آئی ایم ایف کی عالمی حیثیت ایک بینک کی سی ہے، جس کا کام دیگر ممالک کو اس لیے قرض دینا ہے، تاکہ لین دین کا عالمی نظام اضمحلال کا شکار نہ ہونے پائے اور اس تناظر میں مقامی کرنسیاں قابلِ استعمال رہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک بینک کی حیثیت سے آئی ایم ایف جب کسی ملک کو قرض دیتا ہے تو اس قرض کی واپسی کا سامان بھی طے کرتا ہے۔ پاکستان جیسے کمزور اور ضرورت مند ممالک آئی ایم ایف کی عموماً تمام شرائط مان جاتے ہیں اور قرض کی رقم مل جانے کے بعد پھر وہی طریقۂ کار اپنا لیا جاتا ہے، جہاں دنیا کی بڑی اور مشہور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں Credit Rating Agencies ان ممالک کی درجہ بندی بہتر کرتی چلی جاتی ہیں اور یوں دیگر ممالک اور بینک قرضوں کی رقوم کا بند کھول دیتے ہیں اور بڑے بڑے پراجیکٹس کی آڑ میں لوٹ مار کا ایک بازار گرم کیا جاتا ہے۔ قرض کی رقم سے حاصل ہونے والی لوٹ کی رقم دوبارہ ان ممالک اور بینکوں میں پہنچ جاتی ہیں جہاں سے وہ چلی تھیں، لیکن اس اثنا میں ایک طرف قوم مقروض اور غلامی میں دھنستی چلی جاتی ہے اور دوسری جانب اُس ملک کی اشرافیہ امیر سے امیر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ نتیجتاً ملک کوایک نئے قرض کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
کرونا کی وبا سے قبل آئی ایم ایف اور پاکستان کے مابین غیر ٹیکس آمدن سے وصولیاں بڑھا کر خسارہ کم کرنے کے معاملات طے پاگئے تھے، لیکن کروناکی مہاماری نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا اور حکومت کو 1200 ارب روپے کا ریلیف پیکج دینا پڑا۔ اب اس پیکج کی واپسی کا ٹائم آن پہنچا ہے۔ چناںچہ حکومت پر دباؤ کے باوجود بجلی اور ایندھن کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں۔ کرونا کی دوسری لہر کے پیشِ نظر حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہیں کیا، جو ایک خوش آئند قدم تھا۔ دوسرا بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے سرکولر ڈیٹ کی ادائیگی کے حوالے سے بھی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
دراصل ان ا قدامات نے معیشت پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں اور اس محدود مدت میں برآمدات میں اضافے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر نے کرونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنے میں خاطر خواہ مدد کی ہے۔ رواں مالی سال میں اب تک ان مدات میں 3 ارب ڈالر تک ملکی معیشت میں آچکا ہے، لیکن یہ اب بھی ملکی اخراجات اور خرچ کی نسبت کا نصف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سرکار نے تعمیراتی پیکج (construction package) کی مشروط اجازت دے رکھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سہولت سے کتنا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اگر بجلی اور تعمیراتی پیکج سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوئے تو مہنگائی کی ایک بڑی اور تباہ کن لہر کے لیے تیار رہیں۔
Tags
Muhammad Kashif Sharif
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
1997ء ایشیائی کرنسی بحران میں پاکستان کے لیے سبق
1997ء میں ایشیائی کرنسی بحران میں مشرقِ بعید کے تمام ممالک خاص طور پر‘ اور دُنیا کے دیگر ممالک عام طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے متأثر ہوئے تھے، جنھیں آج کا پاکستان ب…
قرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
پاکستان کو موجودہ مالی سال کے آمدہ چار ماہ میں قرضوں کی ادائیگی اور اپنی ضروریات کے لیے 10 ارب ڈالر کا اضافی قرض درکار ہے اور آمدہ مالی سال کے دوران انھی مدات میں 20 سے …
سیاسی طُفیلیے اور معاشی مسائل کا حل
بقا کے لیے جدوجہد ہر مخلوق کا خاصہ ہے۔ اور یہ معاملہ انسان کو درپیش ہو تو جدوجہد اجتماعیت کا رنگ لیے بغیر نہیں رہتی۔ اعلیٰ درجے کی اجتماعیت قائم کرنے کے لیے شعوری جدوجہد …