۔ ۔ ۔ ۔ *
0:00 آغاز درس
1:00 بنی اسرائیل کی خرابیاں اور واقعات کے ضمن میں دعوتِ حق کا تذکرہ جاری ہے۔ گذشتہ آیت میں فرعون کے ظلم و ستم کے نظام سے نجات دلانے کا ذکر ہوا تھا اب اس آیت (وَإِذ فَرَقنا بِكُمُ البَحرَ فَأَنجَينـٰكُم وَأَغرَقنا آلَ فِرعَونَ وَأَنتُم تَنظُرونَ) میں نجات کی عملی صورت کی طرف مختصر اشارہ اور تفصیلی واقعہ دوسری آیات میں بیان کیا گیا ہے۔
6:26 فرعون سے نجات دلانے کے بعد صحرائے فلسطین میں قیام ، حضرت موسیٰ علیہ الصلوة و السلام کا کتابِ سماوی "تورات" حاصل کرنے کے لیے چالیس دن طور پہاڑ پر قیام (وَإِذ وٰعَدنا موسىٰ أَربَعينَ لَيلَةً ) اور بنی اسرائیل کا اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہوئے بچھڑے کو خدا بنا کر اس کی پرستش شروع کر دینا (ثُمَّ اتَّخَذتُمُ العِجلَ مِن بَعدِهِ وَأَنتُم ظـٰلِمونَ)
8:28 بنی اسرائیل کا بچھڑے کی عبادت کرنا دراصل ان کی غلامانہ سوچ ، منفی ذہنیت اور جہالت کا نتیجہ تھا۔
10:53 مصری تہذیب میں گائے کی عبادت کے تصورات ، سامری کا بچھڑے کو خدا بنانا اور بنی اسرائیل کا تین فرقوں میں بٹ جانا
15:12شرک و ظلم کے باوجود توبہ کے بعد اللہ نے بنی اسرائیل کو معاف کردیا تاکہ وہ شکر ادا کریں (ثُمَّ عَفَونا عَنكُم مِن بَعدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُم تَشكُرونَ)
16:17 طور پہاڑ پر اللہ تعالیٰ کا بنی اسرائیل کی ہدایت و کامیابی کے لیے حضرت موسیٰؑ کو "کتاب" اور حق و باطل میں فرق کرنے والی کسوٹی اور کتاب پر عمل درآمد کرنے کی استعداد "فرقان" عطا کرنا (وَإِذ ءاتَينا موسَى الكِتـٰبَ وَالفُرقانَ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ) میں بنی اسرائیل پر ایک اور انعام کا تذکرہ
18:15 بنی اسرائیل کی توبہ کی قبولیت کی شرط اور شرک خفی کی ذہنیت اور عملا ارتکاب کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے کا ذکر (وَإِذ قالَ موسىٰ لِقَومِهِ يـٰقَومِ إِنَّكُم ظَلَمتُم أَنفُسَكُم بِاتِّخاذِكُمُ العِجلَ فَتوبوا إِلىٰ بارِئِكُم فَاقتُلوا أَنفُسَكُم ذٰلِكُم خَيرٌ لَكُم عِندَ بارِئِكُم فَتابَ عَلَيكُم ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوّابُ الرَّحيمُ) میں توبہ کی عملی صورت؛ بچھڑے کی عبادت کرنے والے (غلامانہ ذہنیت کے حامل) طبقے کو قتل کرنا ، دنیا میں بنی اسرائیل کی ترقی و کامیابی اور آخرت میں نجات کا باعث
25:16 بنی اسرائیل کا رؤیتِ خداوندی کا مطالبہ اور اسے حضرت موسیٰؑ پر ایمان لانے کی شرط قرار دینا (وَإِذ قُلتُم يـٰموسىٰ لَن نُؤمِنَ لَكَ حَتّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهرَةً فَأَخَذَتكُمُ الصّـٰعِقَةُ وَأَنتُم تَنظُرونَ) میں بنی اسرائیل کے غلط مطالبے کی سزا
30:02 اور پھر اللہ کا بطور انعام موت کے بعد زندہ کرنا(ثُمَّ بَعَثنـٰكُم مِن بَعدِ مَوتِكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ)
31:04 انعاماتِ الٰہی؛ صحرائے فلسطین میں چالیس سال تک سائے کا بندوست اور عمدہ غذا (من و سلویٰ) کا انتظام نیز پاکیزہ رزق کھانے کا حکم لیکن ظلم کرنے کی ممانعت (وَظَلَّلنا عَلَيكُمُ الغَمامَ وَأَنزَلنا عَلَيكُمُ المَنَّ وَالسَّلوىٰ ۖ كُلوا مِن طَيِّبـٰتِ ما رَزَقنـٰكُم ۖ وَما ظَلَمونا وَلـٰكِن كانوا أَنفُسَهُم يَظلِمونَ) میں اپنے اوپر ظلم کرنے سے مراد؛ انفرادیت کے مرض کی وجہ سے اجتماعیت کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من و سلوی کی ذخیرہ اندوزی کرنا نیز ذخیرہ اندوزی کے اثرات و نتائج
35:14 اللہ رب العزت کا بستی (اریحہ یا بیت المقدس) میں داخل ہونے کا حکم اور وہاں وافر مقدار میں رزق کے بندوبست کا وعدہ لیکن شہر میں داخل ہونے سے پہلے نفسانی خواہشات دور کرنے کے لیے نماز پڑھنے (اخبات الی اللہ) اور اللہ سے معافی مانگنے کا حکم (وَإِذ قُلنَا ادخُلوا هـٰذِهِ القَريَةَ فَكُلوا مِنها حَيثُ شِئتُم رَغَدًا وَادخُلُوا البابَ سُجَّدًا وَقولوا حِطَّةٌ نَغفِر لَكُم خَطـٰيـٰكُم ۚ وَسَنَزيدُ المُحسِنينَ) میں اس عمل کو گناہوں کی معافی اور صفتِ احسان والوں کے لیے رزق میں اضافے کا باعث
39:21 لیکن بنی اسرائیل کی ظالمانہ روش کی وجہ عذابِ الٰہی اترنا اور ان کا خاتمہ کر دینا (فَبَدَّلَ الَّذينَ ظَلَموا قَولًا غَيرَ الَّذى قيلَ لَهُم فَأَنزَلنا عَلَى الَّذينَ ظَلَموا رِجزًا مِنَ السَّماءِ بِما كانوا يَفسُقونَ)
پیش کردہ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ، لاہور ۔ پاکستان
https://www.rahimia.org/
https://web.facebook.com/rahimiainstitute/
https://www.youtube.com/@rahimia-institute