گزشتہ آیات (-2 البقرہ: 117-116) میں یہود و نصاریٰ کے اہلِ علم لوگوں کے غلط عقیدے کا ردّ تھا کہ وہ اپنے انبیا علیہم السلام کو ’’بدیع‘‘ (نئے طریقے سے پیدا ہونے کی وجہ سے) اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، حال آں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام آسمانوں اور زمینوں کو بدیع طریقے سے ہی پیدا کیا ہے۔ وہ جو قضا اور فیصلہ جاری کرتا ہے، اس کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ اسی قضا کے تحت اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔
ان آیات (-2 البقرہ: 119-118) میں بت پرست لوگوں اور اہلِ کتاب میں سے جاہلوںکی بے سر و پا باتوں اور مطالبات کا ردّ کیا جا رہا ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ کو ایسے لوگوں کو نظر انداز کرنے اور اپنی بعثت کے اصل مقاصد کو پیش نظر رکھنے کا کہا جا رہا ہے۔
﴿وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ﴾
(اور کہتے ہیں وہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے: کیوں نہیں بات کرتا ہم سے اللہ؟ یا کیوں نہیں آتی ہمارے پاس کوئی آیت؟ ) : علم سے ناآشنا جاہل لوگوں کے یہ دو مطالبے کہ ایک انسان کو رسول بنانے کے بجائے براہِ راست اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ گفتگو کیوں نہیں کرتا؟ یا رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کے لیے ہمارے پاس کوئی عجیب و غریب نشانی کیوں نہیں بھیجتا؟ یہ دونوں مطالبات سراسر غلط ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا اُن کے اندر یہ استعداد اور صلاحیت ہے کہ وہ براہِ راست اللہ تبارک و تعالیٰ سے مکالمہ کرسکتے ہیں؟ یا انسان میں یہ استعداد ہے کہ وہ تجلی کی صورت میں نازل ہونے والی کسی نشانی کو برداشت کرسکے؟ کائنات کے عالمگیر نظام کا علم نہ رکھنے والے جاہل لوگ اس طرح کے مطالبے کرتے ہیں، کائنات کا حقیقی طور پر مطالعہ رکھنے والے اہلِ علم اس طرح کی بات نہیں کرسکتے۔ ایسی گفتگو سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ علم و شعور کے ساتھ اس کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
﴿كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ﴾ اسی طرح کہہ چکے ہیں وہ لوگ جو اِن سے پہلے تھے اِنھیں کی سی بات، ایک سے ہیں دل ان کے ): ایسی جہالت کی باتیں ان سے پہلے بھی گزشتہ قوموں کے لوگ کرچکے ہیں۔ انھوں نے بھی اسی طرح کے مطالبات اپنے دور کے انبیا علیہم السلام کی تعلیمات سے روگردانی کرکے کیے ہیں۔ ایسی جاہلانہ باتیں کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ علم سے دوری اور جہالت میں ان سب لوگوں کے دل ایک دوسرے سے پوری مشابہت رکھتے ہیں۔
﴿قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴾ (بے شک ہم نے بیان کردیں نشانیاں ان لوگوں کے واسطے جو یقین لاتے ہیں):جہاں تک یہ جاہل لوگ نشانی مانگتے ہیں تو ہم نے نبی اکرم ﷺ کے برحق ہونے کی واضح نشانیاں بیان کردی ہیں۔ اور وہ قوم جو ذہنی اور قلبی عقل و شعور کے ساتھ یقینی علم تک رسائی حاصل کرنے کی استعداد اور صلاحیت رکھتی ہے، انھوں نے ان نشانیوں کو مانتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کی رسالت کو برحق تسلیم کرلیا ہے۔ وہ ایمان و یقین کی دولت سے مشرف ہوچکے ہیں۔ اور جو لوگ اس کے باوجود ضد اور عناد پر اڑے ہوئے ہیں، اُن کے انکار کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
﴿إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ﴾ بے شک ہم نے تجھ کو بھیجا ہے سچا دین دے کر خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا): سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ آپؐ کو ’’دینِ حق‘‘ پر مبنی فکر و عمل اور ’’بشیر‘‘ (خوش خبری سنانے والا) اور ’’نذیر‘‘ (ڈرانے والا) بنا کر بھیجا ہے۔ کسی قوم کی ترقی کے پروگرام کی حقانیت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ دینِ حق کی اَساس پر صحیح فکر و عمل کے ساتھ اپنی سوسائٹی اُستوار کرتے ہیں، لوگوں کو اللہ کے ساتھ صدقِ دل سے جوڑتے ہیں، انسانی معاشروں کے اجتماعی مسائل حل کرتے ہیں، انھیں امن و عدل اور خوش حالی فراہم کرتے ہیں، ان کے لیے اللہ کے پیغمبر دنیا اور آخرت میں کامیابی کی بشارت سنانے والے ہیں، یعنی ’’بشیر‘‘ ہیں۔
جس قوم میں بددینی کی اَساس پر غلط فکر و عمل رواج پذیر ہوجائے، اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ واحد کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے، اس کے بھیجے ہوئے سچے نبی کو ماننے کے بجائے اُن کی رسالت کا انکار کیا جائے، سوسائٹی میں اجتماعی مفاد کے بجائے انفرادی مفاد کے اَسیر لوگ حکمران بن جائیں، امن کے بجائے خوف، عدل کے بجائے ظلم اور معاشی خوش حالی کے بجائے بھوک و افلاس اور مسکنت طاری ہوجائے تو ایسے ظالم حکمرانوں اور قوموں کے لیے اللہ کے پیغمبر کی بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ وہ انھیں اللہ کے عذاب سے ڈرائے، دنیا کی ذلت اور رُسوائی اور آخرت کی تباہی سے آگاہ کرے۔ حقانیت پر مبنی ’’دینِ حق‘‘ لے کر اور ’’بشیر‘‘ و ’’نذیر‘‘ بن کر آنے والے نبی کی ان نشانیوں سے بڑھ کر اَور کیا نشانی ہوگی۔ عجائبات و غرائبات کی صورت میں نشانی مانگنا جہالت کی علامت ہے۔ انسانی اجتماعیت اور سوسائٹی سے متعلق علم و شعور رکھنے والے ایسی نشانیوں کا مطالبہ نہیں کرتے، بلکہ پورے یقین کے ساتھ فلاحِ انسانیت کا کام کرتے ہیں۔
﴿وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ ﴾ اور تجھ سے پوچھ نہیں دوزخ میں رہنے والوں کی) : جو یہود و نصاریٰ اور جاہل لوگ آپ ﷺ سے دشمنی، عناد اور جہالت کی وجہ سے آپؐ کی دعوت قبول نہیں کر رہے، آپ ﷺ سے ان کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے مسلمان ان سے بحث مباحثے میں نہ پڑیں۔ ایسے لوگ جہنم کے سخت عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ وہ دنیا میں بھی سزا یاب ہوں گے اور آخرت میں بھی دوزخ کے سخت عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ ایسے معاند لوگوں کو تکلف کے ساتھ دین حق کی دعوت دینے اور اپنی توانائیاں اس سلسلے میں خرچ کرنے سے بسا اوقات ان کی خرابیوں کی ظلمتیں اور خرابیاں عام مسلمانوں میں سرایت کرسکتی ہیں اور یہودیوں کے جھوٹے سچے دعوؤں سے عام مسلمان متأثر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ کو معاندین کو دعوت دینے سے روک دیا گیا۔ اس کا مزید ایک سبب اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ دشمنی کی ایسی حد پر جاچکے ہیں کہ وہ اپنے غلط فکر و نظریے کو قبول کیے بغیر آپؐ سے راضی نہیں گے۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
افتتاحی تقریب ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور، پشاور کیمپس
اِدارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کا 2001ء سے شروع ہونے والا سفر کراچی، سکھر، صادق آباد، ملتان اور راولپنڈی کی منزلیں طے کرتا ہوا پشاور آ پہنچا ہے! الحمدللہ علیٰ ذالک…
Allama Ibn Khaldun’s concept of Prophethood
Religion, with its inherent connection to prophethood and the figure of the prophet, has played a pivotal role in shaping societies and nations by eradicating geographic…
ترقی یافتہ سرمایہ دار
گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی وزیراعظم نے آمدہ سال کو ترقی کا سال قرار دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ صنعتی پیداوار، بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ بتایا جارہا ہے۔ ا…
شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری
رحیمیہ مطبوعات لاہور کی طرف سے شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری تصنیفاتِ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تحقیق و شرح کے ساتھ عمدہ اشاعت حضرت اقد…